مکافات عمل

Parents with Children

Parents with Children

تحریر : وقار النساء
اللہ تعالی نے والدین کا رشتہ بہت خوبصورت اور خالص بنایا جو اپنے بچوں کی خوشیوں میں خوش اور ان کی چھوٹی چھوٹی پریشانیوں سے بے چین اور بے قرار ہو اٹھتے ہیں یہ ہستیاں اپنے مقدور بھر سہولتیں اور آشائشیں بہم پہنچا کراپنی ذمہ داریاں پوری کرتے اور اپنے فرائض کو ادا کرتی ہیں -اپنی زندگی اور جوانی کو اپنی بچوں کی خوشیوں پر قربان کر دیتے ہیں اور اس وقت وہ یہ نہیں سوچتے کہ اولاد بڑی ہو کر ان کے حق میں کیسی ہو گیھمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جنت کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت سے محسوس ہو گی لیکن والدین کی نافرمانی کرنے والے لوگ اس سے محروم رہیں گے طبرانیاسلام نے نہ صرف والديین کی خدمت کا حکم دیا بلکہ ان سے ا حسان کی تاکید کی ہے-اور احسان کا درجہ خدمت سے بڑھ کر ہے

قرآن مجید میں ہے ترجمہ- والدین سے حسن سلوک کرو یعنی ان کی اتنی خدمت نہ کرو کہ جتنی انہوں نے کی بلکہ اتنی زيیادہ ہو کہ وہ احسان نظر آنے لگے اردو کا مشہور مقولہ ہے انسان جو بوتا ہے وہ کاٹتا ہے – دنیا کو اسی لئے مکافات عمل یعنی انسان کے عمل کی سزا یا بدلہ کہا گیا ہے مجھے ایک حقیقی واقعہ سننے کو ملا کہ جس نے مجھے یہ لکھنے پر مجبور کیا- انگلینڈ میں انٹر پاس کرتے ہی بيیاہ کر آنے والی لڑکی جو والديین کی اکلوتی اولاد تھی پاکستان ان کے پڑوس میں ایک فیملی تھی- خاتون خانہ کے انتقال کے بعد صاحب خانہ اپنے اکلوتے بيیٹے کی پرورش کی ذمہ داری خود نبھانے لگے اور اس خطرے کے پیش نظر کہ سوتیلی ماں کہیں اس پر زیادتی نہ کرے اس نے شادی نہ کی

انگلینڈ میں مقیم لڑکی کے والدین حادثاتی طور پر اس جہان سے رخصت ہوگئے اب اس کے پاس پاکستان جانے کا کوئی جواز نہ تھا اور نہ ہی اس کا دل مانتاکہ وہ پاکستان ایسے جائے کہ اس کے مہربان ماں باپ اسے وہاں نہ ملیں-اسے اکثر وہ پڑوسی یاد آتے کہ جہاں ماں دنیا سے رخصت ہوئی تو والد نے اپنے بيٹے کو پيار سے پالا اور اس خیال سے شادی نہ کی کہ مبادا اس شادی کے بعد بچے ہوں تو اس بیٹے کی کوئی حق تلفی ہو کیوں کہ اس کی ماں اس دنیا میں نہیں تھی –وہ سوچتا کہ اس کا بچہ کسی احساس کمتری کا شکار نہ ہو جائے

Sad Girl

Sad Girl

پردیس میں اپنے والدین سے بچھڑ کر اس لڑکی نے بہت ساراوقت گزار دیا –لیکن اس گھرانے کو وہ اکثر یاد کرتی رہتی بالاخر ایک طویل عرصہ بعد وہ پاکستان گئی اپنے پرانے پڑوس میں بھی گئی اس نے پڑوسیوں سے ان باپ بیٹے کا پوچھا جس کے جواب میں انہوں نے کہا تم کل آنا ھم تمہیں ان سے ملوائیں گے دوسرے دن وہ گئی اور اس بارے میں استفسار کیا –اس کے سامنے ایک جوان لڑکا تھا جس نے اپنے گلے میں پانی کی بالٹی لٹکا رکھی تھی جس میں ایک گلاس بھی تھا وہ تھوڑی تھوڑی دیر میں گلاس میں پانی لے کر گھونٹ بھرتا یہ کون ہے اس نے پوچھا ؟

یہ ہی وہ لڑکا ہے –اس کے باپ نے اس کو مشکل سے پالا پڑھایا لکھایا پھر وہ باپ بیمار پڑ گیا –شدید بیمار کھانسی کے دورے پڑتے اس کے ہونٹ خشک ہوتے اور وہ بار بار بیٹے سے پانی مانگتا –لیکن بیٹا اس سے تنگ آ گیا اور کہتا کہ مر کر جان کیوں نہیں چھوڑ دیتے میری –ہر وقت پانی! پیاس ہی ختم نہیں ہوتی تمہاری اسی طرح ايک دن ایسے ہی دورے نے اس باپ کی جان لے لی – دنیا مکافات عمل ہے اپنے کئے کی سزا انسان ضرور پاتا ہے جب سے یہ اس عجیب وغریب بیماری کا شکار ہے اسے ہروقت پیاس لگتی ہے یہ گلے میں بالٹی لثا کر رکھتا ہے کیونکہ پیاس کی شدت اس قدر ہوتی ہے کہ پانی ڈال کر پینے کا سوال پیدا نہیں ہوتا جلدی سے پینا چاہتا ہے –اس کی پیاس نہیں بجھتی
يہ حقیقی کہانی ایک سبق ہے سب کے لئے

ALLAH

ALLAH

اپنے عمل کی سزا انسان کو مل جاتی ہے پھر بھی انسان کیوں بھلا بیٹھا ہے –جانتے ہوئے بھی راہ راست اختیار نہیں کرتا -اپنے اتنے مخلص اور مہربان رشتوں کی نافرمانی کر کے اپنی دنیا اور آخرت تباہ کر لیتا ہے اللہ سمجھ اور شعور عطا فرمائے -اپنے والدین کی فرمانبرداری اور خدمت کی توفیق دے آمین اگر کوئی اس راستے سے بھٹک گیا ہے تو خدارا واپس آجائے –اگر یہ واقعہ کسی کی آنکھیں کھول دے تو میرا لکھنے کا مقصد پورا

تحریر : وقار النساء