عبدالقادر ملا کو پھانسی

Problem

Problem

آپ بھی شاید میری اِس بات سے اِنکار نہ کریں کہ گزشتہ 66 سالوں سے پاکستانیوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ کسی مسئلے کو حل کرنے سے قبل اِسے اتنا اُلجھا دیتے ہیں کہ اِس کا اصل سِراہی گھم ہو جاتا ہے، اور یہ جب پھر اُس سِرے کو تلاش کرنے بیٹھتے ہیں تو یہ اِس کی تلاش میں بھی اتنا وقت لگا دیتے ہیں کہ اِسی دوران یہ کسی دوسرے سنگین مسئلے میں جکڑ دیئے جاتے ہیں یوں پہلا مسئلہ اپنی اہمیت ختم کر چکا ہوتا ہے، اور اِسے اگلا مسئلہ ڈسنے لگتا ہے اِس طرح جہاں پاکستانی مسائل کے شکنجوں میں جکڑدیئے جاتے ہیں تو وہیں یہ پریشانیوں کی دلدل میں بھی دھنستے چلے جاتے ہیں، اَب ایسے میں مجھے یہ لگتا ہے کہ جیسے پاکستانی قوم کے ساتھ ایسا ہونا اور ہوانا یا کرنا /کرانا اِس کی خصلت کا حصہ بن چکا ہے۔

آج اِن حالات میں کہ جب پاکستانی قوم کے اردگرد خوشیاں کم ہیں مگر مسائل اور پریشانیوں کے اتنے گھنے اور اندھیرے غارہیں کہ یہ اِن سے نکلنا بھی چاہے تویہ اِن سے نہیں نکل سکتی ہے، ہاں البتہ ..!صرف اُس صورت میں اچھائی کی کوئی اُمید پیدا ہو سکتی ہے کہ جب یہ خود سے اِس بات کا تہیہ کرلے کہ یہ اپنے ہر مسئلے کو رائی کا پہاڑ اور کسی نقطے کو تنقیدی اہداف تک لے جانے اور کسی ایسے زخم کو جو ذراسی توجہ سے ٹھیک ہو سکتا ہے اِسے ناسُور بنانے سے پہلے اِس کی نزاکت اور اہمیت کو سمجھ لے اور کسی مہذب قوم کی طرح اپنے شعور کا استعمال کرے تو ممکن ہے کہ یہ اپنے مسائل آسانی سے حل کرلے، مگریہ جذباتی اور عقل کے استعمال سے عاری قوم ایسایوں نہیں کرے گی کہ یہ مشکل پسند اور نقطے کو پہاڑ اور زخم کو ناسُور بنا دینے والی قوم اِس آسان ترین کام کو آسانی سے کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہو گی۔

جبکہ یہاں میرا خیال یہ ہے کہ آج اگر پاکستانی قوم کو دنیا میں اپنا وقار بلند کرنا ہے تو ہر صُورت میں اِس(جذباتی اور غصے والی پاکستانی قوم کو) ایسا ضرور کرنا ہو گا جس کی میں اور شاید آپ بھی اِس سے اُمید باندھے ہوئے ہیں ورنہ یہ یہیں کھڑی رہے گی جہاں پر جس حال میں ابھی کھڑی ہے، اور دنیا کی دیگراقوام اپنی اپنی منزلوں کو پہنچ جائیں گیں مگر پاکستانی قوم دنیا کے لئے نشانِ عبرت بنی رہے گی۔

بہرحال..!ایک خبر بنگلہ دیش سے یہ آئی ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے 1971 کے واقعات کو 42 سال گزرنے کے باوجود بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر ملا کو محض اِس بناپر پھانسی دے دی ہے کہ اُنہوں نے 1971 میں پاکستان سے وفاداری اور یکجہتی نبھائی تھی، آج اِس میں کوئی شک نہیں کہ بنگلہ دیشی حکومت کے اِس غضب ناک کارنامے پر جتنابھی افسوس کیا جائے وہ کم ہے، مگر یہ بھی یادرہے کہ اِس پر صرف افسوس اورافسوس بھی ایسا ہو کہ اِس افسوس سے تو مُلک کی شاہرائیں بلاک ہوں اور نہ نجی و سرکاری املاک کو کوئی نقصان پہنچے احتجاج ایسا ہو جیسا ہمارے وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان نے کیا ہے ناکہ ایسا ہو جیسا اِن دنوں ہمارے یہاں جماعتِ اسلامی پاکستان والے کرتے پھررہے ہیں، بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کے رہنما عبدالقادر ملاکی پھانسی کے سزاکے خلاف ہمارے وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے اِس واقعے پرتاسف اور شدیدتشویش کا اظہار کچھ یوں کیا ہے کہ افسوس بھی ہو گیا ہے اور مہذب طریقے سے احتجاج بھی ریکارڈ ہو گیا ہے اُنہوں نے کہا ہے کہ ”بنگلہ دیش میں عبدالقادر ملا کو پھانسی دینے جانے کا واقعہ افسوس ناک ہے، اُنہوں نے کہا کہ درحقیقت جب بھی کوئی مُلک بدقسمتی سے خانہ جنگی کا شکار ہوتا ہے تو متحارب گروپ اور فریق تشدد کے مرتکب ہوتے ہیں۔

Nisar Ali Khan

Nisar Ali Khan

اُنہوں نے کہا کہ کتنا بہتر ہوتا اگر بنگلہ دیش کی حکومت بالغ النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے گڑے مردے اُکھاڑنے کے بجائے وسیع القلبی اور فراخدلی کامظاہرہ کرتی ”اِس موقع پر راقم الحرف کا وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان سے پورا اتفاق ہے اور اِس کا بھی خام خیال یہ ہے کہ ہمارے وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے بہترین انداز سے بنگلہ دیشی حکومت کے منہ پر ایک ایسا زور دار طمانچہ دے مارا ہے کہ اگر بنگلہ دیشی حکومت غیرت مندہے تو اُسے دنیابھر میں پھیلے ہوئے جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں اور کارکُنان سے فوراََ معافی مانگنی چاہئے کہ اِس سے بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی جماعتِ اسلامی کے رہنما عبدالقادر ملاکو پھانسی دے کربڑی غلطی ہوئی ہے،اور اپنی اِس غلطی پر بنگلہ دیشی حکومت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں اور کارکنان سے بھی معافی مانگتی ہے، اور اِس کے ساتھ ہی بنگلہ دیشی حکومت صدق دل سے دنیا کے سامنے اِس بات کا بھی اقرار کرے کہ اِس نے 1971کے واقعات کے42سال بعد گڑے مردے اُکھاڑکردنیاکے سامنے کچھ اِس طرح اپنامنہ پیٹ لیاہے کہ اَب اِس کی بازگشت بنگلہ دیش اور دنیابھر میں مدتوں سُنائی دیتی رہے گی، اور اِس بات کو بھی بنگلہ دیشی حکومت تسلیم کرے کہ اِس نے یہ سنگین غلطی کرکے اپنے یہاں بھی خودکش بم دھماکوں، قتل وغارت گری، لوٹ ماراور طرح طرح کی دہشت گردی کے جنم دینے کی ابتداء کرادی ہے، ایک ایسی دہشت گردی جس کے ڈانڈے بنگلہ دیش کونے کونے سے جاملیں گے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت نے 42سال بعد یہ اقدام کیوں اور کس کے کہنے پر اُٹھایا ہے..؟ اَب اِس کا بھی پتہ لگانا ضروری ہو گیا ہے کیوں کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے بنگلہ دیش کے دشمنوں نے بنگلہ دیش کے امن کے سبوتاژ کرنے کے لئے بنگلہ دیشی حکومت کو ایسا کرنے کے لئے اُکسایا ہو گا، اور بنگلہ دیشی حکومت نے وہ کچھ کر دیا جیسااِس کے دشمن چاہتے تھے یہاں راقم الحرف کا خیال یہ ہے کہ غالباََ جنوبی ایشیا بنگلہ دیشی ہی ایک ایسا خطہ باقی تھاجو اَب تک خودکش بم دھماکوں اور دیگردہشت گردانہ واقعات سے بچا ہوا تھا، مگر اَب یہ لگتاہے کہ جیسے بنگلہ دیش بھی جماعتِ اسلامی کے رہنما عبدالقادر ملا کو پھانسی دینے کے بعد دہشت گردانہ کارروائیوںکا شکار ہوجائے گا، یکدم ایسے ہی آج جیسے اِس خطے کے دوسرے ممالک ہورہے ہیں، کیوں کہ خطے کے جن ممالک میں شدت پسنددہشت گردانہ کارروائیاں کررہے ہیں اُن ممالک میں اِس جماعت یا اِس کی طرح دوسرے مذہبی شدت پسندوں نے اپنی حکومتوں کے خلاف کسی انتقامی رویوں کے بدلے اپنے اپنے ممالک کے لئے بم دھماکے اور دہشت گردانہ کارروائیوں سے اِن ممالک کے حکمرانوں کی ناک میں دم کر رکھا ہے ۔

جبکہ یہاں یہ امرقابلِ ذکراور انتہائی افسوس ناک ہے کہ بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کے رہنماعبدالقادر ملا کو پھانسی لگی ہے مگر ملا کی پھانسی کے خلاف پاکستان بھر میں جماعتِ اسلامی مظاہرے اوراحتجاج کررہی ہے، اِس جماعت سے وابستہ افراد پاکستان میں ملاکی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرنے کے لئے شہروں کی اہم ترین شاہراہوں کو گھنٹوں گھنٹوں بلاک کرکے ٹریفک جام کا مسئلہ پیداکررہے ہیں اور حکومتِ پاکستان سے یہ مطالبات کربھی کررہے ہیں کہ حکومتِ پاکستان جماعتِ اسلامی کے بنگلہ دیشی رہنما عبدالقادر ملا کی پاکستان سے محبت پر پھانسی کی سزا پر بنگلہ دیشی حکومت سے سخت احتجاج اور عالمی سطح پر آواز بلند کرے اور قومی اسمبلی سے متفقہ قرارداد مذمت کی منظوری دے کر بنگلہ دیش سے اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرے، جبکہ آج جماعتِ اسلامی کے بنگلہ دیشی رہنماکی پھانسی کے خلاف پاکستان میں جماعت اسلامی والوں کے احتجاجوں سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے پاکستان خطے میں احتجاجوں، مظاہروں اور ہنگاموں والامُلک بن کررہ گیاہے ایسا نہیں ہونا چاہئے جس کا جماعت مطالبہ کررہی ہے، کیوں کہ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان ساڑھے 19 کروڑ پاکستانیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی بنگلہ دیشی رہنما عبدالقادر ملاکی پھانسی کے واقعے پر بہترین انداز سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروا چکے ہیں تو پھر ہمارے یہاں جماعتِ اسلامی پاکستان کے کرتا دھرتاؤں کو پاکستان میں بنگلہ دیشی واقعے کو جواز بناکر شہروں کی سڑکوں کو گھنٹوں گھنٹوں بلاک کرکے احتجاج کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر: محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com