عوام, جمہوریت, مہنگائی, آمریت

 Democracy

Democracy

یہ لفظ ،عوام، مہنگائی، جمہوریت، آمریت، آج ہی نہیں کل بھی پرنٹ میڈیا یاالیکٹرانک میڈیا، اسمبلی فورم یا کیپیٹل ٹاک، یا نتھے خاں کا چھپر ٹی سٹال غرض ہر فورم ہر مقام حتیٰ کہ عدلیہ کے فورم پر یہ الفاظ اِس تواتر سے روز مرہ استعمال جاتے ہیں کہ اب یہ اپنی معنویت کھو چکے ہیں۔ اب گزشتہ چند برسوں سے دشت گردی کی اصطلاح جس میں ہزاروں پاکستانی اپنوں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں دشت گردی کہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے جماعت اسلامی کھل کھلا کر دشت گردوں کی حمائت میں سامنے آئی ،جب یہ کہا گیا کہ دشت گردوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے شہید نہیں ،جبکہ حکیم اللہ محسود امیر تحریک طالبان پاکستان شہید ہیں ، تو پھر داتا دربار پر خود کش بمبار بلکہ جہاں جہاں بھی خود کش حملہ آور ہلاک ہوأ وہ بھی شہید مگر پاکستانی مسلمان جنکی تعداد ٤٢ہزار سے زیادہ ہے جن میں،بچے ،خواتین وہ ہلاک ہوئے اور ٨ہزار ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے وہ جوان بھی شہید نہیں ، اب قوم دوحصوں میں تقسیم کر دی گئی ہے ،ہٹلرنے کہا کہ کسی قوم پر کاری ضرب لگانے سے پہلے اُس قوم کی نظروں میں فوج کو اتنا مشکوک کر دیا جائے کہ وہ اپنی فوج کو بھی اپنا دشمن سمجھنے لگے ۔

بعض دینی راہنماؤں کے بیانات جو واضح طور پر طالبان کی کھلی حمائت میں آ رہے، اور میں ان موضوعات پر لکھتے لکھتے گویا تھک گیا پھر وہی عوام وہی جمہوریت، وہی مہنگائی اور آمریت…آج تک کسی فورم پر عوام کی تعریف و تشریح نہیں کی گئی عوام سے کیا مراد ہے اُسکی شناخت اور پہچان کیا ہے کس دنیا میں رہتا ہے ، جون کی چلچلاتی دھوپ میں پتھیرکرنے والے مع اپنے بچوں کے عوام ہیں جن کے لئے کبھی کبھی کسی فورم پر مگر مچھ کے آنسوں بہائے دیکھے جاتے ہیں ، یہ ہرگز عوام نہیںیہ تو انسان نما دو پائے کیڑے مکوڑے حشرات الارض جو رینگتے رینگتے خاموشی سے موت کی وادی میں اتر جاتے ہیں، مگر وہاں یہ انسان نہیں جاتے. اگر تو یہ عوام ہیں تو پھر ڈیفنس،بحریہ ٹاؤن اور ایسی ہی جدید بستیوں میں رہنے والے جن کے بچے اعلےٰ درجے کے سکولوں میں حکمرانی کی تعلیم وتربیت حاصل کرتے وہ کون ہیں جن کی محل نما کوٹھیوں میں قیمتی سے قیمتی دو چار گاڑیاں ؟ملک میں کبھی جمہویت تھی نا ہے اور نہ مسقبل میںکبھی دیکھ پائیں گے ،یہاں شخصی اقتدار اور مفادات کے لئے جمہویت کا راگ الاپا جاتا ہے جو صرف دولت مندوں کا کھیل ہے جس میں جو جتنی سرمایہ کاری کرے گا اتنا نفع کمائے گا ،اورہر شخص الیکشن لڑتا ہے مگر پہلے ہی وزیر آعظم کے نعرے لگوائے جاتے ہیں۔

Election

Election

اگلے الیکشن کے لئے ٤ سال ہیں مگر آج ہی سے بلاول زرداری کے لئے آئندہ کے وزیر آعظم ہونگے آوازیں آنا شروع ہوگئی کیونکہ یہاں عوامی جمہوریت نہیں خاندانی جمہوریت ہے یہ سیاسی پارٹیاں عوام کو بیوقوف بنانے کے دلفریب نعرے لگاتی ،میاں صاحب نے ایک بڑے جلسے میں کہا۔ پی آئی اے اور ریلوے بند ہے غیر ملکی طاقتیں مزاق اڑاتی ہیں اقتدار میں آ کر سب سے پہلے بجلی،گیس کا بحران دور کریں گے بجلی گیس کی قیمتیں بڑھتی رہی تو چین سے نہیں بیٹھیں گے حکمرانوں نے قوم کو بھکاری بنا دیاکرپشن عروج پر حکمران جیبیں بھر رہے …” مگر یہ بیان مجبور و مقہور غریبوں کے کانوں میں رس گھولتے ہوئے فضاؤں میں تحلیل ہو گیا .. افسوس ووٹر کی سیاسی بصیرت …مگر نہیںاُس کی سیاسی تربیت انہی خطوط پر کی جاتی ہے کہ وہ ان نعروں کا اسیر ہوکر ….!اور اِس میں اہم کردار میڈیا ادا کرتا ہے ،عوام کو شخصیت پرستی پر لگا دیا گیا ،یہ بیچارا یہی سمجھتا ہے کہ بس میرے مسائل کا حل انہی کے پاس اِس نعرے میں…، زور دار تقریروں اور تحریروں میں یہی کہا جاتا ہے بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت اچھی مگر کبھی کسی نے یہ کھل کر وضاحت نہیں کی کہ کیسے … جہاں تک حقائق کا تعلق ہے ،رائج الوقت جمہویرت ، زرق برق جمہوری لبادے میں وقت کی بدترین آمریت …اور عوام کا استحصال کرنے کا بڑا مجرب نسخہ جمہویرت ،جس میں باری باری استحصالی طبقہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر مفادات حاصل کرتا ہے۔

پی پی پی حکومت ٧٣ کا آئین اپنی اصل حالت میں بحال کرنے کے لئے ١٨ ویں ترمیم لائی جس میں تیسری باری کی مفاہمت یا ڈیل کہیں، کیونکہ ١٧ ویں ترمیم کی اہم شِک پر کہ کوئی تیسری بار وزیرآعظم نہیں بن سکتا ٢٧ ممبر ان اسمبلی چھ ماہ تک کام کرتے رہے اور پھر…. میں نے تب ہی لکھا تھا کہ اگر ٧٣ کا آئین اپنی ابتدائی شکل میںبحال کرنا ہے تو بدنام زمانہ ٨ویں اور ١٧ ویں ترامیم کو اسمبلی میں حرف غلط کی طرح آئین سے مٹا دی جائیں آئین خود بخود اپنی اصل حالت میں بحال ہوجائے گا ،مگر صرف ایک ہی شِک کو ختم کرنا مقصود تھا میٹھا میٹھا ہپ اور ، اب یہ موجودہ ٨٥ ء کی کا آئین ہے ،اور نام ١٩٧٣کا آئین اب جمہوری ممالک میں پارٹیا ں الیکشن لڑتی ہیں عوام پارٹی کی پالیسی کو ووٹ دیتے ہیں کامیابی پر پارٹی قائد منتخب کرتی ہے اور یہاں جمہوریت محض ایک شخصیت کے گرد محو گردش ہوتی ہے جو ملک کے سیاہ سفید میں کلی اختیار رکھتا ہے.. ، رہا سوال مہنگائی کا تو یہ بھی بڑھے گی کبھی کم ہونے یا کبھی کسی ایک مقام پر رک جائے ممکن نہیں ،غریب کے لئے زندہ رہناتو مشکل ہے ہی کفن بھی مہنگا ہو گیا ہے۔

ہر کوئی دولت بنانے کے چکر میں ہے یہ ہوس زر ہے ،کہ اَخلاق کی تمام حدیں مسخ ہو چکی ہیں جس کہ لئے جائز اور ناجائز ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے اور اب کوئی چیز اپنی اصلی حالت میں خالص نہیں مل سکتی….اگر میں یہ کہوں کہ ہمیں زہر کھلایا جا رہا ہے تو اِس میں مبالغہ نہیں ، ٤٠ برس قبل بھی یہ لکھا تھا کہ ہم زہر کھا رہے ہیں تب ہسپتالوں میں محض چند ایک دوائیاں ہوتی تھیں جن سے موّ سر علاج تھا مگر آج ہزاروں دوائیاںایک سے بڑ کر ایک مہنگی دو ا بازار میں دستیاب ہیں مگر …یہ آمریت کیا ہے اور عام آدمی سے کیا تعلق ؟ اِن کیڑے مکوڑوں کو نہ آمریت اور نہ جمہوریت سے کوئی تعلق آمریت صرف خواص کا مسلہ ہے، غریب کو باعزت روٹی اور سکون کی نیند ڈیفنس یا بحریہ ٹاؤن کوٹھی یا پیجارو کی ڈیمانڈ نہیں، اِس سے غرض نہیں کہ کو ن کس نظام سے دے رہا ہے، آمریت یا جمہوریت بڑے فلسفی قسم کے دانشور جب لکھتے ہیں تو
اسے بدترین لکھتے ہیں جبکہ یہ آمریت تو مغربی ملکوں میں بھی دیکھی گئی ،
یہاں اُس آمریت کی بات جسے دیکھ رہے ہیں،٣٠ برس کا جوان ضیاء الحق کی بدترین آمریت سے متعلق نصابی علم کے حوالے سے جانتا ہوگا۔

مشاہدہ نہیں اُس کا مشاہدہ تو مشرف دور کا ہے جسے سیاہ دور کہا جاتا لیکن اگر تعصب کا چشمہ اتار لیں تو صاف نظر آئے گا کہ مشرف دور کی نسبت ،٢٠٠٨ کے بعد سے جمہوری لبادے میں جمہوری آمریت مسلط ہے اِس کے مقابل مشرف آمریت عوام کے لئے بہتر تھی ملک میں ، تب غیر ملکی زر مبادلہ ارب ١٨ڈالر، ملکی خزانہ میں موجود تھے ،آج ،آئی ایم ایف خطرناک صورت حال کی نشان دہی کر رہی ہے،تب آٹا ١٣ روپئے کلو اور بجلی ٢ سے روپئے یونٹ ….اب آٹا ٤٠سے ٤٥کبھی اِس سے بھی …دور دراز علاقوں میں تو .اور بجلی دس سے١٢ روپئے یونٹ.اسی پر بس نہیں جگا ٹیکسوں نے غریب کو نچوڑ دیا ہے۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: ع.م.بدر سرحدی
i.mbadarsarhadi@gmail.com