بچے گا کوئی نہیں

Politics

Politics

تحریر : شاہ بانو میر
احادیث مبارکہ ہیں کہ دنیا جب اپنے انجام کے قریب پہنچنے والی ہوگی تو بد لحاظی گمراہی جہالت اس قدر بڑھے گی کہ کچھ لوگ اس دنیا سے گھبرا کر دنیا کو ترک کر دیں گے اور اللہ کی سنت کو بچانے کیلئے بکریوں کو لے کر پہاڑوں پر چڑھ جائیں گے اور کم ساز و سامان کے ساتھ زندگی گزارنے کو ترجیح دیں گے۔ پھر حدیث مبارکہ پڑہی کہ کالے اونٹ والے جب بلند و بالا عمارتیں قائم کریں گے۔ کالے اونٹ ادنیٰ نسل کے اونٹ ان کے پاس تھے جو انتہائی مفلس لوگ تھے۔ پھر پڑھا کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو یہ وہ ماضی کے اسباق ہیں جو آج بھی استاذہ پڑھا رہے ہیں اور سمجھا کر عمل میں ڈھالنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ یہ اسباق ہمیں بتاتے ہیں کہ دنیا میں چند لوگ دولت کی دوڑ کے بعد طاقتور سیاستدان بن کر سامنے آئیں گے تو مطمع نظر عوام انصاف ترقی خوشحالی نہیں بلکہ صرف اور صرف دولت کا حصول اور اقتدار ہوگا ۔ وہ حاکم بن کر غلام بنا کر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔

حالانکہ حاکم اللہ کی صفت ہے واحکم الاحاکمین اور وہی سب سے بہترین حاکم ہے حاکموں میں سے “”التین “” پاکستان کے سیاستدانوں نے جہاں خود کو اربوں کھربوں پتی بنا لیا حاکم بن کر مسلط بھی ہو گئے مگر ہنوز عوام کی معاشی بد حالی وہیں کی وہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کا اصل ھدف”” عوامی ترقی “” ہونا چاہیے تھا 70 سال ہونے کو آئے اس سیاست نے عوام کو مزید بد حال کیا۔ ذہنی غربت کا شکار ہمارے سیاستدان اس ملک کو لوٹ کر کھا گئے مگر ان کی سوچ کا بڑا برتن ابھی تک خالی ہے۔

نجانے وہ کیسے اور کتنا اس عوام کو نِگل کر بھرے گا؟ یہ سیاست ہے یا کوئی ڈائن ہے جو اس ملک کی نسل کو کھاتی جا رہی ہے ؟ جس نے اس ملک کے ہزاروں گھر اجاڑ دیے اور لالچی انسانوں کو پیسے کی بنیاد پر طاقتور بنا کر طاغوت بنا دیا ۔ طاقتور سیاسی حریف کو عمل سے نہیں بلکہ لفظوں کے گھاؤ لگا کر سیاسی لحاظ سے نیم مردہ کرنے کا نوجوانوں کو ایسا ٹاسک دیا گیا ہر پارٹی سے منسلک نوجوان نیا پاکستان بنانے کی بجائے بد لحاظ معاشرہ تشکیل دینے لگے۔ ہر جماعت کے سوشل میڈیا کے عنوان سے سوشل میڈیا پر دین سے دور خُدا خوفی سے محروم ایسی پوسٹس دیکھنے کو پڑھنے کو ملتی ہیں کہ اللہ اکبر مرنا جیسے ہر جماعت کا سوشل میڈیا بھول گیا ہے آخرت کو بھول کر عذاب قبر کو فراموش کر کے؟ کیوں ذہن منجمند اور ہپنا ٹائز ہو گئے؟

اس ملک کی بد حالی لوگوں کی ضروریات زندگی کا پورا نہ ہونا ۔ کہیں سے کوئی امید کی کرن چمکتی ہے تو یہ اندھا دھند اس طرف لپکتے ہیں۔ بڑے مقاصد عوامی فلاح کے اگر پیش نظر ہوتے تو ہر پارٹی اپنی ذاتی پسند کو اداروں پر لاگو نہ کرتی اس عوام کیلئے مل بیٹھ کر ذاتی انا کو ایک طرف رکھ کر بہترین نتائج اخذ کئے جاتے جو ماحول میں بھائی چارے کی سوچ کو پروان چڑھاتے ۔ مگر ہر جماعت اپنے کارکنان کو دوسرے مخالف کے لئے ایسی بھڑکا رہی ہے جیسے سامنے کفار کی فوج ظفر موج ہو۔ آج ہم اس نازک موڑ پر کھڑے ہیں کہ یہ منفی سیاسی تربیت اب رنگ دکھانے پر آ گئی ہے۔مشتعل مایوس ناکام سیاست کے کارندے کبھی مذہب کی آڑ میں تو کبھی سیاسی اشتعال میں کیا سے کیا کر رہے ہیں۔ آپﷺ کے امتی جن کے نبیﷺ کی شان یہ تھی کہ اپنے ساتھ بد تمیزی کرنے والے کو سزا تک نہیں دیتے تھے “” معافی “” معافی “” قرآن کی بھی یہی پکار اور آپﷺ کی بھی یہی تاکید ہے ۔ آج ایک سیاسی رہنما پر جوتے پھینکنے نے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں سراسیمگی پھیلا دی ہے ۔ کیا بات یہیں ختم ہو جائے گی ؟ نجانے کتنے جوشیلے سیاسی کارکن غیض و غضب میں بپھرے موقعہ کی تاک میں ہیں کہ وہ اس کا رد عمل دے کر ہیرو بن جائیں ۔ نقصان پھر اس کارکن کا ہے جو جوتا پھینکے گا اور مار کھائے گا پولیس سے مار کھا کھا کر نیم مردہ ہو جائے گا ۔ ہماری نسلوں کو اس دور سیاست نے بد لحاظی کا جو سبق پڑہایا ہے وہ اسی سیاست نامی ڈائن کا بھیانک روپ ہے۔

اس سیاست نے ہزاروں گھر بے رحمی سے اجاڑ دیے سیاسی نفرتوں نےکتنے بچوں سے ان کا باپ چھین لیا۔ دنیا میں سیاست کا جوڑ توڑ اپنے نظام کی اصلاح ہے اس میں بہتری ہے ترقی ہے۔ اس ملک کے نوجوانو رحم کھاؤ اپنی اندھا دھند عقیدت پر انہیں انسان سمجھو یہ اوتار نہیں ہیں۔ جاگو اللہ پاک ہلاک کر دیتا ہے ایسی بستی کو جو اس کی ذات کو نظر انداز کر کے کسی اور کو پوجے آج بد نصیبی سے اس سیاست نامی دیوی کی پوجا اس قدر عام ہو گئی کہ تم اپنے رب کو بھول گئے ۔ کھول لو پڑھ لو اقراء بسمہ ربک الذی خلق پہنچ جاؤ اپنے رحیم٬ کریم٬ عظیم رب کو جو اصل داتا ہے جو اصل ہمدرد ہے تمہارا جو پُکار سنتا ہے اور پھر جواب دیتا ہے ۔ جو تمہاری بے اطمینانی کو اطمینان دے گا سکون دے گا۔

دین سے دور ہونے کیوجہ سے بے سکونی کا سکہ رائج الوقت مروج ہے جو سیاست میں جم کر چل رہا ہے ۔ یہ بے سکونی اپنے ساتھ دیگر امراض کو لے آتی ہے ۔ حسد بغض نفرت ذہنی خلفشار انسان کو مایوس کر کے غصیلہ جھگڑالو بنا دیتا ہے ایسے لوگ سیاست کی ضرورت ہیں بات بات پر ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہونے والے۔ سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش میں بھائی بھائی تقسیم ہوکر اپنے اپنے رہنماؤں کیلئے سر پر کفن باندھ کر آمنے سامنے آنے لگے ہیں۔ ایسے میں تباہی کسی ایٹم بم سے بھی زیادہ ہولناک ہو گی۔

جوش میں آکرایک دوسرے کے ساتھ لڑ پڑے تو مرنے والا بھی جہنمی اور مارنے والا بھی جہنمی ۔ مرنے والا کیوں جہنمی؟ آپﷺ نے فرمایا اگر وہ نہ مرتا تو حریص تھا اپنے بھائی کو قتل کر دیتا۔ یاد رکھو جو قوم اپنے دین سے دور ہو کر زمینی خُداؤں کے گُن گاتی ہے اس قوم کا عبرت ناک انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔

عدم برداشت اور احساس محرومی کا رویہ کہیں رواج پا گیا تو اس جیسی خطرناک کوششیں کہیں ملک میں سیاسی نظام کو جلا کرخاکستر نہ کر دے۔ قائدین نے اگر ٹھنڈے دل سے مشتعل کارکنوں کو سمجھا بجھا کر نہ روکا تو یہ فتنہ بہت دور تک جائے گا۔ سال ہا سال سے سیاسی مخالفین کے لئے ذہنوں میں نفرتوں کے آتش فشاں ابال کھا رہے ہوں تو ایسی ایک چنگاری شعلوں کا باعث بن کر متاع حیات کو راکھ کا ڈھیر بنا کر اپنے پیچھے حسرت و یاس چھوڑ دے گی۔ اور پھر بچے گا کوئی نہیں

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر