نفسیاتی امراض ڈیرے اور بیٹھک

Psychiatric Diseases

Psychiatric Diseases

تحریر: گل رحیم
آج کا انسان تمدنی ترقی کے عروج کے دور میں زندگی گزار رہا ہے ۔سائنسی ترقی ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ نے دنیا کو سمیٹ کر ایک گائوں میں تبدیل کر دیا ہے، مشرق کی خبر مغرب میں سیکنڈوں کے حساب سے پہنچ جاتی ہے۔ہر طرف باخبر دور دورہ ہے۔ عجب تماشہ ہے کہ دنیا سے با خبر یہ آدمی آج اپنے آس پڑوس سے بے خبر ہے۔ سکون حاصل کرنے کے لئے مختلف طریقوں میں مصروف عمل ہے لیکن جب انسان ،انسان سے دور ہو جائے جہاں خیر خواہانہ جذبے اور ہمدردیاں ختم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔وہاں خوشیوں کے ڈیرے نہیں جمتے ہیں۔پھر برکتیں اور رحمتیں وہاں سے کسی اور آشیانے کی طرف نکل پڑتے ہیں۔اپنے معاشرے کے چاروں طرف نظریں دوڑائیے ایسا تو نہیں ہے کہ آج ہم خیرخواہانہ جذبوں، ہمدردی اور رحمدلی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ایسا تو نہیں کہ پڑوس کا عبداللہ جب محنت مزدوری کرتا تھا اور توانا جسم کا مالک تھا تو اپنے بچوں کو کما کر کھلایا کرتا تھا۔

لیکن آج وہ گھر میں بیمار پڑا ہے اور خاندان فاقہ کشی کا شکار ہے۔اور وہ بے بسی کے عالم میں آسمان کی طرف دیکھ رہا ہے۔باخبر آدمی بے خبر تو نہیںدوسری طرف جوان بچیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھروں میں بیٹھی ہیں والدین ان کے سروں میں سفیدی دیکھ کر غموں کی دنیا میں ڈوبے ہوئے ہیں لیکن آج یہ با خبر آدمی بے خبر تو نہیں اور کسی گھر میں میت پڑی ہے کھانے پینے کو کچھ نہیں، کفن دفن کے لئے رقم بھی نہیں اور قرض کا بندوبست بھی نہیں ہو رہا آج کا یہ آدمی بے خبر تو نہیں۔دوسری جانب ماں باپ نے اپنی پوری زندگی قربانیاں دے کر بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لئے اپنی زندگی گنوادی لیکن آج بڑھاپے میں اپنی آنکھوںکے سامنے نوکریاں حاصل کرنے کے لئے اپنے بچوں کو ٹھوکرے کھا تے دیکھ رہے ہیں اور ان کے دل آج خون کے آنسو رونے پر مجبور ہے آج کا با خبر آدمی بے خبر تو نہیں۔ذرا غورکیجئے آپ چلتے پھرتے لوگوں پر نظر دوڑائیںتو ایک تندرست آدمی اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے دیکھیں گے اور اپنی انگلیاں شمار کرتے ہوئے چلتا پھر رہا ہے۔

Psychiatric Diseases

Psychiatric Diseases

یہ اسباب ہیں کہ آج نفسیاتی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مریض جب ہسپتال پہنچتا ہے ڈاکٹر بچپن، لڑکپن، جوانی زندگی کے گزرے ہوئے واقعات کے متعلق سوالات پوچھتے ہیں جب مریض اپنے دل کی ساری باتیں بتادیتا ہے تو اس کا دل ہلکا اور ذہن پرسکون ہو جاتاہے۔ایک وہ دور بھی تھا جب انسان ان تمام ترقی یافتہ سہولیات سے محروم تھا انسانی ضروریات زندگی اتنے میسر نہیں تھیں ملک کے بہت سے حصوںمیںبجلی تک نہیں تھی لوگ تندوروں ،انگیٹھیوں پر روٹیاں پکایا کرتے تھے ۔بلکہ شہروں میں بھی بعض حصوں میں بجلی نہیں ہوتی تھی لوگ بیل گاڑیوں،سائیکلوں پر سواری کرتے تھے اس وقت موٹر سائیکل بڑی سواریوں میں شمار ہوتی تھی۔اس دور میں بیٹھک اور ڈیرے لگتے تھے لوگ دن بھر کی مصروفیات کے بعد مل جل کر ایک ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔یہ بیٹھک اور ڈیرے کئی گھروں سے چارپائیاں نکال کر رکھتے تھے اور کہیں لکڑیوں کے تختے پر بیٹھ کر ،کئی قالینوں پر تکئے لگ اکر بیٹھک ہوتی تھی۔اور کہیں چوراہے میں کرسیاں نکال کر لوگ بیٹھتے تھے۔

اور کہیں نہروں کے کنارے یہ پہاڑوں کی اونچی فضائوں میں یہ بیٹھک اور ڈیرے سجتے تھے جہاں نوجوان بھی ہوتے تھے بوڑھے اورمزدور،کسان، زمیندار ،تعلیم یافتہ،ان پڑھ،وقت کے حساب سے امیر اور غریب بھی ان بیٹھکوں میں ایک ساتھ بیٹھتے تھے ۔اس وقت باخبر رہنے کے لئے ریڈیو ایک اہم ذریعہ ہوتا تھاان سب میںیہ بات مشترک تھی کہ یہ لوگ ایک دوسرے سے مخلص اور ان کے درمیان اعتماد کا رشتہ ہوتا تھا مصروفیات کے بعد آکر ایک دوسرے کو اپنی دن بھر کی کار گزاریاں سناتے تھے جو بھی دل میں ہوتا تھا ایک دوسرے سے بیان کرتے تھے یہ آپس میںاعتماد کا ایک رشتہ ہوتا ہے اس وجہ سے ان کے دل ہلکے اور ذہن پرسکون ہوتے تھے یہ ایک دوسرے کے معالج کا کام کرتے تھے۔

Hospital

Hospital

ان لوگوں کو نفسیاتی ہسپتالوں کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی یہ لوگ ایک دوسرے کے غم اور دکھ درد میں شریک ہونے والے لوگ تھے اور اس طرح مسائل بھی حل ہوجاتے تھے۔اگر کہیں پتہ لگتا کہ عبدالرحمن بیٹھک یا ڈیرے پر نہیں آرہا تو یہ سب مل کر جاتے تھے اگر یہ پتہ لگتا کہ گھر میں بیماری ہے اور مالی پریشانی بھی ہے تو اس کو شرمندہ کرتے تھے کہ تم نے ہمیں اپنا نہیں سمجا اور ہمیں کیوں نہیں بتایا مجمع سے آواز آتی کہ یار جا میری سائیکل بیچ دے یہ تیرے والد کی زندگی سے قیمتی نہیں ہے اور جب ان کی آنکھوں سے آنسوآتے تو سب اس کو گلے لگاتے۔اگر کسی گھر میں بہن کی شادی ہوتی تو سب ملکر اپنا حصہ ڈالتے تھے اس جذبے کے ساتھ یہ ہماری سب کی بہن ہے ۔اس طرح لوگوں کے کندھوں سے کافی بوجھ کم ہو جاتا تھا۔اور ایک دوسرے کے گھر کے غم او خوشی میں ہر طرح کے حصہ دار بنتے تھے۔اگر کسی کے بچوں کا اعلیٰ تعلیم کا مرحلہ درپیش ہوتا تو سب ملکر کامیابی کی دعائیں اور اسکے اخراجا ت میں تعاون کرنے والے لوگ ہوتے تھے۔کیا آج کے ترقی یافتہ زندگی کی سہولیات سے با خبر آدمی ان بیٹھکوں اور ڈیروں کو دوبارہ آباد کر سکتے ہیں۔جہاں محبت ہو،ہمدردی اور خیرخواہی کا جذبہ ہو خلوص اور اعتماد کا رشتہ قائم ہو ۔جہا ں یہ نہیں دیکھا جاتا تھا کہ انسان کا نسل،قوم و قبیلہ،اور زبان کیا ہے جہاں انسان کو انسانیت کی نظر سے دیکھا جاتاتھاجب بھی یہ پر خلوص اور محبت سے بھرے یہ ڈیرے اور بیٹھک بحال ہونگے تب ہماری زندگیوں میں سکون آئے گا اور اس طرح نفسیاتی امراض کا خاتمہ بھی ہوجائے گا۔

تحریر: گل رحیم
موبائل نمبر :0333-2325487
g.rahimkhan00@gmail.com