ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کا خوف

 Imran Khan,Tahir ul Qadri

Imran Khan,Tahir ul Qadri

ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ عمران کی للکار ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کا خوف ہے سٹیٹس کو کے ساتھ کھڑی اُن قوتوں کیلئے خطرے کا نشان ہے جو دانشوری کے نام پر 18 کروڑ عوام کے پر نوچتے رہے ایک مخصوص ذہنیت مستقبل میں خود کو موت سے دوچار ہوتا دیکھ رہی ہے کئی روز سے ایک سوال کا سامنا ہے کہ کیا سول آمریت اور خاندانی بادشاہت کا جھوٹا جاہ و جلال اور اندھی طاقت موت سے دوچار ہونے والی ہے؟۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سیاسی اور سماجی خاموزی میں گہرا شور بہت کم کانوں کو سنائی دیتا ہے کسی بڑے طوفان کے پھوٹنے کے آثار اور علامات کو بہت کم لوگ پرکھتے ہیں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے موجودہ نظام کے خلاف جس طرح انقلابی بغاوت اور عوامی سر کشی کی بنیاد رکھی اِ س کی اُمید بہت کم تھی مگر یہ بغاوت ،یہ عوامی سرکشی اس نہج پر آگئی کہ یہ دو نظریوں کی جنگ بن گئی وہ ساری قوتیں جو ”خاندانی سیاست بچائو ”کی حامی تھیں عوام کے بنیادی حقوق کے استحصال پر جن کی سیاست کی سانسیں چل رہی تھیں اُن کو اپنی ”سیاست ”کا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا تو ایک جعلی فورم پر اکٹھی ہو گئیں اور ”بادشاہ سلامت ”کو بچانے کیلئے اُن کا منافقانہ کردار اُبھر کر سامنے آیا۔

حیف کہ 18کروڑ عوام کے اذہان میں ایک مخصوص ذہنیت کی غلامی کا زہر بھرنے والے بکے ہوئے دانشور ،تجزیہ نگار عوامی انقلاب کے امکانات کو اپنی تحریروں ،تجزیوں میں مسترد کرتے نظر آتے ہیں یہ وہ عوام دشمن ،وطن فروش افراد ہیں جو اپنی تحریروں کے اندھے آئینے میں جابر حکمرانو ں کو مسیحا دکھانے میں پیش پیش ہیں ان منطقی فلسفہ اور سطحی سوچ کے حامل ”وظیفہ خور ”مفکرین کو اپنی بساط لپٹنے کی فکر ہے یہ خوف لاحق ہے کہ اگر خاندانی جمہوریت کا خاتمہ ہوا تو ہم ”زیرو پوائنٹ ”پر کھڑے ہوں گے امریکہ کی ننگی تہذیب میں ”پاکستان کے ماجھے لوہار ”کے مسائل سے نابلد کوئی داشتہ مکتوب کے ذریعے اپنے آقائوں کی نمک حلالی میں مگن ہے۔

خاندانی حکمرانی کے مفادات کے تابع یہ نام نہاد حادثاتی فنکار ،جھوٹے اختلافات اور نان ایشوز عوام پر مسلط کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ضمیر بیچ کر حقائق مسخ کرنے والے ان قلم قوالوں کے چہرے سے شہر اقتدار میں لگی عوامی عدالت نے نقاب کھینچ لیا ہے نام نہاد ”مفادات بچائو ”جمہوریت کی آڑ میں ان کا حقیقی عوام دشمن چہرہ ننگا ہو چکا ہے اور آج جب وطن عزیز کا شعور جاگا ہے تو زرد صحافت کا لباس زیب تن کئے ان کالی بھیڑوں نے ”شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ”بننے کیلئے عوام پر حملے شروع کر رکھے ہیں۔

Revolution March

Revolution March

ان چند کالی بھیڑوں کے کردار کو دیکھ کر اکثر دوست بھولپن میں مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر میڈیا کے یہ افراد اسی طرح جھوٹ بولتے رہے تو عوام کو سچائی کا ادراک کیسے ہوگا ؟عوامی انقلاب کی راہ کیسے متعین ہوگی ؟میں اُنہیں یہ کہہ کر مطمئن کرتا ہوں کہ 18کروڑ باسیوں کی روز مرہ زندگی ہمیں یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ اس سماج میں لوٹ مار کے نام پر ایکا کرنے والوں نے کتنا ظلم، ناانصافی، سفاکیت برپا کر رکھی ہے۔

انقلابات رد انقلاب کی قوتیں میڈیا کی چند کالی بھیڑوں کے کردار سے نہیں رکتے عوامی تحریکوں میں رکاوٹ استحصالی طبقہ کے وظیفہ خور دانشوروں کے کردار سے نہیں آتی اور نہ ہی انقلابی پارٹیوں کے وجود کو ان سے خطرہ ہوتا ہے بلکہ ایسے منافقانہ کرداروں کی منافقت سے سماج میں موجودتضادات پک کر لاوا بن جاتے ہیں سرمائے کی زنجیروں کے غلام یہ نام نہاد دانشور اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وطن عزیز کے حقیقی تضادات کو جھوٹ کے ذریعے چند ٹکوں کی چمک پر دبایا جا سکتا ہے تو اُنہیں جان لینا چاہیئے کہ گندگی کو قالین کے نیچے چھپایا جائے تو وہ ایک وقت میں گینگرین بن جاتی ہے اے آر وائی ،سما نیوز،دنیا مبشر لقمان ،کاشف عباسی ،صابر شاکر ،معید پیرزادہ ،سمیع ،ندیم ملک ،عمران خان ،ڈاکٹر دانش ،قلمکار حسن نثار ،ارشاد احمد عارف ،،حافظ شفیق الرحمان ،عمار چوہدری ،زیبانورین ،بشریٰ اعجاز عوام کی حقیقی جنگ لڑ رہے ہیں انتہائی نامساعد حالات میں سچ کے کھوج میں قربانی دے رہے ہیںمذکورہ چینلز کے مجاہد گولیوں کی بوچھاڑ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں مگر سرمائے کی غلامی میں میڈیا کے چند اداکار نہ تو سچائی کو منظر عام پر لارہے ہیں اور نہ ہی عوام کے بنیادی حقوق کو اُجاگر کر رہے ہیں وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ مصر اور دیگر عرب ممالک کے انقلابات میں یہ واضح نظر آتا ہے کہ جب تحریر اسکوائر میں لاکھوں لوگ جمع تھے تو مصر کا حکومت کے ہاتھوں بکا ہوا میڈیا دکھا رہا تھا کہ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے اور تحریر اسکوائر میں ٹریفک رواں دواں ہے تمام ٹی وی چینلز اور اخبارات انقلاب دشمنوں کے ہاتھوں میں تھے انٹر نیٹ تک کو بند کردیا گیا مگر مصر کی قدیم تہذیب کے باسیوں نے اکیسویں صدی میں انقلاب کو پھیلانے کیلئے ایک قدیم طریقہ استعمال کیا جو انسانی آواز کا تھا ایک گلی سے دوسری گلی میں ،ایک محلے سے دوسرے محلے میں اور ایک شہر سے دوسرے شہر انقلابیوں نے خود اپنی آواز کے ساتھ پیغام رسانی کی اور انقلاب کو منظم کیا۔

وطن عزیز میں سرمایہ داری کے جس کھیل میں نام نہاد صحافی بطور کھلاڑی حسہ لے رہے ہیں اُن کو باور کرانا ضروری ہے کہ 18کروڑ آنکھوں میں اب دھول نہیں جھونکی جاسکتی غربت ،مہنگائی ،بیروز گاری ،بد عنوانی ،تشدد ،ناخواندگی ،لاعلاجی ،محنت کشوں کے خون پسینے اور آنسوئوں کو نچوڑ لینے والے استحصال ،بجلی ،پانی و دوسری سہولیات سے محرومی اور سٹاک مارکیٹ کے جوئے کی ڈاکہ زنی تمہارے محافظ سرمایہ دارانہ خاندانی نظام کا بنیادی حصہ اور ضرورت ہے 68برسوں سے خاندانی ملکیت کو رائج کرنے والا یہ نظام اٹھارہ کروڑ افراد کے بنیادی نظریات پر دقیق اور زہریلے حملے کرتا رہا ہے اب تمھارے میر جعفرانہ ،میر صادقانہ کردار کو تاریخ اور 18کروڑ عوام معاف نہیں کریں گے عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی مستقل مزاجی ،حب الوطنی کی للکار لرزہ براندام کر دیا ہے کہ یہ دو نظریات کی جنگ ہے ظالم اور مظلوم کی جنگ ،منافقت اور سچائی کی جنگ ،طاقتور اور کمزور کی جنگ جس نے چہرہ سناسی کرادی ہے کہ ایک طبقہ جو 68برسوں سے قائد اعظم کے پاکستان پر مسلط ہے کتنا پاپی اور کتنا بڑا مجرم ہے اور جس نظام کی بقا کیلئے جعلی اسمبلی میں وہ جنگ لڑ رہا ہے اُس نظام کہنہ میں انسان گم ہورہا ہے انسانیت شکست خوردہ اور حیوانیت نما آدمیت فتح مند رہی ہے مگر اب تو تقدیر نہیں صرف تسخیر کا عمل بقا پائے گا۔

 M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر: ایم آر ملک