پلوامہ حملہ: بھارتی فوجیوں کی آخری رسومات، بدلے کے مطالبات

Funeral of Indian Soldiers

Funeral of Indian Soldiers

نئی دہلی (جیوڈیسک) بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں ہوئے خود کش بم حملے میں مارے گئے اکتالیس بھارتی فوجیوں میں سے متعدد کی آخری رسومات ہفتہ سولہ فروری کو ادا کر دی گئیں جبکہ اس حملے کا بدلہ لینے کے مطالبات بھی کیے جا رہے ہیں۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق آج سولہ فروری کو جب پلوامہ میں دہشت گردی کے اس بہت خونریز واقعے میں ہلاک ہونے والے درجنوں بھارتی فوجیوں میں سے متعدد کی آخری رسومات ادا کی گئیں، تو کشمیر کے ایک حصے میں چوبیس گھنٹے کا کرفیو ابھی تک نافذ تھا۔

بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔

ان ہلاک شدگان کی آخری رسومات میں ہزارہا سوگواران نے شرکت کی، اور وہ مطالبے کر رہے تھے کہ بھارت کو اس ہلاکت خیز دہشت گردی کا بدلہ لینا چاہیے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں یہ خود کش حملہ جمعرات چودہ فروری کو اس وقت کیا گیا تھا، جب ہمالیہ کے اس علاقے میں تقریباﹰ ڈھائی ہزار بھارتی فوجیوں کا ایک قافلہ وہاں سے گزر رہا تھا۔

اس حملے میں حملہ آور نے اپنی دھماکا خیز مواد سے لدی ہوئی وین کو اس فوجی قافلے میں شامل گاڑیوں سے ٹکرا دیا تھا اور یہ حملہ اتنا بڑا تھا کہ یہ کشمیر کے مسلح تنازعے میں گزشتہ تین عشروں کے دوران آج تک کا سب سے ہلاکت خیز حملہ ثابت ہوا تھا۔

اس حملے میں مارے جانے والے بھارتی فوجیوں کی آخری رسومات کی ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والی تقریبات کو بھارتی نشریاتی اداروں نے براہ راست دکھایا۔

اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں جمعے کو رات گئے کشمیر سے نئی دہلی پہنچائی گئی تھیں، جہاں وزیر اعظم نریندر مودی نے ان فوجیوں کی لاشوں والے تابوتوں کے سامنے پھولوں کی چادریں بھی رکھی تھیں۔

آج ہفتے کے روز ملک کے مشرق میں گیا سے لے کر شمال میں اُنّاؤ تک کے قصبوں میں ان فوجیوں کے آبائی علاقوں میں جب آخری رسومات کے لیے ان کی لاشیں پہنچائی گئیں، تو ان کے تابوتوں میں سے ہر ایک بھارت کے قومی پرچم میں لپٹا ہوا تھا۔ اس موقع پر ہزاروں کی تعداد میں ہلاک شدگان کے لواحقین اور عام شہری بھی موجود تھے، جو یہ مطالبے کر رہے تھے کہ نئی دہلی کو اس حملے کا بدلہ لینا چاہیے۔

وزیر اعظم، سینیئر سیاسی قائدین اور اپوزیشن کے اراکین اجلاس میں شریک ہوئے۔ پاکستان کے سکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے اجلاس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور لائن آف کنٹرول کی صورت حال پر سیاست دانوں کو بریفنگ دی۔ اجلاس میں شریک سیاسی قائدین نے مسئلہ کشمیر پر حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس حملے کے بعد بھارت کی طرف سے پاکستان پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ اس دہشت گردی کے ذمے دار عسکریت پسندوں کو اپنے ہاں پناہ دیے ہوئے ہے۔ نئی دہلی حکومت کے اس موقف کے بعد بھارت میں قومی سطح پر اس قدر غصہ پایا جاتا ہے کہ عوامی حلقوں میں سے بہت سے یہ مطالبے بھی کرنے لگے ہیں کہ نئی دہلی کو ان ہلاکتوں کا بدلہ لینے کے لیے ہمسایہ ملک اورحریف ایٹمی طاقت پاکستان کے خلاف جنگ شروع کر دینا چاہیے۔

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ضلع پلوامہ میں جس بھارتی فوجی قافلے کو اس حملے کا نشانہ بنایا گیا، اس میں مجموعی طور پر 78 بسیں شامل تھیں۔ ان بسوں میں بھارت کی سینٹرل ریزرو پولیس فورس یا سی آر پی ایف کے فوجی سوار تھے۔ یہ حملہ ایک مقامی نوجوان کشمیری عسکریت پسند نے کیا تھا، جس کا نام عادل احمد عرف وقاص کمانڈو تھا۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر سے کچھ ہی باہر پلوامہ کے ضلع میں ایک ہائی وے پر عادل احمد نے اپنی بارود سے لدی ہوئی وین جب اس فوجی قافلے سے ٹکرائی، تو بھارتی دستوں کی دو بسیں براہ راست اس دھماکے کی زد میں آ گئی تھیں، جن میں بیسیوں فوجی سوار تھے۔

اس حملے کی ذمے داری عسکریت پسند مسلمانوں کی تنظیم جیش محمد قبول کر چکی ہے۔ اسی عسکری تنظیم نے یہ بھی کہا تھا کہ حملہ آور ایک مقامی عسکریت پسند عادل احمد تھا، جو وقاص کمانڈو بھی کہلاتا تھا۔ بھارت کا الزام ہے کہ جیش محمد نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اپنے ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں اور اس گروپ کے عسکریت پسندوں کو مبینہ طور پر پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کل جمعے کے روز یہ بھی کہا تھا کہ اس حملے میں ملوث عناصر نے ’بہت بڑی غلطی‘ کی ہے اور انہیں اپنے اس اقدام کی ’بہت بڑی قیمت‘ چکانا پڑے گی۔ اس حملے کے بعد بھارت یہ بھی کہہ چکا ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو الگ تھلگ کر دینے کے لیے اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھے گا۔

ساتھ ہی نئی دہلی حکومت نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اس کے پاس اس امر کے ’ناقابل تردید شواہد‘ موجود ہیں کہ اس حملے میں مبینہ طور پر اسلام آباد کا ہاتھ ہے۔ دوسری طرف پاکستان اس سلسلے میں اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کی تردید کرتا ہے۔