پیپلز پارٹی کی اندرونی چپقلش

Sindh Government

Sindh Government

سندھ حکومت میںاندرونی خلفشار اور اختلافات در اصل ایک عرصہ سے چلے آرہے ہیں مگر قائم علی شاہ ان اختلافات کے باوجود پیپلز پارٹی کی ساکھ کو بر قرار رکھنے کی نا کام کوششیں کرتے رہے ہیں۔اہلیت کے لحاظ سے قائم علی شاہ بھی کوئی قابلِ تعریف تو نہیں کہے جا سکتے ہیں۔ مگر اپنی نااہلی کے باوجود وہ سندھ حکومت کو لشٹم پشٹم کھینچ تو رہے ہیں۔

ایک جانب لیاری گینگ وار کے تانے بانے پیپلز پارٹی سے ملتے ہیں تو دوسری جانب تھر کیس نے ان کی رہی سہی نااہلی کا پردہ چاک کر کے رکھ دیا ہے۔پیپلز پارٹی کے سندھ میں گذشتہ چھ سالہ دور اقتدار میں پیپلز پارٹی نے سندھ کے عوام کو سوائے کرپشن ‘بد عنوانی ،اقربا پروری،لوٹ مار،بھتہ خوری،ٹارگیٹ کلنگ،اور گینگ وارکے اور کیا دیا ہے؟؟؟ان کے سندھ میں اقتدار سنبھال لینے کے بعد تو حکومتی بد عنوانی نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے بد عنوانوںکے دور کو بھی کوسوں دور چھوڑ دیا ہے۔سندھ حکومت تو ایسا اونٹ ہے جس سے ہمار بچے بھی پوچھتے ہیں”اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی؟”نااہلیوں کا ہر جانب ایک طوفان سا برپا ہے اور اس نا اہلی کی کوئی ذمہ داری بھی نہیں لیتا۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے وزیر اعلیٰ ہائوس میں پیپلز پارٹی سندھ کے رہنمائوں کے اجلاس کی صدارت کی جس میں پیپلز پارٹی کے سندھ کونسل کے اکثر ارکان تھر کی قحط کے صورت، حال اور لیاری میں گینگ وار اور قتل و غارت گری پر سخت مشتعل تھے۔ارکان کی اکثریت پیپلز پارٹی کے وزرا پر شدید غصے کا اظہار کر رہی تھی اور موجودہ صورت حال کو پیپلز پارٹی کیلئے سخت نقصان دے کہہ رہی تھی۔

جہاں بعض صوبائی وزراء کے ما بین بھی تلخ کلامی دیکھنے میں آئی۔قائم علی شاہ کا یہ کہنا تھا کہ مجھے معلوم ہے میری آستین کا سانپ کون ہے؟تھر کی صورت حال کے بارے میں وزیر اعلیٰ نے کھل کر کہا کہ امین فہیم کے بیٹے اس صورت حال کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں۔ جس پر امین فہیم کے مریدوں پر مشتمل سروری جماعت کے کارندوں نے اپنے مرکز ہالہ میں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے خلاف مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ قائم علی شاہ کو سندھ کی وزارٹ اعلیٰ سے بر طرف کیا جائے اور اگلے دن وزیر اعلیٰ کے خلاف شدید ایجی ٹینش کرنے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔

پیپلز پارٹی میں امین فہیم کا خاندان جو نہایت طاقتور بھی اور سندھ کی سیاست میں ہالہ کے حوالے سے ایک اہم مقام کا حامل بھی ہے۔مگر بد قسمتی سے تھر کے نقصانات کے حوالے سے ان کے صاحب زادے کی نا اہلیوں کا ہر جانب شدت کے ساتھ چرچا ہو رہا ہے۔ جس کا ذکر وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی ہمت کر کے کر کھل کر کرہی دیا تھا۔شاید اس بیان کے مابعد اثرات سے وزیرِ اعلیٰ سندھ نابلد تھے۔ جس کے جواب میں امین فہیم کے زیرِ اثر لوگوں نے وزیر اعلیٰ سندھ کے خلاف بھر پور قوت کے اظہار کا اعلان کیا ،تو وزیراعلیٰ سندھ غبارے سے ہوا نکل گئی اور انہوں نے اسی بات میں عافیت جانی کہ امین فہیم سے ہاتھ جوڑ کر اپنے کہے پر معافی مانگ لیں۔ورنہ شائد اس بڈھے سندھی شیر کی وزارتِ اعلیٰ خطرے کے گرداب میں پھنس کرسسکیان لے رہی ہوتی۔ کیونکہ امین فہیم کہہ چکے ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی کے سربراہ ہیں۔

سندھ حکومت کی کار کردگی آج بھی صفر سے آگے نہیں بڑھ رہی ہے مگر ان کے لوگوں کو شاید یہ گمان ہے کہ جتنے بھی امدادی ادارے اس وقت تھریوں کی خدمت میں لگے ہیں ان میں سے اکثریت کا تعلق سندھ حکومت سے ہے۔ گویا یہ سندھ حکومت کے ہی کارندے ہیں۔

Tharparkar People

Tharparkar People

لوگوں کا ماننا ہے کہ تھر میں حکومتی اعلانات کے باوجود لوگوں تک حکومتی امداد ابھی تک نہیں پہنچی ہے ہزاروں ٹن گندم گوداموں میں تو پڑی ہے مگر تھر کے عوام تک ابھی تک گندم کا ایک دانہ بھی نہیں پہنچا ہے۔جس کا اظہار میڈیا بھی مسلسل یہ خبر دے کررہا ہے کہ ابتک سندھ حکومت نے تھر کے لوگوں کو گندم کا ایک دانہ بھی نہیں دیا ہے ۔

یہ بات نہایت تکلیف دہ ہے کہ تھر میںروزانہ تین سے پانچ بچوں کی اموات محض سندھ حکومت کی نا اہلیوں کی وجہ سے ہو رہی ہے۔جس کی مثال کیلئے منہگی اودیات تھر کے لوگوں کو فراہم کرنے بجائے انہیں زائد المیعاد ہونے کے بعد پھینکے جانے والے فٹیج میں دیکھی جا سکتی ہے۔ سندھ حکومت کے کرتا دھرتائوں کا یہ فعل کیا ان کی اچھی کا ر کردگی کی علامت مانا جائے گا ؟یقیناََ ہر نہیں۔تو پھر اس کے وزراء بھونپو کی طرح کونسی اچھی کار کردگی کا رونا رو رہے ہیں۔

سندھ کونسل کے اجلاس سے خطاب میں وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے دعویٰ کیا کہ گذشہ چھ سالوں سے تھر کی خدمت کرتے آئے ہیں ؟؟؟جس کی وجہ سے تھر کے لوگوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا تھا!!!اس وقت پورے ضلع تھر پارکر میں حکومت سندھ کی جانب سے امدادی اشیاء فراہم کی جا رہی ہیں۔سیانے کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے ہیں۔مگر ہمارے وزیر اعلیٰ بے پائون کے جھوٹ بولنے کے بھی مشاق ہوچکے ہیں ،تھر کی 13لاکھ آبادی کے لئے 13ہزار گندم کے تھلے فراہہم کر کے انہوں امبر پر تھیکڑی لگا دی (آسمان پر پیوند لگا دیا )ہے!!! جس کی واضح مثال سندھ میں گندم کی ترسیل ہے کہ افسوس صد افسوس ان کی کارکردگی ان کے پورے دورانیئے میں سب سے زیادہ خراب رہی ہے۔ جس کی یہاور ان کے وزراء بڑھ بڑھ کر تعریفیں کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کو ان کی ماضی کے پانچ سالوں کی کار کردگی کو شامل کر کے ان کے نا اہلی کے کارناموں پر غور کرنے کے بعد سندھ حکومت کو رخصت دے کر سندھ میں گورنر راج لگا کر سندھ کے مظلوم عوام کو ریلیف کے ساتھ سکون کا سانس لینے کا موقع دیدینا چاہئیے۔

دوسری جانب ان کی کارکردگی کراچی میں گذشتہ چھ سالوں کے دوران جو رہی کوئی بتائے کہ ہم بتائیں؟ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے جس کی تباہی میں ان لوگوں نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔کراچی تو خیر سے کبھی پیپلز پارٹی کا شہر رہا ہی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ کراچی پر پیپلز پارٹی کی نا اہل قیادت نے کبھی توجہ دی ہی نہیں اور ان کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا سلوک جاری رکھا ہوا ہے۔. مگر ان کے اپنے حلقے بھی کونسے سکون میں ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی اس شہرسے جیسے کوئی بغض رکھتی ہے۔ جب بھی اسے سندھ کا اقتدار ملاکراچی کے ساتھ انہوں نے کبھی بھی مخلِصی کا مظاہرہ نہیں کیا۔دہ گذشتہ چھ سالوں سے کراچی والوں کے صبر کا امتحان لیتی رہی ہے۔اس نے یہاں پر کبھی بھی گڈُ گورنس کا مظاہرنہیں کیا ہے۔ اس کو دہشت گردوں سے پاک کر کے یہاں معاشی اور معاشرتی سر گرمیوں کو بحال کرنے کے عمل پر ان کی کبھی بھی توجہ نہیں رہی۔وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کوسندھ کے معاملات کافوری جائزہ لیتے ہوے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔کیونکہ لیاری جس پر پیپلز پارٹی نے ہمیشہ فخر کیا ہے اور کراچی کو مسلسل دہشت گردوں کے ہاتھوں کھلونا بنا ئے رکھا ہے۔

جہاں پیپلز پارٹی کی چھتری تلے غنڈہ عناصر نا صرف پل بڑھ رہے ہیں۔ بلکہ پاکستان کی معیشت کی تباہی میں بھی اہم کردار اد کرتے رہے ہیں ۔گذشتہ چند سالوں سے لیاری کے غندہ عناصر کو پیپلز پارٹی نے فری ہینڈ دے کر آگ اور خون کے دریا بہانے کا گویا ٹھیکہ دیا ہوا ہے۔ غضب خدا کا ایک ایک دن میں یہ غنڈے اپنے ہی بیس بیس لوگوں کا لہو بہا نے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔کراچی میں جہاں اور سیاسی جماعتوں کے ہر قسم کے غنڈہ عناصر کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

وہیں اس چھوٹے سے علاقے لیاری کے غنڈہ عناصر سب سے زیادہ پاور فل ہیں اور کراچی کے کسی بھی حصے میں یہ اپنی وارداتیں بڑے آرام سے کر کے غائب بھی ہوجاتے ہیں۔ان کے اپنے لوگ لیاری کے مکین ان کی وحشیانہ کاروائیوں سے پریشان ہیں۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ انہیں سندھ حکومت کی مکمل سرپرستی اورشیلٹر و حمایت حاصل ہے۔”سیاں بھئے کوتال تو پھر ڈر کاہے کا” کراچی گینگ وار کے دوران پولس سے بھی ان کی اچھی خاصی مڈ بھیڑ ہو چکی ہے۔ کئی دنوں تک لیاری کا پورا علاقہ فائرنگ کی گھن گرج سے گونجتا رہا اور لوگ اپنے گھروں میں محصور اللہ سے اپنے بچوں کی زندگیوں کی دعائوں میں مصروف رہے۔وزیر اعظم نواز شریف نے لیاری کی خونریزی پر بڑے اضطراب کا اظہار کیا ہے اور خود کراچی معاملہ پر دلچسپی لیتے ہوے کراچی بھی تشریف لائے۔ پولس اور رینجرز کا کھیل بھی عجیب ہی رہا وزیر اعظم کے کراچی پہنچتے ہی دونوں ادارے کے اہلکاروں نے بظاہر خوب مستعدی کا مظاہرہ کیا۔مگر پھر بھی مجرم فرار ہوتے رہے اور بے گناہوں کو ہتھکڑیاں لگتی رہیں۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کے کراچی پہنچتے ہی پولس اور رینجرز اپنی نا کامیوں کو چھُپانے کے لئے اچانک جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سر گرم ہوئی،ورنہ تو تیزی سے لیاری میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔مگر پھر نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی رہا۔وزیر اعظم کے کراچی سے رخصت ہوتے ہی سب کچھ اُسی طرح ہونے لگااورکراچی پھر اپنی پرانی پران ڈگر پر آگیا۔در اصل اس وقت پیپلز پارٹی کی اندرونی چپقلش کی وجہ سے پورا سندھ انتہائی کرب سے گذر رہا ہے۔

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir4khurshid@gmail.com