پام آئل کینسر کے پھیلاؤ کا باعث، نئی تحقیق

Palm Oil

Palm Oil

بارسلونا : پام آئل میں موجود پالمیٹک ایسڈ سرطان کے خلیات کے جینز کو تبدیل کر کے ان سے میٹاسٹیسیس بننے کے امکانات کو بہت بڑھا دیتا ہے، جو کینسر سلز کے ایک عضو سے دوسرے تک پھیلاؤ کا باعث بنتے ہیں۔

ہسپانوی شہر بارسلونا کے بائیو میڈیسن کے ایک ریسرچ انسٹیٹیوٹ IRB کے محققین نے اپنے تجربات کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ پام آئل میں ایک چربی کا مالیکول جسے پالمیٹک ایسڈ کہا جاتا ہے، کینسر یا سرطان کے جینوم کو تبدیل کر کے اسے جسم کے ایک عضو سے دوسرے تک پھیلانے میں غیر معمولی کردار ادا کرتا ہے۔

میٹاسٹیسیس اب بھی کینسر کے مریضوں میں موت کی سب سے بڑی وجہ ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ میٹاسٹیسیس کے شکار مریضوں کو صرف علاج فراہم کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے تاہم انہیں شفا یا اس موذی بیماری سے نجات نہیں دلائی جا سکتی۔

طبی اندازوں کے مطابق سرطان کے سبب ہونے والی ہلاکتوں کے 90 فیصد کا ذمہ دار میٹاسٹیسیس ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال قریب 9 ملین مریضوں کی اموات میٹاسٹیسیس کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

معروف جریدے ‘نیچر‘ میں شائع ہونے والے چوہوں پر کی جانے والی ایک تحقیق کے نتائج حال ہی میں شائع ہوئے۔ ان کے مطابق پام آئل میں موجود پالمیٹک ایسڈ کے چوہوں پر منفی اثرات اس طرح مرتب ہوئے کہ اس ایسڈ سے بننے والے میٹاسٹیسیس چوہوں کے مُنہ کے اندر کینسر اور جلد کے کینسر کا سبب بنے جسے ‘میلانوما اسکن کینسر‘ کہا جاتا ہے۔ چوہوں پر پام آئل کے ساتھ ساتھ دیگر فیٹی ایسڈز، جیسے کہ اولیو آئل یا زیتون کے تیل اور لینولک ایسڈ یا ناسر شدہ چکنائیوں کا مائع تیزاب جو السی کے بیج کا تیل ہوتا ہے، کا یکساں اثر نہیں ہوا۔

اس نئی تحقیق پر مبنی جائزہ رپورٹ کے مصنفین نے کئی ‘میموری مارکر‘ کی بھی نشاندہی کی ہے جو سرطان کے ٹیومر کے خلیوں میں باقی رہتے ہیں۔ ان کا کام خلیات میں ردوبدل کرنا ہے اس طرح کہ وہ سلز یا خلیے پالمیٹک ایسڈ سے اثرانداز ہونے کے کئی مہینے بعد تک میٹاسٹیسیس یا سرطان کے جینوم کو ایک عضو سے دوسرے میں منتقل کرنے کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت کو برقرار رکھتے ہیں۔

بارسلونا کے محققین کو 2016 ء میں ہی پتا چل گیا تھا کہ ٹیومر سلز کو اصل ٹیومر سے دور کہیں زندہ رہنے کے لیے جس غذائیت کی ضرورت ہوتی ہے اس کا بندو بست پروٹین CD36 کرتا ہے اور اس پروٹین کے اثرات سب پہلے ہی انسانی جسم میں رحم، مثانے اور پھیپھڑوں کے کینسر کی صورت میں سامنے آ چُکے ہیں۔

بارسلونا میں ہونے والی تحقیق کے مطابق ڈاکٹر ہیلن رپن ‘ دنیا بھر میں ہونے والی کینسر ریسرچ‘ کی ایگزیکٹیو ڈائرکٹر کہتی ہیں،” خوراک اور کینسر کے درمیان تعلق کے بارے میں ہمیں ایک بات سمجھ میں آئی ہے۔ یہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔ اس ضمن شاید زیادہ اہم یہ بات ہے کہ ہم اس بارے میں نئے علم اور جانکاری کو کینسر یا سرطان کے علاج کے لیے کس طرح استعمال کر تے ہیں۔‘‘

ممکنہ علاج کے ضمن میں پروفیسر سلواڈور ازنر بینیتاہ، بارسلونا کے بائیو میڈیسن کے ریسرچ انسٹیٹیوٹ IRB کے محققین کے گروپ کے ایک سینیئر لیڈر نے اس مطالعاتی رپورٹ کا اگلے چند سالوں میں شروع ہونے والے ایک منصوبے بند طبی مطالعے کا حوالہ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں،” میرے خیال میں اس بات کا تعین کرنا قبل از وقت ہوگا کہ میٹاسٹیٹک کیسنر کے مریض میٹاسٹیٹک عمل کو سست رفتار بنانے کے لیے کس قسم کی غذا کا استعمال کرسکتے ہیں۔ تاہم ہمارے نتائج کی بنیاد پر کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ پالمیٹک ایسڈ کی بہت کم مقدار والی غذائی اجزا کا استعمال جسم میں میٹاسٹیسٹیک عمل کو سست رفتار بنا سکتا ہے، لیکن اس بارے میں ابھی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔‘‘

ایک عرصے سے پام آئل کے بارے میں شبہات پائے جاتے ہیں کہ یہ ذیابیطس، ویسکیولر یا رگوں سے متعلق امراض اور کینسر سلز کی نشو ونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک طرف تو یہ فیٹی ایسڈ کے غذا میں زیادہ تناسب کی موجودگی کی وجہ سے ہوتا ہے دوسری جانب صنعتی پروسیسنگ کے دوران سرطان پیدا کرنے والے مادوں کی پیداوار بھی اس کی وجہ بنتی ہے۔

جب پام آئل کو تیز حدت پر گرم کیا جاتا ہے تو اس سے 3-MCPD فیٹی ایسڈ اور گلائیسیڈول فیٹی ایسڈ ایسٹرز بنتے ہیں۔ یوں فیڈرل انسٹیٹیوٹ فار رسک اسسمنٹ FBR نے سرطان پیدا کرنے والے فیٹ کی درجہ بندی کی ہے۔

ان حقیقتوں کے سامنے آنے کے باوجود پام آئل اب بھی متعدد چاکلیٹ اسپریڈز، پرالینز، چپس، چاکلیٹ بارز، موسلی اجزاء اور بسکٹ کے علاوہ مارجرین، بچوں کے تیار شدہ کھانوں اور دیگر تیار شدہ کھانوں میں موجود ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ پام آئل ڈٹرجنٹ اور کاسمیٹکس، صابن اور موم بتیوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ پام آئل کے کثرت استعمال کی وجہ یہ ہے کہ پام آئل سورج مکھی یا ریپسیڈ آئل سے کافی سستا ہوتا ہے۔