پوٹھوار یونیورسٹی کا کیا بنا صاحب

Education

Education

تحریر: ضیغم سہیل وارثی
کہا جاتا ہے کہ جو اختیار آپ کے پاس ہیں ان کا اچھے طریقہ سے استعمال میں لایا جائے، مگر نظر کیا آتا ہے صرف خوش آمد، پھر حاصل کیا ہوتا ہے، منظور نظر کامیاب اور آنے والی نسل دربدرا، تھو ڑی غور فکر سے کام لیں۔

بات مطلب کی بر ملا نہ سہی
زیر لب ہی سہی ادا تو ہو

جب طہ ہوا ،درس ملا ،سنو پیغام بھو لنا نہیں ،حقیقت سے انکار کرنا نہیں ،ورنہ پچھتائو گے ،اور صرف پچھتائو گے ۔تعلیم کی اہمیت سے کون نہیں واقف ہے ،کون نہیں جانتا کہ کامیابی کا راستہ صرف اعلی تعلیم حاصل کر کہ ملنا ہے ۔پھر ؟پھر بھی اقدامات نہیں ،ایک خط ایسا جہاں جس کا آنکھوں دیکھا حال بیا ں کروں گا ۔وہاں فائل،سرکاری مشینری میں کا غذی کا روائی ہو ئی اور ایک اعلی شان جد ید طر ز کی یو نی ورسٹی کا قائم درج ہے ۔زمین کے بغیر تو عمارت نہیں کھڑی کی جا سکتی ۔ لہذا سرکا ری کا روائی میں زمین خر ید ی گئی اور اس کی قیمت سرکاری کھا تے سے وصول کی جا چکی ہے ۔پو چھا جناب آپ تو ایک سے زیادہ بار صوبا ئی اور قو می اسمبلی کے رکن رہے ہیں تو ذرا سی معلومات اس پو ٹھوار یو نی ورسٹی کے بارے تو بتا ئیں ۔مو صوف نے سیاسی انداز کے تحت بتا نا شر وع کیا کہ جب اس یو نی ورسٹی کے لئے زمین خر یدی گئی تما م آفس ورک کیا گیا تو ہم کو سیٹ سے ہا تھ دھو نا پڑئے ،اور انجا م یہ ہوا کہ ابھی تک عمارت تک کھڑی نہیں کی جا سکی ۔مو صوف اپنے ساتھ پارٹی کی طرف سے ہو نے والی زیادتی کا رونا روتے رہے ،شائد وہ اس خواہش کا اظہار کر رہے تھے کہ وہ صدا قو می اسمبلی میں بر ا جماں رہیں ۔پو رے خطہ پو ٹھوار میں تحصیل لیول کچھ سرکاری کالجز ہیں۔

اس علاقے میں ایک بھی سرکاری یو نی ورسٹی نہیں راولپنڈی کے شہر کو چھو ڑ کر کیونکہ وہ کپٹیل کے قر یب واقعہ اس لئے وہاں کی صورت حا ل مجبورا ٹھیک رکھنا پڑ تی ہے ۔علاقے کی بد قسمتی کسی پر ائیوٹ ادارے نے بھی اس علاقے کی طرف ایسا اقدا م نہیں اٹھا یا ۔ اس علاقے کے نو جوان طالب علم اعلی تعلیم حاصل کر نے کے لئے اسلام آباد اور راولپنڈی کا رخ کر تے ہیں ،دور دراز سے جانیوالے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے ۔اس صورت حال میں چند ایک گھرانے کے افراد یو نی ورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے میں کامیا ب ہو تے ہیں باقیوں کی حالت بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ ارما ن آنسو میں بہہ گے ۔پو ٹھوار یو نی ورسٹی کا قائم جس شہر میں ہو نا تھا وہ راولپنڈی سے آگے جی ٹی روڈ پر واقع شہر گو جرخان ہے ۔ جہاں پر بارہ اکتو بر سے پہلے (ن)لیگ کے نما ئند ے کامیا ب ہو تے رہے ہیں ،پچھلی دور حکومت میں تو سابق وزیر اعظم اس شہر سے تعلق رکھتے ہیں ،ان کے آنے سے تو صرف ایک یو نی ورسٹی تو کیا ور بہت سے تر قیا تی کاموں کی امید وابستہ کی گئی تھی پھر ہوا کیا بس عوام کے لئے صر ف سبز با غ دکھا ئے گے ۔مو جودہ سیاسی نما ئند ے اس بار پھر (ن) لیگ کے ہیں گو کہ گو جر خان اور اس کے اردگرد کے علا قے میں سڑکوں اور فلاح کاموں پر تو جہ دی جا رہی ہے اس سے ہم انکاری نہیں ہیں ۔سیاسی خد مت گا روں کو اور زیا دہ خدا کی طر ف سے حو صلہ ملے۔مگر آنے والی نسل یہ سوال ضرور کر ئے گی کہ اعلی تعلیم کہاں سے جا کر حاصل کر یں۔

Rawalpindi

Rawalpindi

پھر کیا شر مند گی نہیں ہو گی ؟۔قومی اسمبلی کے سابق رکن جو مسلم لیگ (ن) سے وابستہ رہے ہیں وہ اپنی غلطی کا اعتراف کر چکے ہیں ۔بلکے ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنے عر صے میں ریکا رڈ تروقیاتی پروجیکٹ پر کا م کیا جاتا جس سے تعلیم کے شعبے میں نمایا ں کا میا بی ملتی ۔ مو جو دہ صوبائی اسمبلی کے رکن گو جر خا ن کے شر قی علاقے سے ہیں ،اور جس گائو ں سے ان کا تعلق وہاں سے آج تک سات یا آٹھ طالب علم یو نی ورسٹی کی تعلیم کے لئے بڑے شہروں کارخ کر سکے ہیں ،جن میں یہ خاکسار بھی آتا ا ور بہتربتا سکتا کہ کتنی مشکلا ت کا سامنا کر نا پڑتاہے ۔اس صورت حال میں مو جودہ ایم پی اے اس اہمیت سے با خو بی واقف ہیں جب ان سے تعلیم کے شعبے پربات کی گئی تو وہ بھی اس خواہش کے حامی ہیں کہ ایک سرکاری یو نی ورسٹی کا ہو نا وقت کی ضرورت ہے ۔اس علاقے کے جو پڑھے لکھے افراد ہیں اور صحا فت کے شعبے سے وابستہ ہیں وہ بھی اس معاملے میں قصو وار ہیں ۔جنہوں نے تعلیم کی اہمیت کو اجا گر کر نے کے لئے اپنے قلم کا استعمال نہیں کیا ہے۔

صرف بڑے لیول کی شخصیات کے ساتھ تصویریں بنا کر صرف تصویری صحافت کر تے رہے ہیں سب ایک سے بھی نہیں ہیں ۔ان تصویری صحافت کر نے والوں کی بنا پر نو جوان نسل بہت سے مسا ئل بھگت رہے ہیں ۔کچھ دن پہلے ایک خبر پڑھنے کو ملی جس میں علاقے کے تر قیا تی کاموں کے لئے فنڈ مختص کیے گے ہیں ۔بہت اچھی خبر ہے ،کیا ہی اچھا ہو کہ فوری طور پر اس بات کی طر ف تو جہ دلا ئی جائے جس سے مو جو دہ اور آنے و الی نسل تعلیم کے زیو ر سے آراستہ ہو سکیں ۔تعلیم کے شعبے میں پو ر ے ملک میں جس طرح کے اقدامات کیے جا رہے ہیں وہ ٹھکے چھپ نہیں ہیں ۔حکومتی ارکین کے ساتھ وہاں کی عوام کا بھی قصور گنا جاناچاہیے کیونکہ ان کو تعلیم کی اہمیت کے بارے اپنے سیا ست دانوں سے مطا لبہ کرنا چاہیے خا ص طو ر پر وہ لو گ جو پڑھے لکھے ہیں اور ان کی آواز اوپر تک پہنچ رہی ہو تی ہے ۔بہت افسو س کے سا تھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ تعلیم کے شعبے کے ساتھ ایسا برتا ئو کیا جیسے اس طر ف ہم تر قی یا فتہ ممالک کے لیول کی تعلیم فراہم کر رہے ہیں ۔ ہم تین با دشاہوں کی کہانی کو بھول نہیں سکتے جن میں ایک نے عام عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے پو ری سلطنت میں سڑکوں پر تو جہ دی اور ہر طر ف سڑکیں بنو ائیں ،دوسرے نے اپنے علاقے میں پھول اور سبزے پر تو جہ دی ،تیسر ے با دشا ہ نے عوام کی مشکلا ت دور کر نے کے لئے اقدا مات کیے ۔آخر میں جب تینوں بادشاہوں کی عوام سے ان کے خیالا ت پو چھے گے تو جس با دشاہ نے عوام کے مسائل پر تو جہ دی تھی وہ لوگ اپنے با دشا ہ سے خوش تھے ۔ اب کی بار دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان کس طر ف زیا دہ تو جہ کر رہے ہیں اور عوام مو جو دہ حالا ت میں کن اقدامات کی بنا پر ان کے کا رنا موں سے خو ش ہو ں گے ،ان اقدامات میں سب سے اہم شعبہ تعلیم کا ہے اس طر ف تو جہ بہت اہمیت کی حا مل ہے ۔کہا جاتاہے کہ جو اختیا ر آپ کے پاس ہیں ان کا اچھے طریقہ سے استعمال میں لا یا جائے ،مگر نظر کیا آتا ہے صرف خوش آمد ،پھر حاصل کیا ہو تا ہے ،منظور نظر کامیا ب اور آنے والی نسل دربدرا،تھو ڑی غور فکر سے کام لیں۔

بات مطلب کی بر ملا نہ سہی
زیر لب ہی سہی ادا تو ہو

Zaigham Sohail Warsi

Zaigham Sohail Warsi

تحریر: ضیغم سہیل وارثی