عشقِ رسول جنت سے بڑھ کر (حصہ) 15

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت بلال کے والد رباح اپنی اہلیہ کے ہمراہ مکہ میں مستقل آباد ہو گئے تھے اور قریش کے خاندان بنو جمح کی غلامی اختیار کر لی تھی۔ اِس غلامی کی حالت میں بعثت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تقریباً 28 برس پہلے حضرت بلال پیدا ہوئے اُس وقت چاروں طرف کفر و شرک کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے۔ حضرت بلال کا آقا امیہ بن خلف سخت ظالم اور مشرک تھا۔ اُسی ظالم کی غلامی میں حضرت بلال نے اٹھائیس برس گزار دیے اُنہی دنوں میں حضرت بلال کے کانوں میں توحید کی صدا گونجی۔ حضرت بلال بعثت سے قبل ہی حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق سے متاثر تھے اِس لیے فوری لبیک کہا اور اسلام قبول کر لیا آپ اُن سات سعید الفطرت ہستیوں میں سے تھے جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ قبول اسلام کے عاشق ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ اپنے آقا و مولا کے شریک رہے اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فاقہ ہوتا تو وہ بھی فاقے سے ہوئے اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دکھی ہوتے تو وہ بھی دکھی ہو جاتے۔

شبِ معراج ملائکہ کے جھرمٹ میں شاہِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب رب ِ ذولجلال سے ملاقات کے لیے آسمانوں پر گئے تو آسمان پر بھی حضرت بلال کے قدموں کی چاپ گونج رہی تھی ۔ جب مسلمانوں کو مشریکین مکہ کے مظالم سے تنگ آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت مدینہ کا حکم دیا تو حضرت بلال بھی مدینہ منورہ ہجرت فرما گئے ۔ مدینہ میں حضرت بلال اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمنا لیے راہوں میں آنکھیں بچھائے منتظر رہتے تھے دن رات دعائیں کرتے اے اللہ تعالی میرے محبوب کی حفاظت فرما زمین کی طنابیں کھینچ لے اور سرور ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جلد سے جلد مدینہ پہنچا دے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگئے تو حضرت بلال کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا قدموں پر نثار ہوئے جا رہے تھے۔

رمضان کے مہینے میں روزانہ بوقتِ سحری بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوتے ایک دن جب آپ حاضر ہوئے تو فخرِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سحری تناول فرما رہے تھے حضرت بلال سمجھے سحری کا وقت ختم ہو گیا عرض کی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سحری ختم ہو چکی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سماعت فرمایالیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھاتے رہے حضرت بلال پھر بولے اللہ کی قسم سحری کا وقت آخر ہو لیا ۔ جونہی حضرت بلال نے قسم کھائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوالہ دست ِ مبارک سے رکھ دیا کسی کے پوچھنے پر رحمت ِ دو جہاں ۖفرمانے لگے بلال اپنے اندازے کے مطابق اختتامِ سحری کا اعلان کر رہا تھا ۔ جبکہ میری نظر آفتاب کے اس مرکز پر تھی جہاں ابھی سحری ختم ہونے میں چند لمحے باقی تھے ۔ لیکن جیسے ہی حضرت بلال نے قسم کھائی اللہ تعالی نے اس کی قسم کو سچا کرنے کے لیے آفتاب کو حرکت دی اور اس جگہ پہنچا دیا جہاں سحری کا وقت ختم ہو جا تا ہے۔

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

کیا مقام و مرتبہ ہے محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانوں کا کہ اگر وہ قسم کھا لیں تو اللہ تعالی کائنات اُن کے تابع کر دیتا ہے ۔ہجرت کے بعد مسجدِ نبوی ۖ کی تعمیر ہوئی تو آذان دینے کی سعادت حضرت بلال کے سپر د ہوئی عشقِ رسول ۖ میں ڈوبی ہوئی اور آبِ زم زم سے دھلی ہوئی آواز سے جب اشہدان محمد رسول اللّٰہ کی صدا بلند کرتے اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جلوہ افروز ہادی دو جہاں ۖ کی طرف انگشتِ شہادت سے اشارہ فرماتے تو چاروں طرف عشقِ رسول ۖ کا سحر پھیل جاتا اور صحابہ جھوم جھوم جاتے سبحان اللہ کیا نظارہ کیا سماں ہو تا ہوگا ۔ لیکن حضرت بلال کے محبوب ۖ اپنے رب کریم کے پاس تشریف لے گئے تو حضرت بلال پر غم کا اندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑا۔اب جب انگشتِ شہادت کا اشارہ فرماتے اور محبوب نظر نہ آتے تو کلیجہ پھٹ جاتا ۔ حضرت بلال حجرہ عائشہ کی طرف نظریں جمائے بیٹھے رہتے شدت غم سے پھوٹ پھوٹ کر روتے اور بے قرار ہو کر روضہ رسول ۖ میں داخل ہوتے اپنے محبوب و آقا ۖ کے چہرے کی بلائیں لیتے اور اپنے بے قرار دل اور روح کو تسلی دیتے کہ میرے آقا محبوب ۖ سو رہے ہیں۔

ابھی تھوڑی دیر میں بیدار ہونگے تو اپنے غلام کو یاد فرمائیں گے پکاریں گے یا بلال یا بلال نبی کریم ۖ کے جانے کے بعد مدینہ کے درو دیوار غمگین اور اداس لگتے آخر مدینہ منورہ کو خیر باد کہنے کا وقت آگیا۔ اب اِس شہر اور گلیوں میں دل نہ لگتا تھا ۔ بوقتِ رخصت مدینہ کی گلی کوچوں میں یہ صدائیں دیتے پھرتے اے مدینہ والوں تم نے کہیں میرے آقامحبوب ۖ کو دیکھا ہے تو مجھے آپ ۖ کا پتہ بتا دو وہ کدھر ہیں حضرت بلال دیوانوں کی طرح مدینہ کے گلی کوچوں میں صدائیں دے رہے تھے اِس منظر نے اہل ِ مدینہ اور مدینہ کے درو دیوار کو ہلا کر رکھ دیا کہرام مچ گیا۔ سرور دو عالم ۖ کے عاشقاں گھروں سے نکل آئے کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جس سے آنسوئوں کا سیلاب نہ بہہ نکلا ہو درودیوار ساکت تھے ہر آنکھ اشکبار تھی اِس حالت غم اور ہجر میں آپ ملک شام جانے والی شاہراہ پر چل پڑے اہلِ مدینہ عاشقِ رسول ۖ کا جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور رو رہے تھے ۔ بیت المقدس کی فتح کے وقت حضرت عمر فاروق شام گئے اور عیسائیوں نے شہر کے دروازے کھول دیے معاہدے کے بعد حضرت عمر فاروق نے خطبہ دیا تو سامعین میں حضرت بلال بھی موجود تھے تو حضرت عمر فاروق جن کے جلال اورمقام و مرتبے سے ساری دنیا واقف ہے وہ بولے اے ہمارے سردار بلال آج قبلہ اول پر پرچم ِ توحید لہرایا ہے اِس عظیم موقع پر اگر آپ آذان دیں تو ہم آپ کے بہت شکر گزار ہو نگے۔

Allah

Allah

پھر جب آپ آذان کے لیے کھڑے ہوئے جب آپ کے منہ سے اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر کے الفاظ نکلے تو صحابہ کرام کے قلب و جگر پھٹ گئے اُنہیں رحمت دو جہاں ۖ کا وقت یا د آگیا اور جب اشھدان محمد رسول اللّٰہ پر پہنچے تو صحابہ کرام ہجرِ رسول ۖ میں روتے روتے نڈھال اور بے ہوش ہونے لگے فاروقِ اعظم کو بھی فراق ِ رسول ۖ نے تڑپا دیا روتے روتے ہچکی بندھ گئی ۔ شام کے شہر حلب میں قیام کئے جب ایک سال بیت گیا تو ایک مبارک رات ہادی دو جہاں ۖ خواب میں آئے اور ارشاد فرمایا اے بلال تم نے ہم سے ملنا کیوں چھوڑ دیا کیا تمھارا دل ہم سے ملنے کو نہیں کر تا ۔خواب سے بیدار ہوئے تو عرض کی لبیک یا رسول اللہ ۖ اور پھر اسی وقت رات کے اندھیرے میں ہی اونٹنی پر سوار ہو کر محبوب ۖ کے شہر مدینہ کی طرف چل پڑے ۔ شب و روز چلتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچے مسجدِ نبوی میں حضور ۖ کو تلاش کیا پھر حجرات مبارک میں تلاش کیا جب حضور ۖ کہیں نہ ملے تو حجرہ انور پر حاضر ہوئے اور رو رو کر عرض کی یا رسول اللہ ۖ غلام کو کہا ہے کہ آکر مل جا اب غلام حاضر ہے آپ ۖ پردہ میں چھپ گئے ہیں ۔ شدتِ غم سے بے خود ہو کر قبر انور کے پاس گر پڑے ۔ اِسی دوران آپ کی آمد کی خبر سارے مدینہ میں پھیل گئی اہل مدینہ آپ کے ارد گرد جمع ہو گئے حضرت حسن اور حسین کو دیکھا تو اپنے محبوب کے جگر گوشوں کو سینے سے لگا کر بار بار اُن کا منہ اور سر چو ما ۔ حضرت حسن حسین نے فرمائش کی بابا بلال آپ آذان دیں ۔ آپ انکا ر نہ کر سکے مسجد نبوی ۖ کی چھت پر چڑھے اور آذا ن شروع کی اہلِ مدینہ نے لحنِ بلالی سنا تو پوری فضا حشر ِ ساماں ہو گئی رسول کریم ۖ کا عہد مبار ک یا د آگیا۔ہر شخص غم سے نڈھال تھا خواتین روتی تھیں اور بچے دریافت کرتے تھے بلال تو آگئے ہیں رسول کریم ۖ کب تشریف لائیں گے۔

دوران آذان جب حضرت بلال نے روضہ اقدس کی طرف انگلی کا اشارہ کر کے اشہد ان محمد ارسول اللّٰہ کہا تو پردہ نشین خواتین بھی گھروں سے نکل آئیں روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں ایسا لگ رہا تھا گویا ہادی حق ۖ نے آج ہی وصال فرمایا ہے سرور دو عالم ۖ کی رحلت کے بعد مدینہ میں ایسا دلدوز اور پر اثر منظر آج تک دیکھنے میں نہیں آیا ۔حضرت بلال کو حضور اکرم نظر نہ آئے تو غم ِ ہجر میں بے ہوش ہو کر گر پڑے اور جب ہوش آیا تو روتے روتے واپس شام لوٹ گئے باقی ساری زندگی آپ غمِ فراق محبوب سے نڈھال رہے ہر لمحہ آتش ِ ہجر میں جلتے رہتے موت وقت قریب آیا تو آپ کی اہلیہ محترمہ بولیں ہائے افسوس تو آپ بولے یہ تو خوشی کو موقع ہے میری اپنے محبوب ۖ سے ملاقات ہوگی سفر آخرت کے وقت ساٹھ برس لے لگ بھگ عمر تھی دمشق میں اُن کا مزار آج بھی مرجع خلائق ہے حضرت عمر فاروق کو جب بلال کی وفات کی خبر پہنچی تو روتے روتے نڈھال ہو گئے بار بار فرماتے تھے آہ ہمارا سردار بلال بھی ہمیں داغِ جدائی دے گیا۔

PROF ABDULLAH BHATTI

PROF ABDULLAH BHATTI

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org