ڈاکٹرمجید نظامی اللہ کو پیارے ہو گئے

Majid Nizami

Majid Nizami

بے باک اور نڈر صحافی ڈاکٹر مجید نظامی با الآخر مقدس ، عظمت والی ، شرف والی با برکت رات ”شبِ قدر ”یعنی ستائیسویں شب کو نظریہ پاکستان کا درد اپنے دل میں لیے دِل کے عارضہ میں مبتلا ہو کر خالق حقیقی سے جا ملے ۔۔۔۔۔اِنَ لِلہ وَ اِنَ اِلیہ راجعون ۔۔۔۔۔۔۔ساری زندگی نظریہ پاکستان کا پیغام کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے یہ جزا عطا کی کہ حصولِ پاکستان اور قیام ِ پاکستان کی شب یعنی نزولِ قرآن کی رات ”شبِ قدر ” ہی کی مقدس رات کو اپنے بندہ کو اپنے پاس بلا لیا یقیناََ یہ بہت بڑی سعادت ہے ”یہ رتبہ بلند جسے ملا ، مل گیا”حُسن ِ ظن رکھتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بشری تقاضوںکے مطابق جنابِ مجید نظامی کی تمام تر دانستہ اورنا دانستہ غلطیوں سے درگزر فرماتے ہوئے اُن کی جھولی میں بخشش کا پروانہ ڈال دیا ہے۔

1928 ئکوسانگلہ ہل کے شہرمحمد دین کے گھر میں جنم لینے والے مردِ حریت جنابِ ڈاکٹر مجید نظامی نے نہایت جرات اور استقامت کے ساتھ میدانِ صحافت میں اپنے آپ کو منوایا اور یہی وجہ ہے کہ آپ 52سال تک روز نامہ نوائے وقت کے مدیر کے فرائض احسن انداز سے سرانجام دیتے رہے صحافت میں گنے چُنے افراد ہی تھے جنہو ں نے نظریاتی صحافت کے پیٹرن پر کام کیا ہے وہ اور جنس کے لوگ تھے جو شعبہ صحافت کو ”ایثار پیشہ ”سمجھتے تھے مگر مو جودہ دور کی صحافت میں ”دینار پیشہ ” لوگ کچھ زیادہ ہی داخل ہو گئے ہیں جو ہر بات کو درہم و دینار کی ترازو سے تولنے لگے ہیں ،مو لانا محمد علی جوہر مرحوم کے”کامریڈ”نے انگریز حکومت کی پریڈلگوانے میں اہم کردار ادا کیا اور کون نہیں جانتا کہ ان کے مایاناز اخبار ”ہمدرد”نے استعمار کے ایجنٹوں اور ایجنڈوں کی طرف سے اڑائی گئی ساری گرد بٹھا دی ،مولانا ظفرعلی خاں کا معروف اخبار ”زمیندار”کو کون فراموش کر سکتاہے جس نے گورے سامراج کی قبائے زرکو سرِبازار تار تار کر دیا جناب حمید نظامی مرحوم کے ہاتھوں سے لگایا گیا پودا ”نوائے وقت”جو اب ایک شجر ِسایہ دار کی حیثیت رکھتا ہے نے ہر دور میں اپنے آپ کو داغِ ندامت سے محفوظ رکھا ہے۔

آپ کے برادر عزیز جناب ڈاکٹر مجیدنظامی مرحوم نے بھی صحافت میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی ”دیہاڑیوں ”اورسیاست کی خاردار” جھاڑیوں” سے اپنے دامن کو بچا کر صاف ستھرا رکھا ہوا تھا جناب ڈاکٹرمجید نظامی مرحوم بحمدللہ تعالیٰ جنسِ بازار نہیں بنے تھے ،جنابِ ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم نے ادارہ نوائے وقت کو فکری غلاظتوں اور مالی کثافتوں سے ہمیشہ محفوظ رکھا،”امن کی آشا” والو ں نے تو ہمیشہ غیروں کے حقوق کی پاسداری کی اور پرایوں کی ثقافت کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور بدیسی کلچر ”ویلنٹائین ڈے”کو کشور حسین ،پاک سر زمین میں متعارف کروانے کا سہرا بھی ”امن کی آشا ”کے گُروں کے سر جاتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے اپنے اداراہ کی طرف سے ”ویلنٹائن ڈے”پر خصوصی رنگین اشاعت کا اجراء کر کے اس کی ”اہمیت”کو اجاگر کیا اور دو قومی نظریہ کی حامل اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پاکیزہ ثقافت پر مغربی کثافت کا لیپ چڑھانے کی بھونڈی کوشش کی مگر صحافت کی تاریخ گواہ ہے۔

ادارہ نوائے وقت نے ہمیشہ اسلامی کلچر کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور بدیسی کلچر کی شروع دن سے مخالفت کی ہے اور جنابِ مجید نظامی نے تو ہر پلیٹ فارم پر دو قومی نظریہ کی ڈٹ کرحمایت کی ۔۔۔۔۔ اس پیرانہ سالی کے باوجود کھلم کھلا ہندو بنئے کی مخالفت کرتے تھے ”امن کی آشا”والوں نے تو”امن کی بھاشا”نکال کے رکھ دی ہے اور اب جو اِن کی بھا شا نکل رہی ہے پوری دنیا میں ”امن کی بھاشا ” والوں کے کردار کا جنازہ نکلا ہوا ہے اور اِن کا اصلی چہرہ اب قوم کے سامنے آگیا ہے کہ اندر کھاتے اِن کے مقاصد کیا تھے ؟یہ ”کرائے کے ٹَٹو ”یہودو نصاریٰ کے بھاڑے پر پلنے والے اور اُمت کو گمراہ کرنے میں پیش پیش ۔۔۔۔۔فحاشی و عریانی کو عام کرنے والوں نے اُمت ِ واحدہ کے سینے میں خنجر پیوست کر کے دل دل زخمی کردیئے ہیں۔۔۔ایسے میں ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم کے گروپ آف نیوز پیپرزاور لیکٹرانک چینل نے پاک سر زمین ، کشور حسین ، مرکز ِ یقین اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے ساتھ ساتھ دینی افکار کی بھی پہریداری اور چوکیداری کا فریضہ خوب نبھایا ہے۔

دو قومی نظریہ کو اپنے بھونڈے طریقے سے تار تار کرنے اورنظریاتی دیواروں کو گرانے والوںپر اپنی حُب الوطنی کی کاری ضرب لگا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُن”سُورمائوں ” کے آگے بند باندھ دیا ہے قائد اعظم علیہ الرحمة کی ذات پر رکیک حملے کرنے والے جعلی ”پیر زادے ” ہوں یا جاتی اُمراء کے دستر خواں سے چچوری ہڈیاں چوسنے والے ”نقشِ خیال ” کے فقیر زادے ہوں اِن سب چھوکروں اور نوکروں کی نوائے وقت گروپ آف نیوز پیپرز نے ٹھیک ٹھاک کان پکڑوا کر کلاس لی ہے۔

اولیائے کاملین کے خوبصورت تذکرے اور سوانح حیات کو شائع کرنے میں اداراہ نوائے وقت ہمیشہ سر فہرست رہا ہے وطن عزیز کے جینوئن اورممتاز مشائخ عظام سے جناب ڈاکٹر ِمجید نظامی کی محبت ڈھکی چھپی نہیں تھی تحریک پاکستان کے اکابرین اور وابستگان سے جس عقیدت ومحبت کا اظہار جناب مجید نظامی فرماتے تھے صحافتی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ہے خانقاہوں کے بزرگوںسے برملا محبت وعقیدت کی وجہ بھی دو قومی نظریہ ہی ہے ،محمد حسین آزاد مرحوم ،مو لانا الطاف حسین حالی مرحوم ، مولانا حسرت مو ہانی مرحوم،جنابِ حمید نظامی مرحوم اور ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم ایسے جینوئن لوگ اب شعبہ صحافت میں نایاب ہیں جنہوں نے ہر آمر اور جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے کی روش کو برقرا ررکھا اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا کر اور چکی چلا کربھی نعرہ مستانہ بلند کیا ،آج جب ”سویرے سویرے ” کسی کالم نگار کی تحریر پڑھ لیں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ کل اِس نے کس کے دستر خواں سے اپنے ہاتھ صاف کیے ہیںپل بھر میں آنکھ جھپکتے ہی اپنا موقف اور نظریہ بدلنے والے اہل صحافت کی کمی نہیں ہے۔

آج اُس کے دستر خواں پر تو کل کلاں کسی اور کی ڈائیننگ ٹیبل کے مہمان بنے نظر آتے ہیں ، صحافت کے بازار میں گرگٹ کی طرح اپنی فکر اور نظریہ بدلنے والے اہل قلم حضرات کی بھر مار ہے آج الا ماشا ء اللہ دیہاڑی پر کالم لکھے جا رہے ہیں بلکہ اگر اِسے کچھ یوں کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ لکھوائے جا رہے ہیں نظریاتی و فکری صحافت کو اُوڑھنا ، بچھونا سمجھنے والے اکابرین صحافت میں اب صرف نوائے وقت گروپ کے چیف ایگزیکٹو ، آبروئے مسند صحافت ، ”ایثارپیشہ ” صحافت کے مردِ حُر جنابِ مجید نظامی صاحب بقیتہ السلف تھے وہ بھی دار الفنا سے دار البقا کی طرف سفر کر گئے جو صحافت کو ایک مقدس پیشہ اور نظریاتی ادارہ سمجھ کر چلا رہے تھے اور ایسی ہی فکری و نظریاتی شخصیات کے بارے میں کسی شاعر نے درست کہا تھا کہ۔
ہے غنیمت کہ جلتے ہیں ابھی چند چراغ
بند ہوتے ہوئے بازار سے اور کیا چاہتے ہو

جناب ِ حمید نظامی مرحوم نے بھی ہمیشہ ایک مقصد کو سامنے رکھ کر صحافت کی ، ہمیشہ آمریت کی ڈٹ کر مخالفت کی اور یہ آپ کی جُہد مسلسل ، پُر خلوص کاوش ، نیک نیتی ، پختہ عزم ، دیوانہ وار محنت ، منزل کے حصول کی لگن ،دو قومی نظریے کی حفاظت کا جنون ہی تھا کہ جس نے آج نوائے وقت گروپ کو پاکستان کا سب بڑا گروپ آف نیوز پیپرز ڈیکلیئر کیا ہے اور فیملی بھر میںاور دنیا بھر میں سب سے زیادہ شوق و جذبے سے پڑھا جا نے والا گروپ آف نیوز پیپرز ہے آج اگر جنابِ مجید نظامی میں حق گوئی ، راست بازی ،پختہ عزم ،آمر یت کے سامنے ڈٹ جانے کی صلاحیت ، نیک نیتی اور بلند ارادے کی جھلک نظر آرہی تھی تو یہ جنابِ حمید نظامی کی تربیت اور صحبت ہی کا اثرتھاکہ آج جنابِ مجید نظامی بھی اس پیرانہ سالی کے با وجود جابر و ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق کہنے کی صلاحیت سے مالا مال تھے اور اِس بات کے قطع نظر کہ حکمرانوں کو اگر سچ بات کہہ دی تو وہ ناراض ہو جائیں گے کیونکہ حکمرانوں کی ناراضی اداروں کی بندش کی طرف اشارہ کرتی ہے ، سرکاری اشتہارات کی ترسیل میں رُکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔

Journalism

Journalism

مگر جنابِ مجید نظامی مرحوم نے اِس بات کی قطعاََ پرواہ نہیں کی کہ نوائے وقت گروپ کے سرکاری اشتہارات بند ہو جائیں گے ”ہتھ ذرا ہولا رکھا جائے” اور حکمرانوں کو من مانی کر نے اور کُھل کھیلنے کا موقع دیا جائے مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہ چٹائی توڑ،میدانِ صحافت کا قلندر ،ظالم و جابرحکمرانوں کے لیے گردن توڑ بخار ثابت ہو ا ہے آپ نے ہمیشہ قلم سے تلوار کا کام لیا ہے اور قلم کی آبرو کو کبھی ”جنسِ فروختنی ” نہیں سمجھا ہے ہر ظالم و جابر حکمران نے جنابِ مجید نظامی مرحوم کو خریدنے کی کوشش کی مگر یہ مردقلندر نہ کبھی جُھکا اور نہ ہی کبھی بِکا۔ ،کیونکہ
جو بِک چُکا ہے بازارِ مصطفیٰ ۖ میں
وہ کسی اور بازار میں اب بِکتا نہیں ہے
جنابِ لیاقت علی خان نے آپ کو ”مجاہد تحریک ِ پاکستان ” کااعزاز بھی عطاکرنے کے ساتھ ساتھ شمشیر سے بھی نوازا ، مگر آپ نے ہمیشہ اپنے قلم کو ظالم حکمرانوں اور ہندو بنیئے کے لیے بطور ”شمشیر ”استعمال کیا ۔۔۔۔۔۔وقت کے جابر اور ظالم حکمرانوں کو غلط کاموں سے روکنا دراصل ایسا جرات مندانہ کام اُسی شخصیت کے حصے میں آتا ہے جس کے روشن سینے میں عزیمت اور استقامت کا غیر متزلزل دل ہو ، جسے وقت کے حکمرانوں کا بڑے سے بڑا زلزلہ اور قہر بھی ان ارادوں میں ڈگمگاہٹ پیدا نہ کر سکے ،ملوکیت کے پیکر میں ڈھلے حکمرانوں کو ان کے ایوانوں سے جاری کی گئی رسوم ِ بد سے روکنا اور بڑھتے ہوئے گندگی و غلاظت کے سیلاب کا رخ موڑنے کے لیے ایسے مردان حُر ہی آگے بڑھ کر پاکیزگی و طہارت کا بندھ باندھتے ہیں اور ایسے مردان ِ حر معاشرے کے ماتھے کا جھومراور وقار ہوتے ہیں۔

یادرہے ہم نہ تو کسی کے مخالف اور نہ ہی کسی کے حاشیہ بردار اور خوشہ چیں ، ہم دراصل اُس سوچ اور ذہنیت کے طرفدار ہو تے ہیں جو ملک و قوم کے لیے مخلصانہ جذبوں سے لیس ہو کر سوچتی ہے اور ہر اُس فکر اور نظریہ کی مخالفت کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں جو غلام ذہنیت کی پیداوار ہوتے ہیں اور غیروں کے اشاروں پر خود بھی ناچتے ہیں اور قوم کو بھی نچانے کی سعی لا حاصل کرتے رہتے ہیں ہم افراد کے نہیں بلکہ افراد کے ذہنوں میں پرورش پانے والی غلیظ اور تعفن زدہ سوچ کے مخالف ہیں کیو نکہ ہماری دینی تعلیمات ہمیں گناہگار سے نہیں بلکہ گناہ سے نفرت کا درس دیتی ہیں اور جنابِ مجید نظامی مرحوم وہ نہیں تھے جو لفافہ ازم کا شکار ہوکر اپنی قلمی عصمت کو داغدار کرتے اور اپنے الفاظ کو ایک طوائف کی طرح ”قلمی کوٹھے ” کی زینت بناتے جنابِ مجید نظامی مرحوم آئینے کی حیثیت سے گلی کی نکڑ اور چوک چوراہے پر جو کچھ ہو رہا ہوتا تھا وہ قوم کو دکھانے کی کوشش کرتے رہے اور جس کا ہمارے حکمران بُرا منا جاتے تھے۔

جنابِ مجید نظامی مرحوم نے ”بی بی ” ہو یا ”بابو ” پرویزِ صغیر ” ہو یا ”پرویزِ کبیر ” ”میاں ” ہو یا ”بیوی ” نوائے وقت گروپ آف نیوز پیپرز کے صفحات گواہ ہیں کہ آپ نے ہر دور ِ حکومت میںحق گوئی کا پرچم بلند کیے رکھا اور اِس راست بازی کے پرچم کو کبھی بھی کسی بھی لمحے ذرا بھر کے لیے بھی سر نگوں نہیں ہو نے دیا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ نے نوائے وقت گروپ پر کسی بھی جماعت اور تحریک کی چھاپ نہیں لگنے دی اور اِسے نظریاتی لوگوں کا پسندیدہ نیوز پیپرز بنا دیا جو 50سال پہلے نوائے وقت کا قاری تھا وہ آج بھی نوائے وقت ہی پڑھنے کو ترجیح دے گا اور بہت سارے ایسے لوگ بھی ہیں جو ”نوائے وقتیے ” مشہور ہیں بلکہ ہمارے مہر بان دوست جناب ِ ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب نے چند ایک کے نام بھی رکھ چھو ڑے ہیں ،نوائے وقت گروپ آف نیوز پیپرز نے فحاشی و عریانی کے خلاف بغاوت کا پرچم اُٹھا رکھا ہے۔

روز نامہ نوائے وقت ہو یا منفرد سٹائل کا ہفت روزہ فیملی میگزین ، بچوں کاپسندیدہ پھول میگزین ہو یا بڑوں کا معلوماتی ہفت روزہ ندائے ملت ، ایلیٹ کلاس کے لیے دی نیشن ہو یا ہر مکتب و ہر مسلک میں یکساں مقبول چینل وقت نیوز ہو ، الحمد للہ آج تک نوائے وقت گروپ کے کسی بھی پلیٹ فارم پر فحاشی و عریانی کے پیکر میں ڈھلی تحریر اور نہ ہی کوئی ایسی تصویر نظر آئی ہے کہ جس کو دیکھ کر اور پڑھ کر ہمارا سر شرم سے جُھک جائے ،آج اس مملکت کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لیے جہاں مذہبی تفرقہ بازی اور مسلمانوں کے در میان اختلاف کی خلیج وسیع کرنے کے لیے غیر مسلم طاقتیں اپنے باطل کا جال پھیلا رہی ہیں وہاں پر مسلمانوں کی مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں کی سوچ کو با قاعدہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت فحاشی و عریانی کی طرف دھکیلا بھی جا رہا ہے۔

ایسے منتشرماحول اور پراگندہ حالات میںآبروئے صحافت جنابِ مجید نظامی مرحوم اِس پیرانہ سالی کے باوجود بھی نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے سکولز ، کالجز و یونیورسٹیزاور دینی مدارس کے طلبہ و طالبات کو دو قومی نظریے کی اہمیت سے آگاہ کرنے اور اور تحریک پاکستان کے اکابرین کے سنہری کارناموں سے روشناس کرانے کے لیے گاہے گاہے سیمینارز ، کانفرنسز ، علمی و فکری نشستوں اور مذاکرات کا اہتمام کرتے رہتے اور دو قومی نظریے کے لیے نوائے وقت گروپ ہمیشہ پیش پیش رہا ہے اور باقاعدہ نیوز پیپرز اور چینل کی کچھ نشریات اور صفحے دو قومی نظریے کی اشاعت و ترویج کے لیے وقف ہیں اور ایوان ِ کارکنانِ پاکستان میں تو ہر روز کسی نہ کسی موضوع پر سیمینارز ، کانفرنس یا مذاکرہ ہو رہا ہو تا ہے جس میں مشائخ عظام ،دانشور ، سکالرزکو لیکچرز کے لیے مدعو کرکے نوجوان نسل کو نظریہ پاکستان کی اساس بارے آگاہ کیا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ اسی طرح جناب ِ مجید نظامی مرحوم کی تربت کروڑ ہا برکتیں نازل فرمائے اور لواحقین کو صبرِ جمیل اورخصوصاََ محترمہ رمیزہ مجید صاحبہ کو استقامت اور ہمت عطا فر مائے کہ وہ بھی اپنے اکابرین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے نظریہ پاکستان کے احیاء اور فروغ کے لیے اپنا تن من دھن صرف کردے (آمین)یقیناََ اب اِن کے کاندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے ہماری دُعائیں محترمہ رمیزہ مجید کے ساتھ ہیں کہ وہ اسی جذبے اور بہتر نظم و نسق کے ساتھ ادارہ کی بہتری کے لیے دیوانہ وار کام کرتی رہیں۔

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر ! صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی /فکرِ فردا 03314403420