عو ام کے مسائل

Load Shedding

Load Shedding

ویسے تو عوام کے گھمبیر مسائل ،ایک تو، بجلی کی قیمتوں مسلسل اضافہ اوپر سے لوڈ شیڈنگ…اسی پر بس نہیں عوام بچارے جن کا کوئی پرسان حال نہیں ، کیوں کہ کسی بھی فورم پر اُس کا نمائندہ نہیں جو اُس پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اُٹھائے اور اب گیس کی لوڈ شیڈنگ اور بل چار گنا کون پوچھے کس سے فریاد کرے … اس وقت گیس کی لوڈشیڈنگ اور بل میں بے پناہ اضافہ جس غریب کے گھر کا جنوری ٢٠١٣ میں تین ہزار تھا جنوری ٢٠١٤ میں ٨ ہزار سے زیادہ یہ انتہائی گھمبیر مسلہ ہے مگر کسی کی نظر میں نہیں میرے سامنے تمام مسائل میں یہ سرِفہرست تھا مگر کیا کیا جائے ، رکشہ میں بیٹھتے ہوئے کرائے پر بحث کرتے ہوئے کہا بھائی پندرہ روپئے فی کلو قیمت کم ہو گئی مگر تم وہی کرایہ وصول کرہے ہو تو ڈرائیور نے جھٹ جوب دیا جناب قیمت اخبارات میں کم ہوئی ہے دکانوں پر نہیں اگر کہتے ہیں کہ قیمتیں کم ہوئیں ہیں تو جواب ملتا اخبار والوں سے لیں،ڈرائیور کا یہ جواب سن کر، خاموشی کہ سوا بحث کی گنجائش نہیں تھی ، ملک میں آج تک بڑھی کسی شے کی قیمت کبھی کم نہیں ہوئی۔

مگراِس وقت عوامی مسائل کے لئے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور میڈیا میں ایسے مسائل کے لئے وقت نہیں،وہاں بس ایک ہی مسلہ ہے جس سے اخبارات کے صفحات سیاہ ہوتے ہیں ، وہ ہے مذاق رات ، اتوار٢ ،مارچ کے خبارات اسی خبر سے بھرے پڑے تھے،کہیں پانچ کالمی اور کہیں چار کالمی ” طالبان کا ایک ماہ کے لئے بندی کا اعلان،وزیر آعظم کا خیر مقدم،ٹار گیٹڈ کاروائیاں روکنے کا حکم…تمام گروپ فیصلے کی پاس داری کریں،شاہد اللہ شاہد ،عوام کو خوش خبری ملی مولانا سمیع الحق ،حکومت دوبارا مذاکرات کے لئے تیار ہے….. طالبان کی طرف سے جنگ بندی خوش آئند ہے پرویزرشید،،نیک نیتی سے مذاکرات ہوںتو حل نکل ہی آئے گا ،خور شید شاہ،..طالبان کا جنگ بندی کا اعلان مدبرانہ فیصلہ ہے مولانافضل الرحمن… سابق وزیر آعظم پرویز اشرف نے بھی کہا کے طالبان کی جانب سے جنگ بندی کا خیر مقدم کرتے ہیں …..ایک طرف تو جنگ بندی کے اعلان پر جشن منائے جا رہے ہیں تو اسی دن اِ س خوشی کی خبر پر خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود میں پولیو ٹیم پر حملے میں خاصہ دار فورس کے، ١١ ، اہلکاروں سمیت ١٣ ،افراد اُڑا دئے گئے جن کے خون کے چھینٹے ان خبروںپرپڑے،خاص کر شاہد اللہ شاہد کے بیان پر کے تمام گروپ فیصلے کی پاس داری کریں ، دوسری طرف صدر مملکت، ممنون حسین، وزیرآعظم میں نواز شریف اور دگر عمایدین نے روائتی انداز میں واقع کی مذمت کی اور پھر….. ابھی اِس خون کے چھینٹے خشک نہیں ہوئے تھے۔

Taliban

Taliban

اسلام آباد کچہری میں مذاکرات مخالفوں نے حملہ کر کے قیامت برپا کر دی،جج اور وکلاء سمیت ١١،شہید اور ٢٥ ،زخمی ہوئے اب پھر روائتی بیان بازی جاری ہے البتہ ان خبروں میں اک نئی خبر ہے طالبان مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر مولانا ابراھیم نے کہا ہے کہ اگر اسلام آباد کچہری حملے میں طالبان ملوث ہوئے تو میں سب سے پہلے ان پر لعنت بھیجوںگا اورخود کو مذاکراتی کمیٹی سے الگ کر لوں گاکہ مذاکرات مخالف قوتیں مذاکراتی عمل کو سبو تاژ کرنے کے در پے ہیں ، یہ سوال حل طلب ہے کہ ٢٠٠١ میں طالبان نے جس مقصد کے لئے ہتھیا ر اُٹھائے اور اِس وقت تک دونوں طرف سے ہزاروں پاکستانی مارے جا چکے ہیں کس بنیاد پر مذاکرات کریں گے اور کیونکر اپنے ایجنڈے کو لپیٹ دیں گے؟ یہ سمجھ سے باہر ہے ،اس ایجنڈے کی تعلیم اُن کے اذہان میں اسطرح راسخ کر دی گئی ہے کہ اب نہ تو وہ خود پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ ہی دنیا کی کوئی طاقت انہیںاِس ایجنڈے سے منحرف کر سکتی ہے۔

بعض کا یہ کہنا کہ طالبان کی حکمت عملی انتہائی کامیاب ہے بلکہ کامیابی سے اپنے پتے کھیل رہی ہے اور اب مذاکرات کے ڈرامے سے حکومت کو الجھا دیا ہے بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ حکومت نے خود کو پھنسا لیا ہے؛ع،پاس تھا ناکامئی صیاد کا اے ہم سفیر ورنہ میں اور اُڑ کے آتا ایک دانے کے لئے ؛ اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں کہا ہم طالبانائزیشن کے چنگل میں پھنس چکے ہیں …. طالبان نے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کو (ریاست ) وزیرستان کے دورے کی دعوت دی ہے کمیٹی کو خوش آمدید کہیں گے،ادھر حکومتی کمیٹی نے کہا ہماری بھی خواہش ہے وزیرستان کا دورہ کریں،٥ مارچ کو کُرم ایجنسی میںایف سی کے قافلے پر وسطی کرم کے میں اورنگئی میںسڑک کنارے ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کیا جس سے ایک گاڑی دھماکے کی زد میں آگئی جس میں ١٤، اہلکار سوار تھے چھ شہیداور ٨ زخمی جنہیں سی ایم ایچ پشاور منتقل کیا گیایہ وہ خبر ہے جسے فوجی زرائع نے میڈیا کو جاری کیا۔

آزاد صحافی وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتا ،میں نے ٢٠١١ میں کوشش کی کہ ان علاقوں میں پہنچوں مگر میرا ایکریڈیشن کاڑد بھی بے اثر رہا البتہ ضرورت ہو تو مخصوص صحافیوں کو لے جایا جاتا ہے اور جو کچھ اُن کے منہ میں ڈالا جاتا ہے وہ اُسی کی جگالی کرتے ، خبر کا دوسرا حصہ انصارالمجاہدین کے ترجمان ابوالبصیر نے فون پر حملے کی زمہ داری قبول کی ترجمان نے مزید کہا کہ یہ حملہ ڈرون حملوں کا انتقام لینے کے لئے کیا ،ہم طالبان کا حصہ نہیں اور نہ اُن کے کسی معاہدہ کے پابند ہیں جب تک ڈرون مکمل طور پر بند نہیں فورسز کو نشانہ بناتے رہیں گے اِس خبر کا قابل توجہ پہلو ڈرون حملو کے خلاف… جبکہ تین ماہ سے ڈرون بند ہیں اور وہ آج ڈرون کا انتقام لے رہے ہیں جبکہ طالبان ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اسلام آباد کچہری حملے کے بعد یہ بیان دیا کہ اس واقعہ سے طالبان کا کوئی تعلق نہیں تحریک طالبان نے جنگ بندی کا اعلان شوریٰ کے اتفاق اور امیر کی تائید سے کیا ،یہاں قابل فکر پہلو یہ ہے کہ اسلام آباد کچہری پر حملے سے طالبان کا کوئی تعلق نہیں، مگرجنگ بندی اعلان کے بعد ہونے والے حملوں سے لاتعلقی کے ظہار سے حب الوطن حلقوں میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔

لوگوں یہ بھی کہنا کے اگر تحریک طالبان کا تعلق نہیں تو پھر اُن کو کاروائی کرے اور حکومت ساتھ بھی تعاون کرے ،ورنہ یہ سوال بھی ہے اگر طالبان نہیں تو پھر یہ گروہ کون ہیں ؟طالبان ان کی نشاندہی کریں…مگر یہ خیال بھی ظاہر کیا جا رہا کہ وزیرستان میں محدود فوجی کاروائی پر وہاں سے نکلنے والے طالبان اورکزئی ایجنسی،اور خیبر ایجنسی آئے اور فوج کے خلاف کاروائیاں شروع کیںکرم ایجنسی میں فوجی قافلے پر حملے سے اِس خیال کو تقویت ملتی ہے بیشک حالیہ دہشت گردی کے واقعات سے طالبان کا اظہار لا تعلقی ہے مگر دہشت گرد کاروائیوں کا مقصد حکومت کو دباؤ میں رکھنا مقصود تاکہ اپنی مرضی کی شرائط منوائی جائیں….ابھی تک کسی نے اِن مذاکرات بارے یہ نہیں سوچا کہ اس کے مستقبل پر کیا اثرات ہونگے ؟

جو انتہائی خطرناک کہ مزید اسلحہ بردار گروپ بھی سامنے آئیں گے ،بلوچستان،سندھ اور پھر سندھ کے ڈاکو،ایسی تنظیمیں بھی ہیں جنہیں کالعدم قرار دیا جا چکا مگر …..آخر میںماجھے کی کہاوت یہ ماجھا گنڈا سنگھ والا سے واہگہ تک کے دونوں طرف کا علاقہ ٹھیٹ پنجابی جو شائد اب ایک بھولی بسری داستان … ،ایک کسان اپنے کھیت میں کھڑا تھا کہ دوڑتا ہوأ سیئہ (خرگوش)اسکی ٹانگوں میں سے گزر گیا کسان کھڑا سوچ رہا تھا کہ دوسرے نے قریب آکر پوچھا چوہدری کیا ہوأکیوں پریشان کھڑے ہو ،کسان نے لمبی سانس لی اور کہا یار یہاں سے سیئہ (خرگوش)گزرا ہے ، یار چوہدری پھر کیا ہوأ وہ اپنی کھڈ(بل) میں جا چھپا ہے اور تو….میں تو پریشان ہوں کہ یہ اب پیئہ (راستہ)بن گیا …..مذاکرات کی گردان کرنے والے سوچیں….کہ۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: ع.م.بدر سرحدی