پی ٹی آئی حکومت کی معاشی، سفارتی اور سیاسی محاذوں پر کارکردگی

Imran Khan

Imran Khan

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ساری زندگی جدوجہد میں گزاری لیکن یہ دو سال کا عرصہ ان کی زندگی کا مشکل ترین وقت تھا۔

پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں دو برس مکمل ہونے پر پارٹی اپنی کامیابیوں کے گیت گارہی ہے تو دوسری طرف مخالفین اس پر تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ساری زندگی جدوجہد میں گزاری لیکن یہ دو سال کا عرصہ ان کی زندگی کا مشکل ترین وقت تھا۔ پاکستان کے ایک پرائیویٹ ٹیلی وژن چینل دنیا ٹی وی کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ وہ جب اقتدار میں آئے تو ملک مالی طور پر دیوالیہ ہونے جارہا تھا۔ معیشت تباہ ہو چکی تھی اور سرکاری ادارے قرضوں میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اب ملک کو ایک فلاحی ریاست بنانے جارہے ہیں۔

تاہم ان کے ان دعووں کو حزب اختلاف ہدف تنقید بنارہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف نے پی ٹی آئی کی حکومت کو مکمل ناکام قرار دیا ہے۔ ناقدین کے خیال میں پی ٹی آئی کی حکومت کی طرف سے کامیابی کے سارے دعووں کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن اس کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کی طرف سے پاکستان کے مسائل کا سارا ملبہ عمران خان پر گرانے کے عمل کو بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ڈی ڈبلیو نے حکومت کے سیاسی، معاشی اور سفارتی محاذوں پر کارکردگی کے حوالے سے مختلف ماہرین اور سیاست دانوں سے بات چیت کی اوران کی آراء کا تجزیہ کیا۔

پاکستان کی معیشت ہمیشہ سے ہی بحران کا شکار رہی اور ہر نئی حکومت نے گزشتہ حکومت پر یہ الزام لگایا کہ اس نے معیشت کا جنازہ نکالا۔ یہی کچھ پی ٹی آئی نے بھی کیا۔ لیکن معاشی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ معاشی میدان میں پی ٹی آئی نے کوئی خاص معرکہ سر نہیں کیا۔ پاکستان کے معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والے معروف تجزیہ نگار ضیا الدین کا کہنا ہے کہ یہ بات صیح ہے کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں تجارتی خسارہ، جو بارہ ارب ڈالرز کا تھا، وہ کم ہوا ہے: ”لیکن ان عوامل کو پیش نظر رکھنا چاہیے جس کی وجہ سے یہ خسارہ تھا۔ نواز شریف کے دور میں سی پیک پر کام ہو رہا تھا اس لیے آپ کی درآمد بڑھ گئی تھی لیکن جب توانائی اور دوسرے سی پیک کے منصوبوں پر کام ختم ہوا تو درآمد میں کمی ہوگئی۔ اس کے علاوہ گزشتہ دو برسوں میں توازن ادائیگی بہت خراب ہوئی ہے۔ حکومت نے ایسے خام مال کی امپورٹ بھی کم کردی ہے جو بڑے صنعتی سیکٹر جیسا کہ ٹیکسٹائل کے لیے ضروری ہے۔ جس سے پیداوار کم ہو رہی ہے اور صنعت 11 فیصد سکڑی ہے۔ اس کہ وجہ سے مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ملک کو آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد کرائے گی اور یہ انہوں نے اپنے منشور میں بھی لکھا تھا: ”لیکن مشیر خزانہ سے لے کر اسٹیٹ بینک کے گورنر تک سب آئی ایم ایف کے لوگ ہیں اور ملک ان کے چنگل میں ہے۔ پاکستان کی 20 سالہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہم جب بھی اس ادارے کے پاس گئے ہماری معیشت کے لیے مشکلات پیدا ہوئیں۔ چین، سعودی عرب، بیرونی قرضے اور بانڈز وغیرہ کی وجہ سے آپ کا توازن ادائیگی بہت خراب ہے، جس سے معیشت پر شدید منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔‘‘

پی ٹی آئی کے حامیوں کا خیال ہے کہ حکومت کو سفارتی محاذ پر زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور پہلی بار کشمیر کا مسئلہ بین الاقوامی فورمز تک حقیقی معنوں میں پہنچا اور امریکی صدر ٹرمپ نےبھی اس مسئلے کا تذکرہ کیا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ سفارتی محاذ پر حکومت کو جو کامیابی ملی وہ پاکستان کو 70 برس میں بھی نہیں ملی: ”ہمارے ماضی کے رہنماؤں کی کوئی بین الاقوامی ساکھ نہیں تھی۔ یہاں تک کہ انہیں صحیح معنوں میں تقریر بھی نہیں کرنا آتی تھی۔ ہم انہیں رٹا لگواتے تھے اور وہ پھر بھی بھول جاتے تھے لیکن عمران خان کی اقوام متحدہ میں کی جانے والی تقریر نے پوری دنیا میں کشمیرکے مسئلے کو ایک نئی شکل دی۔ جس طرح انہوں نے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا تذکرہ کیا اور مودی کا فاشسٹ ایجنڈا دنیا کے سامنے رکھا، اس کا بین الاقوامی برادری پر بہت بڑا اثر ہوا۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں یہ مسئلہ دو بار آیا اور بین الاقوامی ادارے کے انسانی حقوق کے فورم میں بھی یہ زیر بحث آیا۔ تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘

سیاسی محاذ پر کارکردگی کے بارے میں پی ٹی آئی کے حامیوں کا یہ کہنا ہے کہ عمران خان لٹیروں کو قانون کی گرفت میں لائے اور زدرای اور نواز شریف جیسے طاقتور خاندانوں کو یہ بتایا کہ قانون طاقت ورکے تحفظ کے لیے نہیں ہے۔ تاہم ناقدین کے خیال میں پی ٹی آئی نے انتقامی سیاست کو فروغ دیا۔ میڈیا کا گلہ گھونٹا اور سیاسی ماحول کو خراب کیا۔ پی پی پی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی پالیسی نے وفاق کو کمزور کیا: ”پی ٹی آئی والے سیاست دان نہیں بلکہ یہ مفاد پرستوں کو ٹولہ ہے، جس کو عوام نے نہیں منتخب کیا بلکہ اسے اسٹیبلشمنٹ لے کر آئی ہے اور اب یہ ان ہی کے کہنے پر مرکزیت کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ یہ اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں، جس سے وفاق کمزور ہوگا۔‘‘

تاہم عمران خان کی حکومت اور ان کے حامی حزب اختلاف اور ناقدین کی اس تنقید کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے جاں فشانی سے کام کیا۔ پی ٹی آئی رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان کا کہنا ہے کہ عمران خان کو حکومت کی شکل میں ایک ایسی گاڑی ملی تھی، جس کے نہ پہیے تھے اور نہ ہی انجن: ”لیکن عمران خان نے اس گاڑی کو صحیح کرنے کے لیے دن رات کام کیا۔ جب ہم اقتدار میں آئے تو نون لیگ اورگزشتہ حکومتوں کے قرضوں کی وجہ سے تمام سرکاری ادارے جیسے موٹروے وغیرہ گروی رکھے جا چکے تھے اور ان کی نیلامی ہونے جارہی تھی۔ ہم نے ان کو بچایا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار قرضے اتارنے کی کوشش کی اور ملک کے پسماندہ علاقوں میں ترقیاتی کام کرائے۔ کورونا جیسی خطرناک وبا کا حکمت سے مقابلہ کیا اور بارہ لاکھ سے زائد خاندانوں کی مالی مدد کی۔‘‘

انہوں نے حزب اختلاف کے اس دعوے کو رد کیا کہ پی ٹی آئی کی حکومت سیاسی انتقام لے رہی ہے: ”نیب اور عدالتیں آزاد ہیں۔ اگر وہ زرداری اور نواز شریف کی فیملی کو بلا رہے ہیں تو پی ٹی آئی کے علیم خان کو بھی جیل جانا پڑا اور انہوں نے بھی نیب کا سامنا کیا۔ تو یہ دعویٰ صرف حزب اختلاف اس لیے کر رہی ہے تاکہ وہ اپنے کرپشن کو چھپا سکے۔‘‘