فلسطینی علاقوں میں ممکنہ اسرائیلی جنگی جرائم: عالمی عدالت میں تحقیقات کی راہ ہموار

Israel Attack

Israel Attack

ہیگ (اصل میڈیا ڈیسک) ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے ججز نے کہا ہے کہ غزہ، غرب اردن اور یروشلم جیسے علاقوں سے متعلق انہیں تحقیقات کا اختیار ہے۔ فلسطینیوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ اسرائیل نے اسے ’سیاسی‘ فیصلہ قرار دیا۔

ہیگ میں واقع بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے جمعہ پانچ فروری کو اپنے ایک اہم فیصلے میں کہا کہ سن 1967 کی جنگ کے بعد جن فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ہے، وہ علاقے اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور ایسے علاقوں سے متعلق بین الاقوامی فوجداری عدالت تحقیقات کر سکتی ہے۔

تین رکنی بینچ کے دو ججوں کی اکثریت نے یہ فیصلہ کیا جبکہ ایک جج نے اس کی مخالفت کی۔ اس فیصلے میں کہا گيا ہے، ’’یروشلم سمیت غزہ اور غرب اردن‘‘ جیسے مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر اسے فیصلہ کر نے کا اختیار حاصل ہے۔

اس فیصلے کی روشنی میں اب ہیگ میں واقع ٹرایبیونل کی چیف پراسیکیوٹر کے لیے اسرائیلی فوج کی کارروائیوں سے متعلق جنگی جرائم کی تحقیقات کر نے کا راستہ ہموار ہو گيا ہے۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت کی پراسیکیوٹر فاتو بن سوڈا نے سن 2019 میں کہا تھا کہ سن 2014 کے دوران غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج نے جو کارروائیاں کی تھیں، اس سے متعلق جنگی جرائم کی تحقیقات کی ’معقول بنیاد‘ موجود ہے۔

انہوں نے اس کے لیے اسرائیلی فوج اور فلسطینی حماس گروپ کو ممکنہ ذمہ دار بتایا تھا۔ سن 2014 میں اسرائیلی فوج اور حماس کے درمیان ہونے والی لڑائی میں تقریبا 2000 فلسطینی اور 60 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔

گامبیا سے تعلق رکھنے والی وکیل فاتو بن سوڈا نے غرب اردن میں اسرائیل کی جانب سے نئی بسیتوں کی تعمیری سرگرمیوں کے بارے میں بھی تفتیش کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔

لیکن انہوں نے عدالت سے کہا تھا کہ پہلے عدالت اس بات کا فیصلہ کرے کہ آیا اسے ان معاملات کی سماعت کا اختیار بھی ہے یا نہیں۔ اسی پس منظر میں عدالت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ فلسطینی مقبوضہ علاقوں سے متعلق کیسز کی تفتیش اور سماعت کا اسے اختیار حاصل ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجیمن نتن یاہو نے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت، ’’انصاف کا ادارہ ہونے کے بجائے ایک سیاسی ادارہ ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت اصل جنگی جرائم کو نظر انداز کر کے اسرائیلی ریاست کے پیچھے پڑی ہے، ایک ایسی ریاست جو مضبوط جمہوری طرز حکومت کے ساتھ ساتھ قانون کی حکمرانی کی قائل ہے۔‘‘

فلسطینی اتھارٹی کے شہری امور سے متعلق وزیر حسین الاشیخ نے عالمی عدالت کے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے اسے ’دنیا میں سچائی، انصاف، آزادی اور اخلاقی قدروں کی فتح‘ قرار دیا۔

فلسطین نے سن 2015 میں بین الاقوامی عدالت میں شمولیت اختیار کی تھی اور تبھی سے جنگی جرائم کے کیسز کی تفتیش کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔

اسرائیل چونکہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا رکن نہیں ہے اس لیے اس کا موقف یہ ہے کہ عدالت کو ان کیسز کی سماعت کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ چونکہ فلسطین کوئی خود مختار ریاست نہیں اس لیے وہ اس کی قوم یا علاقے کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مقدمہ کرنے کی مجاز نہیں ہے۔

لیکن بین الاقومی فوجداری عدالت کا موقف ہے کہ وہ اسرائیلی حکام کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری کر سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو اسرائیل حکام کے لیے بیرونی ممالک کا سفر مشکل ہو سکتا ہے۔

عالمی برادری کے مطابق مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی جانب سے بستیوں کی تعمیر عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل نے سن 1967 کی جنگ کے دوران غرب اردن، غزہ اور مشرقی یروشلم جیسے علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا جبکہ فلسطینی انہیں علاقوں پر مستقبل میں اپنی ریاست چاہتے ہیں۔

اسرائیل نے فلسطین کے جن مقبوضہ علاقوں میں بستیاں تعمیر کی ہیں ان میں اس وقت سات لاکھ سے بھی زیادہ یہودی آباد ہو چکے ہیں۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ یہ عمل خطے میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔