پشاور، شکار پور کے بعد لاہور میں دہشت گردی

Lahore Blast

Lahore Blast

تحریر : قرة العین ملک
2015کا پہلا خودکش حملہ لاہور میں ہو گیا۔ پولیس لائن قلعہ گجر سنگھ کے گیٹ پر خود کش نے اپنے آپ کو اڑا لیا۔جس کے نتیجہ میں دو پولیس افسروں سمیت5افراد شہید ہو گئے۔اس موقع پر نعشیں، انسانی اعضائ، خون، دھواں اور آگ پھیل گئی جبکہ زخمی چیخ و پکار کرتے رہے۔ دھماکے سے درجنوں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو نقصان پہنچا اور آگ لگ گئی، قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ دھماکے کہ باعث وہاں موجود افراد خوفزدہ ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے، ہر طرف افراتفری مچ گئی۔ ایمپریس روڈ پر واقع پولیس لائنز سے ملحقہ سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین پر خودکش دھماکے کی خبر سن کر قیامت ٹوٹ پڑی، بچوں کی مائیں ننگے پائوں سکولوں میں آ گئیں، راستہ بند ہونے کے باعث متعدد بچے سکولوں کے اندر محصور ہو کر رہ گئے جبکہ والدین سکولوں کے باہر چیخ و پکار کرتے رہے۔ اپنے بچوں کو نہ دیکھ کر متعدد مائوں کی حالت غیر ہو گئی اور وہ بے ہوش ہو گئیں، دھماکے کے بعد جائے وقوعہ کے قریب سکولوں اور بازار میں رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ پریس کلب اور اس کے اطراف کی سڑکوں پر بدترین ٹریفک جام ہو گیا۔

حملے کے فوری بعد جب زخمیوں کو میوہسپتال منتقل کیا جا رہا تھا تو ایک نامعلوم شخص نے فون کیا کہ ہسپتال کے بچہ وارڈ میں بم نصب ہے جو اگلے 15منٹ میں پھٹ جائے گا اس سے وہاں بھگدڑ مچ گئی اور وارڈ کو خالی کرا کر تلاشی لی گئی تاہم یہ اطلاع افواہ ثابت ہو گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق آواز اس قدر زیادہ تھی کہ کان کے پردے شل ہو گئے اور کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا ہوگیا عینی شاہدین نے ایمبولینسز اور فائر بریگیڈ عملے کے تاخیر سے پہنچنے کی بھی شکایت کی۔پولیس لائنزکے قریب دھماکے کے بعد قر یبی سکولوں کو پولیس نے خالی کروا لیا ‘ روتی چلاتی مائیں موقع پر پہنچیں لیکن سکول کے دروازے بند کردیئے اور بچوں کو سکولوں سے باہر جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ بعدازاں سکیورٹی کلیئر ہونے کے بعد بچوں کو گھروں کو جانے کی اجازت دی گئی۔ پشاور میں سکول پر حملے کے بعد سے والدین میں اس حوالے سے شدید خوف پایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ دھماکے کے بعد مائیں اپنے بچوں کو لینے کے لئے ننگے پائوں سکولوں کے باہر پہنچ گئیں، دھماکے سے سکول کے بچے بھی خوف کا شکار ہو گئے اور اکثر بچے چھٹی کے وقت واپس جاتے ہوئے روتے رہے۔ایمپر س روڈ اور ارد گر د کی قر یبی سڑ کو ں پر کئی حساس عمار تیں ہیں تا ہم پو لیس لا ئنز کا انتخاب کسی گہری منصو بہ بندی کا نتیجہ معلو م ہو تا ہے۔

پولیس لا ئنز میں ہزاروں کی تعداد میں میں ریکر و ٹس اور ریزرو فو رس مو جو د ہو تی ہے ، ان کی بیر کس بھی یہیں پر ہیں یہاں سے اہلکاروں کو مختلف مقا ما ت پر ڈیو ٹی کے لیے روانہ کیا جا تا ہے ، ریفر یشر سکو ل میں جو انو ں کی تر بیت کی جا تی ہے ،اس کے علا وہ پر یڈ گر اؤنڈ ، ہسپتا ل اور مسجد بھی ہے۔ لیڈیز پو لیس کے ہا سٹلز میں خو اتین کی بھاری نفر ی کا قیا م ہو تا ہے ، صبح کے اوقا ت میں یہا ں خا صی گہما گہمی ہو تی ہے ، ایک اندازے کے مطابق آٹھ سے دس ہزار پو لیس ملازمین اپنے معمو لا ت میں مصرو ف ہو تے ہیں۔ گذشتہ روز پو لیس لا ئنز میں الیکٹریشن کی تین آسا میو ں کے لیے سا ت سو افر اد امتحان دینے پہنچے تا ہم سب سے اہم با ت یہ ہے کہ یہا ں پر پو لیس کا اسلحہ ڈپو ہے جہا ں را ئفلز سے لیکر جدید ہتھیار ، گو لیا ں اور آنسو گیس کے شیل ذخیرہ ہو تے ہیں۔ خدا نخو استہ اگر دہشتگر د اندر پہنچنے میں کامیاب ہو جا تا تو خو فنا ک تبا ہی ہو تی۔پو لیس حکام کو مکمل یقین ہے کہ دہشتگر د کا ہدف عمارت کے احا طے میں داخل ہو نا تھا اگر پو لیس کی ایف آئی آر کو مد نظر رکھا جا ئے تو دہشتگردوں کی تعداد تین ہے ، اس کے دو سا تھی فر ار ہو گئے۔ ایک رائے یہ ہے کہ خو د کش حملہ آور نے دھما کے سے افر اتفر ی پھیلانا تھی اور اس کے دو سا تھیو ں نے اندر داخل ہو کر بر بر یت بر پا کر نا تھی تا ہم بہا در پو لیس اہلکار نے اپنی جان کا نذرانہ دیکر دہشتگر د کو اس کے ہدف سے پہلے ہی روک لیا اور انکے منصو بے خا ک میں ملا دئیے۔ابتدائی رپورٹ کے مطابق خود کش حملہ آور کی عمر بائیس سے چھبیس سال تھی ، بم ڈسپوزل سکواڈ کے مطابق دھماکے میں آٹھ سے دس کلو بارودی مواد استعمال ہوا۔

Blast

Blast

ابتدائی تحقیقاتی رپوٹ کے مطابق دھماکہ بارہ بج کر پینتیس منٹ اور چھ سیکنڈ پر لاہور پولیس لائنز قلعہ گجر سنگھ کے ساتھ پلازہ کی پارکنگ میں ہوا۔ دھماکہ اتنا زور دار تھا کے جس سے پولیس لائنز کے درو دیوار لرز اٹھے دھماکے وقت لاہور پولیس کا اجلاس جاری تھا۔ جس میں تمام اعلیٰ عہدیدار شریک تھے،جو فوری جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ حملہ آور پولیس لائنز میں داخل ہونا چاہتا تھا لیکن کامیاب نہ ہوسکا جس پر اس نے خود کو اڑا لیا۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق آٹھ سے دس کلو بارودی مواد تھا اور اس میں بال بیرنگ اور کیل کا بھی استعمال کیا گیا تھا۔ جو زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔ایم ایس میو اسپتال کا کہنا ہے کہ زیادہ تر زخمیوں کے جسم پر بال بیرنگ اور کیل کے زخم ہیں۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق بارودی مواد پلاسٹک کوٹڈ تھا۔ جو میٹل ڈیٹکٹر سے بھی نہیں پکڑا جاسکتا تھا۔پولیس لائن قلعہ گجر سنگھ کے گیٹ پر دھماکے کے بعد شہر بھر میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی۔جبکہ حساس اداروں نے تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔ دھماکے کے بعد شہر کے داخلی و خارجی راستوں پرپولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی اور ہر آنے جانے والے کی چیکنگ کی جاتی رہی اسکے علاوہ شہر کے حساس مقامات کی سیکیورٹی کو بھی سخت کر دیا گیا ہے۔دھماکامیںزخمی ہونے والے ایک شخص کا تعلق باجوڑ ایجنسی سے نکلنے پر اس کو شامل تفتیش کر لیا گیا ہے۔

عبد الرزاق نامی شخص میو ہسپتال میں زیر علاج ہے اور کا تعلق باجوڑ ایجنسی سے ہے جہاں وہ کٹ کوٹ نامی گائوں کا رہائشی بتایا جاتا ہے حساس اداروں نے اسکو تفتیش میں شامل کر لیا ہے۔ دھماکے کی تفتیش میںپولیس کو کال ٹریس کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ علاقہ نہایت گنجان آباد تھا البتہ بہت جلد خودکش حملہ آور کی جانب سے کی جانے والی کالز کو ٹریس کر لیا جائے گا۔ملک بھر میں دہشتگردوں کے خلاف گھیراتنگ کردیاگیاہے اور اس کے تناظرمیں دہشتگردوں نے بھی اپنی حکمت عملی بدل لی ہے۔ لاہورمیں پولیس لائنز کے باہر ہونیوالے دھماکے میں پہلی مرتبہ یہ دیکھاگیاہے کہ دھماکے کے فوری بعد گاڑیوں میں آگ بھڑک اْٹھی اور کالے رنگ کا دھواں اْٹھتادکھائی دیاجبکہ اس سے قبل دھویں کے سیاہ بادل کم ہی دیکھے گئے تھے۔ دھماکے میں بھاری مقدار میں بال بیرنگ بھی استعمال کیے گئے جس کے ہوٹل کی دیواروں پر دوردورتک نشانات موجود ہیں جبکہ جائے وقوعہ سے چار سے پانچ پستول کی گولیوں کے خول ملے ہیں۔دھماکے کی نوعیت اوردہشتگردوں کی حکمت عملی میں تبدیلی پر تحقیقاتی اداروں نے غور شروع کردیاگیاہے۔

Lahore Police Line

Lahore Police Line

پولیس لائنز قلعہ گجر سنگھ کے مرکزی گیٹ کے قریب ہونیوالے خود کش دھماکے میں شہید ہونیوالے سب انسپکٹر محمد یوسف کی نماز جنازہ پولیس لائنز قلعہ گجر سنگھ میں ادا کر دی گئی۔ شہید کے بیٹے اور پولیس افسران سے گفتگو کرتے ہوئے کور کمانڈر لاہور نوید زمان نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پولیس فورس کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ سب انسپکٹر محمد یوسف نے جس طرح بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان کا نذانہ پیش کیا وہ یقینا قابل تحسین ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف فوج، پولیس اور پاکستان کے تمام ادارے یکجان ہیں اور انشااللہ ہم سب مل کر دہشت گردوں کو عبرتناک شکست دیتے ہوئے ملک سے دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ کر کے دم لیں گے۔

تحریر : قرة العین ملک