یہ حوثی بغاوت ہے، تنازع نہیں

Parliament

Parliament

تحریر: پروفیسر مظہر
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کی جانے والی متفقہ قرارداد سے کشید کیا گیا ”امرت”یہ کہ پاکستان یمن تنازعے میں”غیر جانبدار” رہے گااور اگر سعودی عرب کی سلامتی کو خطرہ ہوا تو پاکستان سعودی عرب کا ساتھ دے گا۔

پارلیمنٹ میںبراجمان بزرجمہروںسے پوچھاجا سکتاہے کہ کیااب یہ سعودی حکومت کی بجائے ہماری پارلیمنٹ طے کرے گی کہ سعودی عرب کی سلامتی کوکب خطرہ ہوگااور کب نہیں؟اورکیاجنگِ یمن سیاسی تنازع ہے یاایک گروہ کی بغاوت؟۔اگریہ دوبرادر اسلامی ممالک کے درمیان تنازع ہے تواسے سفارتی سطح پرحل کرنے کی کی سعی کی جانی چاہیے لیکن اگریہ بغاوت ہے توپھر باغیوںسے کیسی مصالحت اورکیسے مذاکرات ،کیسی غیرجانبداری اورکیسی ثالثی ۔حوثیوںکے اذہان وقلوب میں تواِس قرارداد سے مارے خوشی کے لڈوپھوٹ رہے ہونگے کہ اُنہیں باغی قراردینے کی بجائے متوازی طاقت سمجھا جارہا ہے اورثالثی کاڈول ڈالتے ہوئے کچھ لو، کچھ دوکی باتیںکی جا رہی ہیں۔

شایداسی لیے سعودی عرب کے وزیرِمذہبی امور ڈاکٹرعبدالعزیز بِن عبداللہ نے یہ کہناضروری سمجھاکہ یمن کی صورتِ حال میںثالثی کی بات کرنامذاق کے مترادف ہے ۔اُنہوںنے کہا ”ایک فیصدآبادی کوننانوے فیصدپر بزورطاقت مسلط ہونے کی اجازت کوئی نہیںدے سکتا ۔اِس مسٔلے کاحل یہ ہے کہ باغی ہتھیارپھینک دیں ،قانونی حکومت دوبارہ بحال ہواور پھرحوثی انتخابات میںحصہ لیں ۔وہ اگراِس طریقے سے قانونی حکومت حاصل کرلیں توہمیں کوئی اعتراض نہیں”۔ ڈاکٹرعبدالعزیزکے اِس بیان سے ظاہرہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے اسلامی ممالک کوپاکستان کی ثالثی قبول ہے نہ غیرجانبداری ۔وہ پاکستان سے دوٹوک جواب چاہتے ہیںجو ہمارے حکمرانوںکو دیناہی پڑے گا۔

Pakistan

Pakistan

امام شافی کاقول ہے ”وقت ایک تلوارہے اگرتم اسے نہ کاٹوگے تویہ تمہیںکاٹ دے گا”اِس لیے ہماری خارجہ پالیسی کے افلاطونوںکو بہرحال کوئی ایسی راہ نکالنی ہوگی جس سے بے لوث دوست سعودی عرب مطمئن ہوسکے ۔اِس تکلیف دہ صورتِ حال سے بہ اندازِحکیمانہ بچا جاسکتا تھا،اگر ہمارے حکمران ”مشترکہ قراردادکے شوق میںاپنے تیارکردہ ڈرافٹ میںایسا اضافہ نہ کردیتے جوکسی بھی برادراور بے لوث اسلامی ملک کے لیے باعثِ آزارہوتا ۔شنیدہے کہ ”غیرجانبدار” کالفظ تحریکِ انصاف نے ضِدکرکے قرارداد میںشامل کروایااور انتہائی محترم امیرِ جماعت اسلامی سراج الحق صاحب یمن اورسعودی عرب میںثالثی پرزور دیتے رہے۔

کپتان صاحب نے تو بر ملا کہہ دیا ”یمن کے معاملے پرپارلیمنٹ کی مشترکہ قراردادمیں تحریکِ انصاف نے کلیدی کردارادا کیا۔ ہم یمن تنازعے پرحکومت کوخفیہ مفاہمت سے بازرکھنے کے لیے پارلیمنٹ میںگئے ۔پرائی جنگ میں پہلے ہی نقصان اٹھاچکے اب خفیہ ڈیل نہی ںہونے دیںگے ”۔ تحریکِ انصاف نے واک آؤٹ کی دھمکی دے کرڈرافٹ سے یہ بھی حذف کروادیا کہ”پاکستان یمنی باغی حوثیوںکی شدت پسندی کوغیرقانونی اورغیراخلاقی سمجھتاہے ”۔قحط الرجال کی انتہاکہ”متفقہ قرارداد” کے شوق میں فہم وادراک سے ماوراایک متنازع قرارداد منظورکر لی گئی ۔حکمرانوںکے اِس ”شوق”کو مدِنظر رکھ کرکہنا ہی پڑتا ہے کہ

کم ہونگے اِس بساط پر ہم جیسے بَد قمار
جو چال بھی چلے ہم ، نہایت بری چلے

جنگِ یمن خالصتاَ سیاسی مسٔلہ ہے جسے اقوامِ مغرب فرقہ واریت کارنگ دے کراسلام کوبدنام کرنے کی کوششوںمیں مگن اور ہمارا ”جہنم سے نکلاہوا اتحادی” امریکہ خوش کہ عالمِ اسلام کے باہم تصادم کی کوئی توراہ نکلی ۔ مسٔلہ حرمین شریفین کی حفاظت کابھی نہیںکہ اُن کی حفاظت کاذمہ خودربّ ِ لَم یَزل نے لے رکھا ہے۔

Yemen Rebels

Yemen Rebels

اگر کوئی بَدباطن ابرہہ کی طرح پھرحرمین شریفین کی طرف میلی آنکھ اُٹھانے کی جرأت کرے گاتو ہماراایمان کہ ربّ ِ کائینات اُسے ”کھائے ہوئے بھُس کی مانند”کر دے گا،اِس کے باوجودیہ بھی ربّ ِ کردگارکا حکم کہ ”اپنے گھوڑے تیاررکھو ”۔اصل مسٔلہ تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ کافیصلہ رائے عامہ کاعکاس ہے نہ قومی مفادکا ۔اگر قراردادمیں لفظ ”غیرجانبدار” نہ ہوتااوراصل ڈرافٹ کے مطابق حوثیوںکو باغی قراردیا جاتا تومتحدہ عرب امارات کے وزیرِخارجہ ڈاکٹرانور قرقاش کی یہ انتہائی نامناسب اورنامعقول دھمکی بھی سامنے نہ آتی کہ ”پاکستان کویمن بحران پرمبہم مؤقف کی بھاری قیمت اداکرنا ہوگی ”۔ڈاکٹرصاحب ہمارے لیے انتہائی محترم کہ ایک برادراسلامی ملک کے وزیرِخارجہ لیکن یہ بھی عین حقیقت کہ ہم پاکستانیوںپر دھمکیوںکا ہمیشہ اُلٹااثر ہوتاہے اورمن حیث القوم ہماری نَس نَس میںموجزن خونِ گرم کی لہروںنے ہمارایہ مزاج بنادیا ہے کہ

کب دہلا ہے آفاتِ زمانہ سے میرا دِل
طوفاں کو جو آنا ہے تو دروازہ کھلا ہے

لیکن شایدڈاکٹرصاحب ہمارے مزاج آشنانہیں یاپھر اُنہوںنے جذبات کی رومیں بہہ کرایک ایسابیان دے دیاجس پر ڈاکٹرعبدالعزیزبِن عبد اللہ کوبھی یہ کہناپڑاکہ ”عرب امارات کے وزیرکا بیان گلے شکوے سے زیادہ کچھ نہیں”۔یقیناََ ایساہی ہوگا لیکن شکوہ جب حدسے گزرجائے توگالی بن جاتاہے ۔دوسری طرف ہمارے وزیرِ داخلہ چودھری نثاراحمد نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے یہ فرمانا اپنا فرضِ منصبی سمجھاکہ ”اماراتی وزیرکی دھمکیاںستم ظریفی ہی نہیںلمحۂ فکریہ بھی ہیں،پاکستانی قوم غیرت مندہے اورمروجہ بین الاقوامی تعلقات کے اصولوںکے مطابق اماراتی وزیرکا یہ بیان پاکستان اور اُس کے عوام کی توہین اورناقابلِ قبول ہے ”۔ حکومتی حلقے تومصلحتاََڈاکٹر انور قرقاش کے اِس متنازع بیان پرخاموش ہی رہے اوروزارتِ خارجہ نے بھی ٹویٹ کیے گئے اِس بیان کوکوئی اہمیت نہ دی لیکن چودھری نثارصاحب سے جلتی پرتیل چھڑکنے میںکوئی کوتاہی نہیںہوئی ۔اگراماراتی وزیرکا بیان سفارتی آداب کے منافی ہے تومحترم وزیرِداخلہ کابیان بھی حکومتی پالیسی کے مطابق نہیں۔ شنیدہے کہ محترم وزیرِاعظم بھی چودھری صاحب کے اِس غیرمتوقع بیان پربرہم ہوئے لیکن ہمارے وزیرِداخلہ صاحب نے پہلے کبھی پرواہ کی نہ اب کرنے کا ارادہ۔

Professor Mazhar

Professor Mazhar

تحریر: پروفیسر مظہر