پی ٹی آئی کارکنان کو مدینہ نظر آتا ہے

PTI

PTI

تحریر : روشن خٹک

آج میں اپنا کالم ایک کہانی سے شروع کرنا چاہتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ اپنے ایک عقلمند وزیر کے ساتھ روزانہ سیر کے لئے اپنے محل سے باہر جایا کرتا تھا۔ راستے میں ہر روز انہیں ایک کسان نظر آتا جو اپنے گدھے کو فروخت کرنے کے لئے راستے کے کنارے ایک درخت سے باندھا ہوایہ آواز لگاتا ہوا نظر آتا تھاکہ ”گدھے کی قیمت صرف سو روپے، سو روپے۔” ایک دن جب بادشاہ سلامت کا وہاں سے گزر ہورہا تھا ،تو کسان خلافِ معمول سو روپے کی بجائے پانچ سو روپے، پانچ سو روپے کی آواز دے رہا تھا۔ بادشاہ سلامت گدھے کی قیمت میں یکدم پانچ گنا اضافہ سن کر حیران ہوا ، اور کسان سے پوچھا ،،گدھے کی قیمت میں اتنا زیادہ اضافہ کیوں ؟ کسان نے دست بستہ ہو کر جواب دیا” حضور ! یہ گدھا بہت خوبیوں کی مالک ہے۔

اس میں ایک بڑے کمال کی بات یہ ہے کہ جو کوئی اس پر سوار ہو جائے تو اس کو مدینہ منورہ براہِ راست نظر آتا ہے سرورِ دو عالم ۖ کا گنبد خضریٰ صاف نظر آتا ہے مگر حضور اس کے لئے ضروری ہے کہ اس گدھے پر سوار ہونے والا شخص سچا اور ایماندار ہو۔” بادشاہ یہ سن کر ششدر رہ جاتاہے اور کسان کی بات کو پرکھنے کے لئے اپنے وزیر کو حکم دیتا ہے کہ ” چل گدھے پر سوار ہو جا ” وزیر حکم کی تعمیل کرتے ہوئے گدھے پر سوار ہو جاتا ہے ، اسے مدینہ تو نظر نہیں آتا مگر اسے یہ خیال آتا ہے کہ اگر میں ،سچ بولوں گا کہ مجھے مدینہ نظر نہیں آتا تو بادشاہ سلامت اور کسان دونوں یہی سمجھیں گے کہ میں (وزیر) سچا اور ایماندار نہیں ہے، با ایں وجہ وہ سوار ہوتے ہی کہتا ہے ” واہ واہ، ما شا للہ ! مدینہ کا روح پرور نظارہ کتنا صاف نظر آرہا ہے، گنبد خضریٰ تو ایسے نظر ارہا ہے جیسے یہ میرے بالکل قریب واقع ہو ” یہ سن کر بادشاہ سلامت کو بھی جلدی سوار ہونے کا شوق در آتا ہے ،وزیر سے کہتا ہے، جلدی اترو تاکہ میں بھی مدینہ منورہ کی دیدار کر لوں۔ وزیر اترتے ہی بادشہ سلامت گدھے پر سوار ہوکر مدینہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے اسے مدینہ تو نظر نہیں آتا مگر وہ بھی یہی سوچتا ہے کہ اگر میں کہوں کہ مجھے تو مدینہ نظر نہیں آتا تو میرا وزیر اور یہ کسان مجھے بے ایمان اور جھوٹا سمجھیں گے۔

سو وہ بھی کہتا ہے کہ ” سبحان اللہ، مدینہ منورہ کا نظارہ کتنا صاف نظرآرہا ہے، واہ گنبدِ خضریٰ ! قربان جاوں تجھ پہ ، کیا شان ہے آپ کی ” قارئینِ کرام ! آج کل پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنوں کی بھی کچھ یہی حالت ہے۔ انہیں عمران خان سے جو امیدیں تھیں ،وہ دم توڑ رہی ہیں، سال ہو نے کو ہے مگر عمران خان نے اب تک کوئی ایک کام بھی عوام کے لئے آسانی پیدا کرنے کے لئے نہیں کیا بلکہ مزید مشکلات میں عوام کو مبتلا کر دیا ہے۔ ڈالر کی اڑان، پٹرول،گیس ،سی این جی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ، ٹیکسوں کی بھر مار ، بے روزگاری کا پھیلائو الغرض ہر طرف بے چینی ہی بے چینی ہے ، جس کا شکار خود پی ٹی آئی کے کارکنان بھی ہیں۔الیکشن سے پہلے وہ جو باتیں عمران خان سے سنا کرتے تھے،جو باتیں ان کے دل و دماغ کو گر ماتے تھے اور انہیں اپنا مستقبل بہت تابناک نظر آتا تھا، نوکریاں ،گھر ،دوسروں سے مانگنا وغیرہ ایسی ایسی باتیں وہ عمران خان کے منہ سے سنتے تھے کہ وہ ان کے مرید بن گئے،اور جذباتی طورپر عمران خان سے جڑ گئے،وہ ان کو مسیحا نظر آنے لگے۔

اب جب وہ اپنے قائد کو ہر کام میں یو ٹرن کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اپنے من میں،اپنے دلوں میں کڑھتے رہتے ہیں ۔ مگر اب وہ کہانی میں مذ کور بادشاہ اور وزیر کی طرح شرم کے مارے یہ کہہ نہیں سکتے کہ عمران خان کی کار کردگی نظر نہیں آتی ۔ بلکہ وہ اصل بات کو چھپاتے ہوئے ،آیئں بائیں شائیں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمران خان تو عمران خان ہے ،صبر کرو، دو سال کے بعد پاکستان میں تبدیلی آہی جائیگی ” البتہ بعض کارکن ایسے بھی ہیں جو کھلم کھلا اپنی مایوسی اور انہیں درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہیں۔

مگر ان سے گزارش ہے کہ مایوس نہ ہوں،مایوسی بہت بڑا گناہ ہے۔احمقوں کی جنت میں رہنے والے پچھلے کئی دہایئوں سے پاکستان کی تحلیل ہونے کی بین بجا رہے ہیں اور تا قیامت بجاتے رہیں گے ،ہمیں اقتصادی مشکلات ضرور ہیں،ہمارے پڑوس میں بد ترین لوگ بیٹھے ہیں،بین الاقومی مخالفت کا بھی سامنا ہے،گھر میں رج کے چوریاں بھی ہو تی رہی ہیں مگر ہم نے دہشت گردی کے سانپ کا سر بھی کچلا ہے،ہماری فوج دنیا کی بہترین فوج ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہما را ذولجلال ہمارے ساتھ ہے ،جس کے نام پر یہ ملک تخلیق ہوا ہے۔ لہذا کسی کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں البتہ پی ٹی آئی کے کارکنوں سے یہ گزارش ضرور ہے کہ اگر ان کو مدینہ نظر نہیں آتا تو وہ کھل کر
سچ بول کر اس کا اظہار کریں اور تعمیری تنقید کرنے والوں پر نشتر زنی نہ کریں ،اپنی نا اہلی، کمزوری اور کوتاہیئوں کے جواز نہ ڈھونڈیں بلکہ دوسروں کی بھی سن کر اصلاح کی کو شش کریں اور اپنی ذات میں اعلیٰ ظرفی اور اپنی سوچ میں وسعت پیدا کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کی کوشش کریں۔

Roshan khattak

Roshan khattak

تحریر : روشن خٹک