پینڈورا پیپرز: تمام ناموں کی چھان بین ہو گی، عمران خان

Pandora Papers

Pandora Papers

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) دنیا بھر کے مختلف ممالک کی ہزاروں سرکردہ سیاسی، سماجی، کاروباری اور مذہبی شخصیات سالہا سال تک اپنے بیرون ملک رکھے گئے کھربوں ڈالر کے اثاثے چھپاتی رہی ہیں۔ ان میں تقریباﹰ سات سو پاکستانیوں کے نام بھی شامل ہیں۔

پینڈورا پیپرز کے نام سے جاری کردہ یہ ڈیٹا دنیا کے 117 ممالک میں 150 سے زائد میڈیا اداروں کے 600 کے قریب تحقیقاتی صحافیوں نے طویل چھان بین کے بعد جمع کیا اور اسے اتوار تین اکتوبر کی رات تحقیقاتی صحافیوں کے انٹرنیشنل کنسورشیم آئی سی آئی جے نے جاری کیا۔

ان پیپرز میں روسی صدر پوٹن کے قریبی حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھیوں کے نام بھی آتے ہیں۔ مختلف نیوز ایجنسیوں نے لکھا ہے کہ ان پیپرز میں پاکستان سے یا پاکستانی نژاد تقریباﹰ 700 ایسے افراد کے نام شامل ہیں، جن میں متعدد سابق اعلیٰ فوجی افسران بھی ہیں۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا نام ان پیپرز میں براہ راست تو نہیں ہے تاہم اس ڈیٹا کو جاری کرنے والے کنسورشیم کے مطابق عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں کے ناموں کا ان پیپرز میں ذکر ہے۔

عمران خان کی کابینہ کے ارکان میں سے ان پیپرز میں جو نام شامل ہیں، ان میں ایک نمایاں نام موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین کا بھی ہے۔ ان پاکستانی شخصیات کے بارے میں پینڈورا پیپرز کے مرتب کنندگان نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر خفیہ کمپنیوں یا ٹرسٹ ظاہر کیے گئے اداروں میں کئی ملین ڈالر چھپائے، جن کی موجودگی کا کسی کو کبھی کوئی علم ہی نہیں تھا۔

پاناما نہر بھی بینکوں کے طرح انتہائی اہم ہے۔ 1914ء میں اس کا باقاعدہ افتتاح ہوا تھا اور تب سے یہ اس ملکی آمدنی میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ اس نہر کی وجہ سے بحری جہاز بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے درمیان سفر کر سکتے ہیں۔ اس نہر سے پہلے بحری جہازوں کو کم از کم تین ماہ زیادہ سفر کرنا پڑتا تھا۔

ان پیپرز کے مندرجات سامنے آنے کے بعد پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ایک ٹویٹ میں عہد کیا کہ ان دستاویزات میں جتنے بھی پاکستانیوں کے نام شامل ہیں، حکومت ان سب کے بارے میں چھان بین کرے گی۔

عمران خان نے لکھا کہ ایسے تمام پاکستانی شہریوں کے اثاثوں کی تفتیش کرنے کے بعد جن رقوم کا غیر قانونی طریقے سے حاصل کیا جانا ثابت ہو گیا، وہ تمام اثاثے برآمد کر کے مالیاتی شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا۔

یہ معلومات 14 مختلف اداروں سے جمع کردہ ان تقریباﹰ 12 ملین فائلز پر مشتمل ہیں، جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کس طرح گزشتہ تقریباﹰ ایک چوتھائی صدی کے دوران مختلف ممالک میں اہم سیاسی، کاروباری اور سماجی شخصیات نے مبینہ طور پر ٹیکسوں سے بچنے کے لیے اپنی بےتحاشا رقوم بیرون ملک ان آف شور اکاؤنٹس میں رکھیں، جن کا ان کے آبائی ممالک کی حکومتوں کا کوئی علم نہیں تھا۔

مختلف خبر رساں اداروں نے اس موضوع پر جو تفصیلی رپورٹیں اور تجزیے جاری کیے ہیں، ان کے مطابق ان سرکردہ بین الاقوامی شخصیات میں صرف عوامی نمائندے اور انتہائی امیر کاروباری افراد ہی شامل نہیں، بلکہ ان میں منشیات کے ایسے بڑے تاجر بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنے آف شور اثاثوں اور املاک کو مسلسل چھپائے رکھا۔

پینڈورا پیپرز کے عنوان سے جاری کردہ اس ڈیٹا کے مطابق ان عالمی شخصیات میں مختلف براعظموں کے بیسیوں ممالک کے 330 سے زائد موجودہ یا سابقہ سیاست دان بھی شامل ہیں۔

ان میں اردن کے شاہ عبداللہ ثانی، برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر، چیک جمہوریہ کے موجودہ وزیر اعظم آندرے بابس، کینیا کے موجودہ صدر کینیاٹا اور ایکواڈور کے موجودہ صدر لاسو تک کے نام بھی شامل ہیں۔

مختلف برطانوی امدادی تنظیموں کے کنسورشیم آکسفیم نے پینڈورا پیپرز کے اجرا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان ایک کروڑ سے زائد فائلز سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ کس طرح مختلف ممالک میں امیر شخصیات اپنے لالچ کی وجہ سےخود کو ٹیکس ادا کرنے سے بچانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔

افریقی ملک صومالیہ 9 پوائنٹس حاصل کر کے 180ویں نمبر پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سن 2016 میں صومالیہ کے دس پوائنٹس تھے جب کہ اس سے گزشتہ تین برسوں کے دوران بھی یہ ملک آٹھ کے اسکور کے ساتھ کرپٹ ترین ملک رہا تھا۔

آکسفیم کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر چھپائی گئی یا ٹیکسوں کے طور پر ادا نہ کی جانے والی یہ وہ رقوم ہیں، جن کے بارے میں آگہی سے یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ مختلف ممالک میں عوامی فلاح اور طبی شعبے کی بہتری کے لیے استعمال ہو سکنے والا سرمایہ آخر کہاں چلا جاتا ہے۔

پاناما پیپرز
پینڈورا پیپرز پیشہ وارانہ تحقیقات کرنے والے صحافیوں کے جس کنسورشیم نے جاری کیے ہیں، اسی انٹرنیشنل جرنلسٹس کنسورشیم نے ہی 2016ء میں بھی پاناما پیپرز کے نام سے وہ لاکھوں دستاویزات جاری کی تھیں، جن کے بعد بھی پوری دنیا میں اسی طرح ہزاروں سرکردہ سیاسی، سماجی اور کاروباری شخصیات کے نام سامنے آئے تھے اور دنیا بھر میں ایک تہلکہ مچ گیا تھا۔