سعد رفیق صاحب جاگو

Saad Rafique

Saad Rafique

تحریر۔احسان گھمن

”رو عمران رو ” نعرہ ہے جو سعد رفیق نے ایجاد کیا ہے ۔چند دن پہلے وہ کہ رہے تھے کہ یہ نعرہ ”رو عمران رو”اب عام گردش کرنے لگا ہے اُس وقت سعد رفیق صاحب بڑے خوشگوار موڈ میں تھے جیسے کہ انہوں نے کوئی بڑا معرکہ سر کر لیا ہو ۔اگر نعروں کی تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ”رو ”کا لفظ پہلی دفعہ استعمال کیا گیا ہے ۔عین اُس وقت جب ”گو نواز گو” کا نعرہ اپنی مقبولیت کی آخری حدوں کو چُھو رہا ہے ”رو عمران رو”کا نعرہ لگوانا بڑے تعجب کی بات ہے ۔نعرے کا موجد جب کوئی نعرہ تخلیق کرتا ہے تو وہ الفاظ کا وزن اور ان کے اندر چُھپی تحریک کا انجکشن عوام کی رگوں میں اُتارتا ہے۔

ساتھ ساتھ وہ عوامی ذہنوں کی حرکات کا تعین بھی کرتا ہے ۔”گو نواز گو”نعرہ کا مقصد صرف نواز شریف صاحب کی چُھٹی مقصود نہ ہے بلکہ پوری کابینہ اور کرپٹ سسٹم سے جان چُھڑانا ہے ۔عام ذہنوں میں اب جو ”رو عمران رو” کے معنی و مفہوم اُتریں گے وہ یہ کہ عمران جتنا مرضی رونا دُھونا ہے اور جتنی بھی چیخ و پُکار کرنی ہے کر لو ہم تو بدلنے والے نہیں اور نا ہمارا سسٹم۔

پنجابی میں ایک محاورہ بڑا مشہور ہے ”رب ڈانگیں نہ ماردا مت اوّلی دے”جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی جب کسی کو ذلیل و رسوا کرنے اور سزا دینے پر آتے ہیں تو اُس پر ڈنڈوں اور سوٹوں کے وار نہیں کرتے بلکہ اُن کے ذہنوں میں سوچ ہی ایسی ڈال دیتے ہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں ہی ذلیل و خوار ہو جاتے ہیں ۔ہم نے دیکھا کہ پشاور میں استحکامِ پاکستان ریلی سے خطاب میں صابر شاہ صاحب کیسے جھوم جھوم کر ”گو نواز گو” کا نعرہ لگواتے رہے اِسی طرح کئی مقامات پر جوشِ خطابت میں میاں برادران کے منہ سے بھی ایسے الفاظ ادا ہوتے رہے جو وہ نہ کرنا چاہتے تھے۔

اب رہی سہی کسر سعد رفیق صاحب نے نعرہ ایجاد کر کے پوری کر دی ہے ۔میں تو کہتا ہوں کہ سعد رفیق صاحب کے ہوتے ہوے میاں صاحب کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ملک تو پہلے ہی مسائل کی گھمن گھیریوں میں پھنسا ہوا ہے ۔پاکستان میں اسّی فیصد لوگ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں ۔عوام افلاس ،مہنگا ئی ،ظلم و بر بریت اور نا انصافی کی چکی میں پِس پِس کر چیخیں مار رہے ہیں ۔ ہر کوئی ٹیکس ،بجلی ،گیس اور پانی کے بِلوں پر رو رہا ہے لوگ اپنے اور اپنے پیاروں کی معاشی پریشانیوں پر آنسو بہا رہے ہیں ۔ملک میں بڑھتی ہوئی بے روز گاری ،کرپشن ،لوٹ مار اور عدم تحفظ کی فضا پر آہ و پکار جاری ہے ۔سفید پوش طبقہ گھروں میں مقید اپنی قسمت اور خودداری کا رونا روتا نظر آ رہا ہے۔

Imran Khan

Imran Khan

سعد رفیق صاحب!رونے کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور وہ نہیں روتے جن کے اندر دل نہ ہو ۔آپ نے تو ”رو عمران رو”کا نعرہ لگوا کر عوام کو یہ تاثر دیاہے کہ عمران خان عوام کی گاڑی کا ہی ایک مسافر ہے جو عوام کی حالتِ زار ملک کی نا گفتہ بہ حالت پر آہیں بھر رہا ہے۔ اِس نعرہ سے عمران خان کو ہمدردانسان، غریب پرور اور محبِ وطن آپ نے ثابت کر دیا ہے اور آئینہ سیاست میں حکمران طبقے کے تکبر ،اقتدار کے ساتھ چمٹے رہنے کی ہوس ، حالات پر پردہ پوشی اور ہٹ دھرمی کا عکس دکھا کر عوام کے حکومت مخالف نفرت کے جذبات کو مزید ہوا دی ہے۔

تاریخ گواہ ہے جب اللہ کے پیغمبر ،خلفائے راشدین اور اللہ کے ولی و بزرگانِ دین بارگاہِ الہی میں اشکبار ہوئے تو خود اللہ نے اُن سے پوچھا کہ اے میرے بندے کیا بات ہے ۔انسان جب رو کر اپنے اللہ سے دعا مانگتا ہے تو فوراََ اللہ اُسے قبول و منظور فر ما لیتا ہے۔ جب بھی کسی حکمران نے رو کر اپنے ملک کی سلامتی و خوشحالی اور رعا یا کی فلاح و بہبود کے لیے دعا کی تو فوراََپوری ہوئی ۔عوام نے جب کسی ناگہانی آفت سے بچائو کے لیے اللہ کے ہاں رو کر ہاتھ اُٹھائے تو وہ آفت ٹل گئی۔ رونے سے انسانوںنے دوسروں کی ہمدر دیاں اپنے دامنوں میں بھر لیں۔

علامہ اقبال روئے تو انکا رونا دیکھ کر پوری قوم جاگ اُٹھی اور علیحدہ مملکت کی مالک بن بیٹھی ۔میں چھوٹی سی مثال یہاں پیش کر نا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک دفعہ میرے حلقہِ انتخاب میں چوہدری محمد برجیس صاحب جو آج کل وفاقی وزیر ہیں اپنی ناکامی کے بعد خطاب میں امید وار صوبائی اسمبلی حاجی نزیر احمد صاحب کا ہاتھ پکڑ کر اوپر کیا اور رو کر عوام سے اپیل کی کہ مجھے تو آپ نے ہر وا دیا لیکن اب حاجی نذیر صاحب کے ساتھ ایسا نہ کرنا۔اشکبار آنکھوں کے ساتھ جونہی یہ الفاظ گونجے تو تمام حلقہِ عوام کی ہمدردیاں حاجی نزیر صاحب کے دامن میں جا پڑیں اور وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئے۔

سعد رفیق صاحب اس نعرہ کے الفاظ کو تبدیل کر لو ورنہ عمران خان عوامی ہمدردیاں لینے کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت بھی لوگوں کے دل و دماغ میں نقش ہو جائے گی اسکی مقبولیت کا گراف تو پہلے ہی سے آپ کی نا لائقیوں اور بے تُکے بیا نات کی وجہ سے بہت اوپر جا چکا ہے ایسا نہ ہو کہ یہ نعرہ آپ کی حکومت کے لیے وبالِ جان ثابت ہو جائے۔

Ehsan Ghuman

Ehsan Ghuman

تحریر۔احسان گھمن