منافع خوروں کی چاند رات

IMF

IMF

مبارک ہو ملک میں ایک جمہوری حکومت اپنے پانچ سال مکمل کرکے گھر جا چکی ہے اور اب اپنی تیسری باری لینے والے جمہوری چیمپیئن ایک بار پھر سے برسر اقتدار ہیں جنہوں نے آتے ہی ملک میں ٹیکسوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف سے نئے قرضے لینے کے لیے انکی تمام شرائط کو بھی تسلیم کرلیا ہے ان تاجر پیشہ حکمرانوں نے اپنے دور اقتدار میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے جبکہ انکے پیشرو پیپلز پارٹی والوں نے لوٹ مار کے نئے عالمی ریکارڈ قائم کررکھے تھے۔

اور تبدیلی کے نعرے سے برسراقتدار آنے والے عمران خان نے بھی خیبر پختونخواہ میں کوئی خاص اہمیت کے کام نہیں کیے ابھی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو جہاں اور بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا وہی پر اب منافع خوروں کا سر بھی کچلنا ہو گا ورنہ عوام تو اپنا سب کچھ ٹیکسوں کی مد میں پہلے ہی لٹا چکے ہیں رمضان المبارک کا پہلا عشرہ شروع ہونے میں ابھی ایک عشرہ باقی ہے لیکن لگتا ہے ملک میں منافع خوروں کی چاند رات ابھی سے ہوچکی ہے۔

رمضان کی آمد کی صدا سنائی دیتے ہی منافع خوروں کے کان کھڑے ہوگئے جہاں لوگوں نے عبادات کے لیے تیاریاں پکڑیں وہیں انہوں نے بھی اپنے کاروبار کی معراج پانے کے لیے دریاں بجھادیں۔ اب مقابلہ سخت ہوگیا ہے، عوام چاہیں جتنی ہی گڑگڑاکر دعائیں مانگ لیں، جیت تو منافع خوروں کی ہی ہوگی، جیسے کہ ہر بار ہوتی ہے۔ سبزی، پھل، گھی، تیل، بیسن غرض کہ اشیا خورونوش میں سے کسی پر بھی ہاتھ رکھیں، قیمت سن کر قوت خرید جواب دے جاتی ہے۔

Month of Ramadan

Month of Ramadan

ایک مہینے میں پورے سال کا منافع کمانے والے اپنی صفائیاں دینے کے لیے کچھ نہ کچھ تو ضرور بچا کر رکھتے ہیں۔ ماہ رمضان کی برکتیں سمیٹنے سے پہلے گھر کے خرچوں کو سمیٹنا ہی عوام کیلئے مشکل ہوگیا ہے۔ بجٹ کے جھٹکے سہنے کے بعد اب اس غیر اعلانیہ مہنگائی کے وار سہنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ بھی تو نہیں۔ مہنگائی کی آگ دیگر اشیا کی طرح مرغی کے گوشت کو بھی لگ گئی ہے، ڈیمانڈ اور سپلائی کا مصنوعی بحران پیدا کرکے قیمتیں آسمان پر پہنچادی گئی ہیں۔ ماہ صیام جسے برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ کہا جاتا ہے۔

میں ایک طرف لوگ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے سرگرم عمل ہوتے ہیں وہیں مفاد پرست عناصر رمضان المبارک میں عوام کو مصنوعی مہنگائی کے سمندر میں دھکیل کر دونوں ہاتھوں سے لوٹ لیتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ احوال مرغی کے کاروبار کا ہے، جہان ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا مصنوعی بحران پیدا کر کے مرغی کی قیمتیں دگنی کر دی ہیں طبی ماہرین کے مطابق رمضان میں ہفتہ میں ایک بار مرغی کا استعمال انسانی صحت کے لئے ناگزیر ہے۔

لیکن مرغی کی موجودہ قیمت نے غریب عوام کو ہفتہ میں کیا مہینے میں بھی ایک بار چکن کھانے سے بھی محروم کر دیا ہے۔ اب آخر میں چلتے چلتے اپنے پڑھنے والوں کودو اہم خبریں بھی بتا تا چلوں کہ پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے وفد کے درمیان اسلام آباد میں مذاکرات تقریبا کامیاب ہوچکے ہیں اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کی بیشتر شراط تسلیم کرتے ہوئے انکے تمام تحفظات دور کر دیئے ہیں جس کے باعث فنڈ سے پانچ ارب چالیس کروڑ ڈالر کا نیا قرضہ ملنے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔

اگر آئی ایم ایف سے قرضہ مل جاتا ہے تو دیگر ممالک اور مالیاتی اداروں سے مزید چھ ارب ڈالر بھی مل جائیں گے جس کے ساتھ ہی حکمرانوں کی عیاشیوں کے ساتھ ساتھ ملک میں منگائی کا ایک نیا طوفان بھی آجائے گا دوسری اہم خبر یہ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا ادارہ پاکستان اسٹیل بھی اس وقت ڈوبنے کے قریب ہے جس نے اب گیارہ ارب روپے کا بیل آٹ پیکج نہ ملنے کے باعث وزارت خزانہ کو خط لکھ ڈالا ہے۔

کیونکہ وزارت خزانہ نے پاکستان اسٹیل کو گیارہ ارب روپے کے بیل آٹ پیکج کی یقین دہانی کروائی تھی تاکہ پاکستان اسٹیل کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ اسے مالی خسارے سے بھی نکالا جائے لیکن دو ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود بیل آٹ پیکج نہیں دیا گیا، جس کے باعث اسٹیل مل میں کام کرنے والے ملازمین کو بھی دو ماہ سے تنخواہ نہیں دی جا سکیں۔ اسٹیل مل نے وزارت خزانہ کو خط میں لکھا ہے کہ اگر انہیں بیل آٹ پیکج فراہم نہیں کیا گیا تو اسٹیل مل کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر

03466444144