عوام پہلے کی طرح اب بھی حتمی تاریخ ملنے کے باوجود بلدیاتی الیکشن کے انعقاد بارے ابہام کا شکار

تجزیہ) ایم آر ملک ) بلدیاتی انتخابات ہوں گے، نہیں ہوں گے، عوام پہلے کی طرح اب بھی حتمی تاریخ ملنے کے باوجود بلدیاتی الیکشن کے انعقاد بارے ابہام کا شکار، ہم اس حقیقت سیجان چھڑانا بھی چاہیں تو نہیں چھڑا سکتے کہ جمہوری حکومتوں نے ہمیشہ بلدیاتی انتخابات سے ”راہ ِفرار ”حاصلکر نے پر ہی اکتفا کیا مگر پہلی بار یہ ہوا کہ عدالت عالیہ نے بلدیاتی انتخابات کو جماعتی بنیادوں اورعدالت عظمیٰ نے ان کے انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے سخت رویہ اختیار کیا۔

ان احکامات پر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق بد دلی کے ساتھ وفاقی اور حکومت پنجاب نے حلقہ بندیوں کا سلسلہ شروع کیا تو حکیم اللہ محسود پر امریکہ نے ڈرون گرادیا اسے ہم بلدیاتی انتخابات پر ”ڈرون حملہ ”بھی کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کے ہاتھ ایک جواز یہ آیا کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات بڑھنے کا خطرہ پیدا ہو گیا مان بھی لیا جائے کہ حکیم اللہ محسود کی موت بلدیاتی انتخابات کے بروقت انعقاد میں رکاوٹ بنی تو سوال یہ اُٹھتا ہے کہ عدالتی احکامات کے باوجود حکومت کا ان انتخابات کے بارے میں کوئی مخلص پن نظر آیا ؟ان انتخابات کے انعقاد پر سوالیہ نشان تو اُس وقت لگ گیا جب اپوزیشن حلقوں کی طرف سے احتجاج کی یہ شدت سامنے آئی کہ کہ پنجاب میں حکومتی نمائندے من پسند حلقہ بندیوں میں مصروف ہیں۔

اس بات کی سچائی صوبائی صدر مقام لاہور میں بھی دیکھنے میں آئی جہاں یونین کونسلز کی تعداد 150سے بڑھا کر 250کی جانی تھی مگر قانون کی عمل داری پر خاک اس طرح ڈالی گئی کہ یہ تعداد 263کردی گئی اسی طرح پنجاب میں ہی 10میونسپل کارپوریشنز ،144میونسپل کمیٹیوں اور 35ضلع کونسلز کے قیام کا نوٹیفیکیشن تو جاری ہوا مگر اُن کی حدود کا تعین نہ ہو سکا پنجاب میں یہ سوال اپنی جگہ جواب مانگتا رہا کہ انتخابات جماعتی ہوں گے یا غیر جماعتی پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان نے 130دن کا وقت مانگا تو مقناطیسی سیاہی کا بھی مسئلہ آڑے رہا اس طرح عوام 30جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی حتمی تاریخ ملنے کے باوجود آج بھی بے یقینی کے کوہلو پر مصلوب ہیں۔