ابنِ صفی، غالبِ ثانی

Mirza Asadullah Khan Ghalib

Mirza Asadullah Khan Ghalib

ڈیگ گیٹ، گلپاڑہ، بھرت پور ،راجستھان کہتے ہیں کہ ماضی میں مرزا اسد اللہ خاں غالب نام اورتخلص کے ایک عالمی شہرت یافتہ شاعر گذرے ہیں۔جنھیں ان کے زمانے میں ہی شہرت دوام حاصل ہوگئی تھی ۔ان کی عالمی شہرت کا سبب جہاں ان کی آفاقی اور زندہ جاوید شاعری کو بتایا جاتا ہے وہیں ماہرین غالب ،ان کے ذریعے اپنے متوسلین اور دوست و احباب کے نام لکھے گئے خطوط کا انداز’ مکالمہ نما’بنادینے کو بھی کہتے ہیں۔

یہ دونوں باتیں درست بھی ہیں ،یقینا غالب نے پہلی مرتبہ خطوط اور نامہ نگاری جیسی صنف میں اس طرزکو متعارف کرایا اور مراسلوں کو مکالمہ بنا کر اپنے مکتوب الیہ ومرسل الیہ حضرات کو مخاطب کرنے کی نئی طرح ڈالی۔ان میں وہ انھیں کھری کھری بھی سناتے تو نصیحتیں بھی کرتے تھے ۔ راز نہاں انھیں بتاتے تھے تو کبھی سربستہ رازوں سے پردے اٹھاتے۔کبھی ان کی بے وفائی اور ابن الوقتی پر فقرے کستے تو کبھی اپنی سدا بہار اور خوشگوار باتوں سے ان کے دل و دماغ مہکاتے تھے۔کبھی ان کے دکھ، درد کا علاج بھی بتلاتے اور کبھی اپنے درددل کی دوا طلب کر تے۔ان سے شکوے شکایتیں بھی کر تے اور کبھی ان کا غم بھی بانٹتے تھے۔جیسے وہ خطوط نہ ہوں روبرو اوگوش بگوش گفتگو کا کوئی ذریعہ ہوں ۔

مرزا غالب کی اس نوایجاد صنف پرہو سکتا ہے ان کے معاصرین نے خامہ پیمائی کی ہو اور اس فن کو زندہ رکھنے و فروغ دینے کی کوشش کی ہومگر ان کی یہ کوششیں تادیر باقی نہ رہیں بلکہ غالب کے کچھ عرصے بعد یہ فن عدم توجہی کا شکار ہوکر معدوم ہوتا چلا گیا۔عین قریب تھا کہ ہرشے کی طرح یہ سلسلہ بھی داستان پارینہ ہوجاتااور لوگ اسے گئے گذرے عہدکی مانند یاد کر تے…… کہ نابغہ روزگار، لا زوال تحریروں کے مالک اور عظیم مصنف ابن صفی مرحوم نے اس فن کو نیا لبادہ ، نیا انداز اور نیا آہنگ عطا کر کے سدا بہار جاسوسی ناولوں کے آغاز میں اپنے قارئین کے خطوط کی روشنی میں’پیش رس ‘ کے عنوان سے جواب لکھ کرزندہ کردیا اور اپنے ناولوں کے معترضین و معترفین کے سوالوں ، اپنوں و غیروں کے مطالبوں ،موافقین و مخالفین کے اعتراضوں،جاسوسی ادب پڑھنے والوں کی فر مایشوں اور گذارشوںکا بے تکلفانہ جواب دے کر ان کو مکالمہ نما بنا دیا۔

اس طرح یہ فن دوبارہ زندہ ہو گیا اور ابن صفی مرحوم، غالب ثانی بن گئے۔نہ صرف یہ بلکہ غالب سے بھی بازی لے گئے۔اس لیے کہ غالب کے مکتوب الیہ مخصوص ، گنے چنے اور جانے پہچانے لوگ تھے مگر ابن صفی کے مکتوب الیہ یا ان کے نام خط لکھنے والوں کا تو کوئی شمارہی نہیں تھا اور نہ ہی ابن صفی ان تمام سے واقف تھے ۔ان میں بعض تو وہ تھے جو ابن صفی کی زبان سے ناوقف بنگالی اور ہندی داں تھے۔مگر ان سے بھی ابن صفی نے اسی طرح باتیں کیں۔
ذیل میں ابن صفی کے ”پیش رسوں”کیچنداقتباسات پیش ہیںجن سے یہ حقیقت ہویداہوتی ہے اور ابن صفی ،مرزاغالب کے طرز پر اپنے مکتوب الیہ و مرسل الیہ سے خطاب فرماتے ہیں۔

O ایک دفعہ جب کہ دنیا بھر میں ازموں کی پیروی کی ہوائیں چل رہی تھیں اور ہر شخص کسی نہ کسی ازم کا پیروکار بن رہا تھا، اسی دوران آپ کے ایک قاری نے دریافت کیا کہ’ ‘آپ کس ازم کے قائل ہیں…… ”تو آپ نے لکھا: ” بھائی میں تو اللہ کی ڈکٹیٹر شپ کا قایل ہوں ۔اس میں اس کی گنجایش نہیں ہوتی کہ جتنے پگ کا نشہ ہو ویسا ہی بیان داغ دیا جائے۔آپ بھی کسی ازم وزم میں پڑنے کے بجائے اسلام کوسمجھنے کی کوشش کیجیے۔

سارے ازم محض وقتی حالات کے پیداوار ہیں اور کسی ایک ازم کی دشواری کسی زمانے میں دوسرے ازم کی پیدایش کا سبب بنتی رہتی ہے۔ اسلام کے علاوہ کوئی بھی ازم حرف آخر ہونے کا دعوا نہیں کرسکتا ۔اسلامی نظام حیات آج بھی قابل عمل ہے لیکن اس کے لیے انفرادی طور پر ایمان دار بننا پڑے گااور یہ بے حد مشکل کام ہے۔ پس میرا سیاسی رحجان اللہ کی ڈکٹیٹر شپ کا قیام اور میرا فن سکھاتا ہے قانون کا احترام۔”( دھواں ہوئی دیوار:مارچ1969 )
”زرد فتنہ”کے پیش رس میں اپنے قارئین کی خدمت میں سنجیدگی اور فکریہ باتیں کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

Allah

Allah

”آپ محض معاملات پر سنجیدگی سے غور کریں ۔زندگی محض ہنسی خوشی کا کھیل نہیں ہے۔یہ اور بات ہے کہ میں ہنسی کھیل کے ذریعے آپ کو زندگی کے حقائق کے قریب تر لانے کی کوشش کرتا ہوں۔”
نیز آگے لکھتے ہیں: ”بڑا آدمی صرف وہ ہے جس کی تگ ودو صرف اپنی ہی ذات کے لیے نہیں ہوتی ۔اگر مال دار ہوتا ہے تو خود کو ایک چوکیدار سے زیادہ نہیں سمجھتا ۔اس مال کا چوکیدار جو دراصل اللہ کی ملکیت ہے اور اسے اللہ کے بتائے راستے پر خرچ کر تا ہے……

ہم جو کچھ بھی حاصل کر تے ہیں۔اللہ کی زمین ہی سے تو حاصل کر تے ہیں اور اس پر ہمارے حقوق صرف اس حد تک ہوتے ہیں جو اللہ نے مقرر کر دیے۔”(زرد فتنہ:اگست1971) O ایک مرتبہ ایک معترض نے استفسارکیا کہ” جناب یہ جرائم کیوں بڑھ رہے ہیں ؟”تو ان کے جواب میں لکھا: ”مستقبل سے مایوسی غلط فہمی ہی کی پیداوار ہے اور آدمی کو جرائم کی طرف لے جاتی ہے۔مستقبل سے مایوس ہوکر یا تو آدمی جرائم کرتا ہے یا پھر ایسے کر نل فریدی کی تلاش میں ذہنی سفر کر تا ہے

جو قانون اور انصاف کے لیے بڑے سے بڑے چہرے پر مُکا رسید کر سکے …..” (مہلک شناسائی :نومبر 1968) O ایک صاحب آپ کی فلمی دنیا سے متعلق بے راہ روی کے مستقبلاتی اشاروں ،نیز سنیماکی بڑھتی برائیوں پر قدغن لگانے کی غرض سے تحریر کیے گئے ناول”ستاروں کی موت”پر بر افروختہ ہوئے اور لکھا کہ ”آپ جیسے لوگ ہی فلمی دنیا کے متعلق غلط فہمی پھیلا کر شریف گھرانوں کی لڑکیوں کو اس جانب متوجہ ہونے سے روکتے ہیں۔” تو آپ نے انھیں اس طرح مخاطب کیا:

”بھائی آپ کیوں خفا ہورہے ہیں ۔شاید آپ کو اس کی اطلاع نہیں کہ سماجی قدریں کس تیزی سے بدل رہی ہیں۔آج سے پندرہ بیس سال پہلے شرافت کا جو معیار تھا اسے فلاکت زدگی اور جہالت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر پردے کو لے لیجیے۔پہلے یہ شرافت اور اعلا نسبی کی پہچان تھی ۔آج پر دہ نشین خواتین کو یا تو نچلے طبقے سے متعلق سمجھا جاتا ہے یا جاہل۔بہر حال آپ کی مراد بر آنے میں محض دس سال اور لگیں گے کیو نکہ ابھی ہمارے یہاں کے شریف آدمی آزدانہ صنفی اختلاط کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے کسی قدر ہچکچاتے ہیں۔ صرف….دس سال اور صبر کیجیے…..یہ خلیج بھی حائل نہ رہے گی ….پھر ہوں گے آپ کے پوبارہ …..لائیے ہاتھ اسی پر…..”(ستاروں کی چیخیں: دسمب1964 ) O ایک مرتبہ آپ کے ایک قاری نے ناول ”رات کا شہزادہ”پر شائع ہوئی تصویر پر تبصرہ کر تے ہوئے لکھا کہ آپ کو تصویر ذرا اچھی کھنچوانی چاہیے تھی

تو آپ نے اس سے کہا: ”کل آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ذرا اپنے چہرے پر سفیدی کراکے پھول اور پتیاں بھی بنوا لیجیے۔لیکن یہ آپ اس وقت کہہ سکیں گے جب آپ مجھے قریب سے دیکھیں گے ۔خدا مجھے اس برے وقت سے بچائے۔” Oایک بنگالی قاری نے جاسوسی ناول پسند نہ آنے پرابن صفی مرحوم کو ایک گستاخانہ خط لکھا اور اس میں انھیں ناول نگار ی ترک کر کے ترکاری بیچنے
کا مشورہ دے ڈالا …اس کے جواب میں اس طرح خطاب کیا:”میں ان چاٹگامی بھائی سے کسی طرح متفق نہیں جنھوں نے مجھے کتابیں لکھنا ترک کر کے ترکاری بیچنے کا مشورہ دیا ہے۔ میاں! میں اتنا بدھو بھی نہیں ہوں کہ تا ئو میں آکر سچ مچ ترکاریاں بیچنا شروع کر دو ں۔میں جانتا ہوں کہ بچی ہوئی ترکاریاں باسی کہلاتی ہیں۔

سڑجاتی ہیں پھر ان کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ۔لیکن کتابیں …..دس سال پڑی رہنے کے باوجود بھی پوری ہی قیمت پر فروخت ہوتی ہیں۔ مجھے آپ کا یہ مشورہ خلوص پر مبنی نہیں معلوم ہوتا اس لیے میں اس پر عمل بھی نہیں کروں گا۔ پھر آپ نے لکھا’مگر ساتھ ہی یہ بھی عرض ہے کہ آپ نے میرے مشورے پر عمل کر نا شرو ع کر دیا تو مجھے بہت افسوس ہوگا ۔مگر میں یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ آئندہ بھی آپ کتابیں لکھتے رہیں۔’

عقل ضبط کر دی آپ نے تو ۔یعنی مجھے ترکاریاں بیچتے دیکھ کر بھی آپ کو افسوس ہوگا اور آپ یہ بھی نہیں چاہتے کہ میں کتابیں لکھتا رہوں ۔ تو پھر کیا خیال ہے میں آپ کی محبت میں فاقے شروع کر دوں ؟ بھئی اپنا نام تو صا ف لکھا کیجیے ۔پہلی نظر میں ‘بدھو داس ‘معلوم ہوتا ہے ۔غور کرو تو ‘رولز رائس ‘پڑھا جاتا ہے ۔ذرا ترچھا کر کے دیکھو تو ”چلو واپس’گھسیٹا ہوا معلوم ہوتا ہے۔”(دھواں اٹھ رہا تھا:اکتوبر 1959) یہ اور اس طرح کے بہت سے نمونے ہیں جنھوں نے ابن صفی کے فن کو نمایاں اور تابناک بنادیا اور انھیں مرزا غالب کے بالمقابل لا کھڑا کیا۔اہم ترین بات یہ ہے ابن صفی کی ان ‘پیش رسی ‘ تحریروں کی آج بھی وہی اہمیت و معنویت بر قرار ہے جو ان کے عہد میں تھی ۔غالب کا قصہ تو تمام ہوچکا اور ان کا فن وہیں تک محدود ہے جہاں انھوں نے چھوڑا تھا مگر ابن صفی کا فن نئی نئی جہات اور طرز سے فروغ پذیر ہے۔

IMRAN AKIF KHAN

IMRAN AKIF KHAN

تحریر: عمران عاکف خان
imranakifkhan@gmail.co