وزیراعظم کا دفاع حرمین کے لئے پالیسی بیان خوش آئند

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر:ڈاکٹراسرار ملک
وزیر اعظم نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر واضح کیا ہے کہ سعودی عرب کی سالمیت کو اگر کوئی خطرہ ہوا تو پاکستان اس کا سخت جواب دے گا، سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے، خلیجی تعاون کونسل پر واضح کر دیا کہ پارلیمنٹ کی متفقہ قرار داد پر عدم اطمینان غلط فہمی کا نتیجہ ہے، وہ شاید قرار داد کو سمجھ نہیں سکے، میڈیا میں قرار داد کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے سے غلط فہمیاں پیدا ہوئیں،ایران سے کہا کہ حوثیوں کی جانب سے یمن میں منتخب حکومت کا تختہ الٹنا خطے کے لئے خطرناک ثابت ہو گا، ایران اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے حوثی باغیوں کو مذاکرات کی میز پر لائے، منصور ہادی کی حکومت کی بحالی چاہتے ہیں۔ یمن پر مشترکہ اجلاس کی قرار داد کے بعد کئی قسم کے سوالات سامنے آئے ہیں تاہم ہمارا موقف واضح ہے،سعودی عرب پاکستان کا اہم اسٹریٹیجک اتحادی ہے اور اس لئے یمن کے بارے میں پاکستان کی پالیسی اصولوں پر مبنی ہے اور سعودی عرب کی خود مختاری اور سالمیت کی حفاظت پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو ہے۔ پاکستان مشکل وقت میں اپنے دوستوں اور اسٹریٹیجک پارٹنرز کو تنہا نہیں چھوڑے گا بلکہ ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گا۔

نواز شریف نے کہا کہ قرار داد میں یہ واضع طور پر کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کو کسی بھی قسم کا خطرہ ہوا تو پاکستان کا رد عمل سخت ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے دورہ پاکستان کے موقع پر ملاقات کے دوران میں نے ان پر یہ واضح کیا کہ حوثی باغیوں کی جانب سے یمن کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنا قابل مذمت ہے اور اس سے بدترین مثال قائم ہوئی ہے۔ حوثی باغیوں کی بغاوت کے خطے میں خطرناک نتائج برآمد ہوں گے، ہم منصور ہادی کی منتخب حکومت کی بحالی پر یقین رکھتے ہیں۔پارلیمنٹ میں اس مسئلہ پر آنے والی قرارداد کے بعد وزیر اعظم کا پالیسی بیان کھل کر آ گیا۔ سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد کا مطالبہ ہے کہ یمن میں وہاں کی منتخب حکومت کو بحال کیا جائے کیونکہ اگر وہاں بغاوت ختم نہیں ہوتی تو پھر قرب و جوار کے علاقے بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ اس بنیاد پر سعودی عرب نے پاکستان سے بھی مدد طلب کی۔ ابتداء میں حکومت پاکستان نے دوٹوک انداز میں سعودی عرب کی ہر ممکن مدد کا اعلان کیا لیکن جب یہ مسئلہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں اٹھایا گیا اور بعد میں قرارداد پیش کی گئی تومبہم موقف کی وجہ سے غلط فہمیاں اور بے چینی پیدا ہوئی۔

Houthi Rebels

Houthi Rebels

اصولی طور پر اس حساس مسئلہ پر ان کیمرہ اجلاس ہونا چاہیے تھا۔ ایسا فورم جہاں مختلف رائے رکھنے والے لوگ ہوں اور مسلم حکومتیں و ملک وابستہ ہوں اس مسئلہ کو آئندہ کیلئے بازیچہ اطفال نہیں بنانا چاہیے۔ بہرحال وزیر اعظم نواز شریف کے حالیہ پالیسی بیان کی وجہ سے کافی حد تک غلط فہمیاں دور ہوئی ہیں۔ وزیر اعظم نے واضح طور پر حوثیوں کی بغاوت کی مذمت کی، یمن میں منتخب حکومت کی دوبارہ بحالی کامطالبہ کیا اور کہاکہ ہم عربوں کے اتحاد کو درست سمجھتے ہیں اور کسی طور اس معاملہ سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتے۔ اسی طرح وزیر اعظم نواز شریف نے سعودی عرب کو اپنا سٹریٹیجک پارٹنر قرار دیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد ساری بحث ختم ہو جاتی ہے۔ اب فیصلہ سعودی عرب کی قیادت میں قائم عرب اتحادنے کرنا ہے کہ اسے پاکستان سے کسی قسم کی مدد چاہیے؟۔ فوجی سطح کے معاملات کو میڈیا اور عوامی سطح پر نہیں لایا جاسکتا لیکن حکومت نے اپنا موقف کھل کر واضح کر دیا ہے جس پر عرب میڈیا اور ان کی حکومتیں بھی مطمئن دکھائی دیتی ہیں۔ مذہبی و سیاسی جماعتوں کو متحد ہو کر ملک میں پائی جانے والی مایوسی اور بے چینی کو ختم کرنا چاہیے اورحرمین شریفین کے تحفظ کے مسئلہ کو سیاسی نہیں بنانا چاہیے۔

پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے سیاسی اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن حرمین شریفین کا مسئلہ پر کسی کو اختلاف نہیں ہو نا چاہئے۔حوثی باغیوںنے جب یمن کی منتخب حکومت کو گرایا، صنعا اور دیگر علاقوں پر قبضہ کیا اور پھر سعودی عرب کی سرحد پر جھڑپوں کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے ان کیلئے خطرات کھڑے کر دیے ۔ اس صورتحال پر سعودی عرب نے عرب ملکوں کا اتحاد قائم کیا اور یمن میں امن کے قیام کو اولین ترجیح قرار دیا۔ سعودی عرب کو یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کاروائی کا پورا حق حاصل ہے۔ ہمیں صیہونی و یہودی سازشوں کو سمجھنا چاہیے۔ان کی پوری کوشش ہے کہ اصل مسئلہ پیچھے چلا جائے اور مسلم ملکوںمیں فرقہ وارانہ فسادات اٹھ کھڑے ہوں۔یہ شیعہ سنی مسئلہ نہیں اور نہ ہی یہ ایران اور سعودی عر ب کی جنگ ہے۔یہ اس اصول کی لڑائی ہے جس پر پاکستان میں اتفاق رائے سے طے پایا تھا کہ طاقت یا اسلحہ کے زور پر کوئی بھی گروپ حکومت پر قبضہ کرے یا بغاوت کرے تو اس کے خلاف کاروائی ہو گی۔اسی اصول کے تحت یمن میں کاروائی ہو رہی ہے اور پاکستان کو اس کا مکمل ساتھ دینا چاہیے۔ پاکستان تحفظ حرمین شریفین کے مسئلہ پر کبھی غیر جانبدار نہیںرہ سکتا اور نہ ہی قوم یہ چاہتی ہے کہ سعودی عرب یا حرمین کے بارے میں کوئی دوسری رائے اختیار کی جائے کیونکہ حرمین امت کا مشترکہ مسئلہ ہے۔امت مسلمہ کے دل حرمین شریفین کے لئے دھڑکتے ہیں۔اگر حرمین شریفین کو چیلنج در پیش ہوتا ہے تو اس کا دفاع امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے اور ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے پاکستان کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہو جاتی ہے۔

Pakistan Nuclear Power

Pakistan Nuclear Power

تحفظ حرمین شریفین کے مسئلہ پر او آئی سی کا اجلاس بلا کر مسلم ملکوں کو متفقہ لائحہ عمل قوم کے سامنے لانا چاہیے۔ پاکستان عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہے اور دفاعی مرکز ہے۔صلیبی و یہودی اس مسئلہ کو بگاڑنے اور امت میں دراڑیں پیدا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ہمیں ان سازشوں سے امت کو محفوظ رکھنا ہے۔سعودی عرب کی حمایت اور حرمین شریفین کے تحفظ کے لئے مذہبی جماعتیں میدان میں نکل چکی ہیں۔امیر جماعةالدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید نے تحفظ حرمین شریفین کیلئے مذہبی و سیاسی جماعتوںکو ساتھ ملا کر ملک گیر سطح پر بھرپور تحریک چلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے مرحلے میں 15اپریل بدھ کو گوجرانوالہ میں تحفظ حرمین شریفین کانفرنس ہوگی۔16اپریل جمعرات کو لاہور میں کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا۔

APC

APC

جس میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں شریک ہوں گی۔ 17 اپریل کو فیصل آباد میں تحفظ حرمین شریفین کے حوالہ سے بڑا پروگرام ہو گا۔ 18 اپریل کو ایبٹ آباد ہزارہ ڈویژن میں کانفرنس ہو گی جس میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین شریک ہوں گے۔ 19 اپریل کو جماعة الدعوة کے زیر اہتمام پشاور میں جلسہ ہو گا ۔حافظ محمد سعید کہتے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ ہر مسئلہ پر امت مسلمہ کو جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ حرمین شریفین کے تحفظ کے معاملہ پر بھی اتحادویکجہتی کاماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔وطن عزیزکی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کو بھی تمام تر اختلافات بالائے طاق رکھ کر تحفظ حرمین شریفین کی تحریک میں جماعة الدعوة کا ساتھ دینا چاہیے تا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مشترکہ دشمنوں تک یہ پیغام پہنچے کہ ہم ایک ہیں کوئی ہمیں جدا نہیں کر سکتا۔پاکستان کی تمام تر جماعتوں کا اتحاد اور پھر تمام اسلامی ممالک کا اتحاد وقت کی اشد ضرورت اور تمام مسائل کا حل ہے۔

تحریر: ڈاکٹراسرار ملک