خوشی دیاں ونگاں

Pakistan

Pakistan

تحریر : ریاض احمد ملک

میں اسلام باد جا رہا تھا جہاں آج کے وزیر اعظم اور اس وقت کے لیڈر ایک حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اس وقت میرے سمیت تمام لوگوں کے جذبے دیدنی تھے وہ اس وقت کی حکومت کو کریپٹسمجھ کر اس سیاسی شخصیت سے اظہار یک جہتی کرنے نکلے تھے اسلام آناد پہنچ کر میں نے جو کچھ محسوس کیا کہ یہ لیڈر اگر پاکستان کے اقتدار تک پہنچ گیا تو انتہائی خطرناک ثابت ہو گا گو میں نے عوام آگائی کے لئے بہت کچھ لکھا اور نوجوان جذبوں سے کیا کچھ نہیں سنا پھر کسی نے مجھے مسلم لیگ ن کا کسی نے جماعت اسلامی اور کسی نے کسی پارٹی کا ترجمان قرار دیا کئی جذباتی جنونی لوگوں نے تو مجھے گالیاں تک دیں گو میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی مگر بے سود نکلیں اور عوام نے اگلے الیکشن میں آنکھیں بند کر کے اس لیڈر کو اقتدار تک پہنچا ہی دیا جونہی مجھے محسوس ہوا کہ صاحب کو اقتدار کی کرسی ملنے جا رہی ہے یقین جانیے میرے رونگٹھے کھڑے ہو گئے اور میں بے بسی کے عالم میں خاموش ہو کر کبھی عوام کو دیکھتا اور کبھی پاکستان کو احتجاج کے دوران ہمارے لیڈر جس انداز میں خطاب فرما تے کہ جب ڈالڑ کی قیمت بڑھے ملک قرضوں کی لپیٹ میں آئے مہنگائی بڑھے تو سمجھو حکمران چور ہے کبھی فرماتے ہم سول نافرمانی کرتے ہیں عوام کے سامنے انہوں نے بجلی کے بلوں کو آگ لگا دی ان کے ایک ساتھی کے مطابق پیٹرول ہمیں 40روپے لیٹر دینا چاہیے اس سے اوپر کے پیسے اس وقت کے وزیر اعظم کی جیب میں جا رہے ہیں ان کی باتیں سن کر عقل مند تو سمجھ سکتا تھا کہ یہ کس قدر بلنڈر چلا رہے ہیں مگر جب عقل پر پردے پڑھ جائیں تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔

جناب اقتدار میں آتے ہی انہوں نے وزیر اعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانے کا گورنر ہائوس کو پتا نہیں کیا کچھ بنانے کے جو دعوے کئے تھے ہوا میں ارا دئیے خیر ہمیں تو اس سے کیا سرو کار کہ وہ وزیر اعظم کو یونیورسٹی میں تبدیل کریں یا ریسٹ ہائوس میں انہوں نے اقتدار مین آتے ہی زمیں پر چلنے سے انکار کیا اور ہیلی کاپٹر کا استعمال شروع کیا اس وقت کے ان کے ایک ساتھی نے بتایا کہ ان کا خرچہ55روپے کلومیٹر ہے تو ٹرانپورٹروں میں کھلبلی مچ گئی کہ وہ جو ٹرانسپورٹ استعمال کر رہے ہیں اس کا خرچہ تو تین گنا سے بھی زیادہ ہے انہوںنے اپنی گاڑیا ںبیچ کر ہیلی سروس چلانے کا سوچنا شروع کر دیا شائد ان کے کسی ساتھی نے اس جھوٹ کے سمندر میں ڈوبی لگا بھی لی ہو مگر شکر ہے کہ ٹرانسپورٹر بچ نکلے انہوں نے گاڑیاں نہ بیچیں بھر حال چند دن قبل میرے ایک دوست نے انتہائی مایوسی کا شکار ہو کر کہا کہ یا دعا کرو کہ اس کی حکومت ختم ہو جائے میں نے کہا کہ فرض کرو کہ اس کی حکومت ختم ہو جاتی ہے تو ووٹ کس کو دو گے اس نے برملا کہا کہ پنڈ کا چودہری جہاں کہے گا تو میں نے اسے کہا کہ پھر حکومت کو ختم کرنے کی دعائیں کیوں مانگتے ہو جب پھر ووٹ اسی کو دینے ہیں تو اس نے مایوس ہو کر کہا کہ ہماری قسمت کہ ہم جب تک کسی کی محتاجی سے باہر نہیں نکلیں گے۔

یہی حکمران ہم پر مسلط رہیں گے مگر ہم کیا کریں ہمارے پنڈ کی عزت کا مسلئہ جو ہوتا ہے میں سوچتا رہا کہ ہم جب تک باغی زہین نہیں رکھیں گے اس وقت تک ہم اپنی مرضی سے کام نہیں کر سکیں گے اب جب ملک میں مہنگائی عروج پر ہے نیا پاکستان عوام کے لئے وبال جان بن چکا ہے کھانے کو روٹی نہیں پیٹرول کی قیمتیں ہوں یا ڈالر کی پرواز عوام دیکھ کر گم سم بیٹھے ہیں کبھی ان کے ساتھی جو خوب مالدار ہیں پیٹرول بڑھے یا ڈالر ان کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑھتا اب تو وہ ملک اداروں پر بھی حرف اٹھا رہے ہیں کہ جب تک ان کا ساتھ ہے کوئی حکومت کو نہیں ہلا سکتا ان کے خیالات پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے اور غریب ہے کہ ووٹ دے کر بھی خوار ہو رہا ہے۔

اب تو ان کے غریب کارکن بھی اپنے آپ کو کوستے نظر آرہے ہوتے ہیں اور یہ نعرہ لگا رہے ہیں آدھی کھائو روٹی اوت دیکھ جیونان یہ ہے نیا پاکستان اور کسی جگہ سے اشیاء خریدو تو وہ مہنگی تو دیتا ہی ہے ساتھ یہ ضرور کہتا ہے کہ جناب تبدیلی آ گئی ہے گاریوں کے کرائے بڑھتے ہیں تو الٹے ٹرانسپورٹر احتجاج کرتے ہیں کہ اگر ان کے خلاف کاروائی کی گئی تو یہ گاڑیاں بند کر دیں گے لحاظہ انتظامیہ بے بس ہو کر انہیں کھلی چھٹی دینے پر مجبور ہو جاتی ہے اس وقت کے خوشحال پاکستان میں یہ عالم ہے کہ بجلی کے بل پر ٹیکسوں کی بھر مار ہونے کے باوجود یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستانی عوام ٹیکس چور ہیں ٹیکس نہیں دیتے۔

اب تو عوام چیخ بھی رہے ہیں اور ساتھ دل کو تسلی بھی دیتے ہیں کہ خوشی دیاں ونگاں نے جو ہم نے شوق سے چڑھائی ہیں اب کسی کو کیا دوش دیں یہ کیہ کر خون کے آنسو پی کر خاموش ہو جاتے ہیں جبکہ وہ لوگ جنہوں نے بیرون ملک نوکریاں کر کے خوب کمایا ہے اور ان کے پاس دولت کے انبار ہیں وہ آج بھی خوش ہیں اور حکومت کے ساتھ ہیں کیونکہ سونا اگر لاکھ روپے تولہ بھی ہو جائے وہ خرید ہی لیں گے مر گیا تو بے چارہ غریب جس کو خوشی دیاں ونگاں زخمی کر کے اذیت سے دوچار کر رہی ہیں حکومت کو اب بھی ہوش کے ناخن لینا ہوں گے ورنہ اگلے الیکشن میں یقین جانیئے میں جو دیکھ رہا ہوں ان کے ڈبوں سے اتنے ووٹ نکل سکتے ہیں کہ وہ گلی گلی دھاندلی کی رٹ لگاتے نظر آئیں گے اور عوام ان پر اسی انداز میں ہنستے نظر آئیں گے جتنے آج حکومتی وزیر اور سرگرم (مجبور) کارکن عوام کی بے بسی پر ہنس رہے ہیں۔

Riaz Malik

Riaz Malik

تحریر : ریاض احمد ملک

malikriaz57@gmail,com
033 48732994