راج کٹاس کے مندر اور پوٹھوہاری

RAAJ KATAS K MANDIR

RAAJ KATAS K MANDIR

تحریر: عقیل احمد خان لودھی (وزیرآباد)
حکومت پنجاب نے پوٹھوہار کے علاقے میں 9 ڈیموں کی تعمیر کے لئے 9 ارب 74 کروڑ روپے، بارانی علاقوں کو خشک سالی کے اثرات سے بچانے کے لئے 25 کروڑ روپے اور محکمہ زراعت کے مختلف شعبہ جات کے 15 ترقیاتی منصوبوں پر 5 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی ہے۔ ان منصوبوں میں 6 جاری ترقیاتی منصوبے اور 9 نئے منصوبے شامل ہیں۔

بہت اچھی خبر ہے اوراس خبر میں مجھے اس لئے بھی دلچسپی پیدا ہوئی کہ ابھی گزشتہ روز ہی راقم سمیت وزیرآباد کا ایک صحافتی وفد سنیئر صحافی محمود احمد خان کی قیادت میں خطہ پوٹھوہار کے دورہ پر گیا اور ڈی سی او چکوال آصف بلال لودھی سے ملنے کے بعد ضلع چکوال کے ایک تاریخی مقام کٹاس راج مندر کادورہ کیا ۔ دوران سفروفد میں شامل تمام افراد علاقہ کی خوبصورتی اور سادگی پر بحث کرتے رہے۔ ڈی سی او چکوال آصف بلال لودھی نے ہمیں تاریخ بارے بتایا کہ کٹاس راج کا مندر60 صدیوں پرانا ہے۔ جبکہ کٹاس راج کے پہاڑ چھ سو ملین برس پرانے ہیں جہاں پر ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم سے قبل ہندوستانی عوام ان مقدس مقامات پر پوجا کیا کرتے تھے اب جبکہ ہندوستان اور پاکستان علیحدہ علیحدہ ممالک بن چکے ہیں لہذا ہر سال یہاں پر ہندوستان سے مختلف وفود آتے ہیں اور مذہبی ر سومات ادا کرنے کے بعد واپس لوٹ جاتے ہیں۔یہ تاریخی مقام ضلع چکوال کی تحصیل چوآسیدن شاہ میںہے چوآسیدن سے کچھ فاصلہ پر جب ہم نے اس علاقہ کا رخ کیا تو تحصیل انتظامیہ کے اہلکار محمد یونس اور آثار قدیمہ کے اہلکارعادل شہزاد نے ہمیں ریسیو کیا سامنے راج کٹاس کے بورڈ ز دیکھ کر اور دوسری طرف صدیوں پرانی تاریخی اور ہندو مذہب کی مقدس عمارتیں دیکھ کر ذہن ایک بار تاریخ کے اس انسان کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ جب موجودہ زمانہ کی آسائشوں کا کہیں کوئی تصور نہیں تھا، جدید مشینری اور بجلی جیسی توانائی کا کوئی وجود نہیں تھا بڑے بڑے انجنوں والی تیز رفتار گاڑیاں اور نقل وحمل کے لئے آج کی طرح کی سڑکیں بھی موجود نہ تھیں جس دور میں جانوروں خچروں، گھوڑوں، اونٹوں وغیرہ سے باربرداری کا کام لیا جاتا تھا اور وہ سست رفتاری کا زمانہ تھا اس عہد میں بھی ایسی شاندار طریقہ سے عمارتوں کی تعمیر کرنے والا انسان عقل ودانش میں آج کے انسان سے کسی صورت کم نہیں تھا اس زمانہ میں آج کی طرح کے کوئی ٹیکنیکل ادارے تونہیں ہوں گے مگرخوبصورت شاہکار عمارتوں کی تعمیرات پھر کیسے؟ کئی طرح کے خیالات جنم لیتے رہے عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے خیال آیا کہ اس دور میں خلوص نیت شرط اول لازم ہوگی ، کسی بھی کام کے ماہر تجربہ کار انسان کا عقل و تجربہ دوسرے افراد یا ان کے شاگردوں کیلئے ایک رفاعی ادارہ کی حیثیت رکھتا ہوگا اسی وجہ سے اس دور کامستری آج کے انجینئرز سے زیادہ قابل اور تجربہ کا ردکھائی دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانہ کی یہ عمارتیں طرز تعمیر کا ایک شاہکارہیں اور آج بھی قائم ودوائم ہیں۔ان مندروں کی حفاظت سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ پاکستانی لوگ دوسرے مذاہب اور ان کی مقدس عمارتوں کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

 Raaj Kataas

Raaj Kataas

ہمیں اس مندر کے بارے ڈی سی او صاحب،مقامی لوگوں اور سرکاری اہلکاروں سے جو معلومات حاصل ہوئیں ان کے مطابق البیرونی نے اسی جگہ پر کھڑے ہو کر کرہ ارض کا قطر ماپا تھا،کٹاس مندر(ہندو عقیدہ کیمطابق مختلف دیوتائوں میں سے) دیوتا شیو جی سے منسوب ہے ۔کٹاس مندر کی قدامت کا اندازہ اس سے لگایا جائے کہ یہ کوروؤں اور پانڈوؤں یعنی مہا بھارت کے عہد میں بھی موجود تھا۔ بعد کے زمانوں میں بڑے مندر کے اردگرد چھوٹے مندر بھی بنائے گئے ہیں تاہم یہ بھی 900 سال اور اس سے بھی زیادہ پرانے ہیں۔یہاں ایک تالاب ہے جو قدرتی چشمہ کے نتیجہ میں وجود میں آیا ہے ہندو اور دیگر غیر مسلم عقائد کے لوگوں کے لیے یہ ایک مقدس مقام ہے ، ہندو عقیدے کے مطابق بعض مخصوص تہواروں پر اس کے تالاب میں غسل کرنے سے گناہ دھل جاتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ اتنے خوبصورت مقام کو عالمی ورثہ میں شامل کیوں نہیں کیا گیا۔اس مندر سے بہت سی دیو مالائیں وابستہ ہیں۔ مثال کے طور پر پانڈَوَ بھائیوں نے اپنی جلا وطنی کے 14 برسوں میں سے چار برس یہاں گزارے تھے ۔ کہاجاتا ہے کہ یہاں یڈھشٹر کے بھائیوں کو ایک یکش نے مار ڈالا تھا لیکن اس نے اپنی دانش کے بل پر اس نے یکش(عفریت) کو شکست دے کر اپنے بھائی زندہ کر لیے تھے۔ ایک اور کہانی یہ ہے کہ جب شیوجی مہاراج کی پتنی ستی (پاروتی دیوی) کو موت نے آ لیا تو وہ اتنا روئے کہ اس سے دو تالاب بن گئے ، ایک اجمیر(بھارت) میں اور دوسرا کٹاکشا میں، جو اب کٹاس کہلاتا ہے۔ کٹاکشا کے معنی ہیں برستی آنکھیں۔ ایک اور روایت کے مطابق دوسرا تالاب اجمیر نہیں، نینی تال میں بنا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شیوجی کی پتنی نہیں بل کہ ان کا گھوڑا مرا تھا جس پر وہ بے طرح روئے۔

غرض یہ کہ یہاںقبل مسیح کی ثقافت ، طرز تعمیر، طرز فکر،طرز عقائد اور طرز تعمیر دیکھی جا سکتی ہے ۔ہم نے دیکھا کہ ڈی سی او آصف بلال جہاں ضلع بھر کے انتظامی امور احسن طریقہ سے سرانجام دے رہے ہیں وہاں تاریخی ورثہ کی حفاظت میں بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں، ہندوؤں کے مقدس مقامات کی حفاظت اور ثقافتی ورثوں کی از سر نو تعمیر و مرمت کے اقدامات قابل لائق تحسین ہیں۔پاکستانی تاریخ میں مختلف وقتوں کی اونچ نیچ اور مذہبی اختلافاقت کے باوجود پاکستانی عوام کی طرف سے ان مقدس مقامات کی حفاظت سے ہندوستان کی عوام کے لئے محبت اور امن کا پیغام جاتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام اور مسلمانوں کیلئے دوسرے مذاہب اور ان کے مقدس مقامات قابل احترام ہیںجبکہ ہندوستان کی طرف سے کم ہی اچھی خبریں آتی ہیں بابری مسجد کا واقعہ دنیا کے سامنے ہے۔

Sharif Bukhari , Nawaz Mughal, Mohammad Younis

Sharif Bukhari , Nawaz Mughal, Mohammad Younis

وفد میں پرنٹ اینڈ میڈیا ورکنگ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے عہدیداران سید شہباز بخاری، محمد نواز مغل، محمد یونس، احمد فراز لودھی ایڈووکیٹ شامل تھے جنہوں نے ڈی سی او چکوال ، اے سی چوآسیدن شاہ کے تاریخی ورثہ کی حفاظت کے حوالہ سے اقدامات کی تعریف کی۔ما ہرین آثاریات کی ایک کثیر تعداد اس بات پر متفق ہے کہ پاکستانی پنجاب میں پوٹھوہار کاعلاقہ ہی انسان کی پہلی جنم بھومی اور پہلا گھر ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں پورے ایشیا میں پنجاب ہی وہ خطہ ہے جہاں سوا 6 کروڑ سال پر محیط زندگی کے پتھرائے ہوئے آثار پائے گئے ہیںجو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہاں زندگی کروڑوں سال تک متواتر ارتقا پذیر رہی۔ چکوال ایک تاریخی علاقہ ہے اور پاکستان کے قیام سے قبل یہاں پر ہندو’سکھ اور عیسائی قومیں آباد تھیں جن میں اکثریت ہندوئوں اور سکھوں کی تھی۔1947میں پاکستان کے قیام کے بعد یہ قومیں بھارت کو ہجرت کرگئیں جبکہ بھارت سے آنے والے مسلمان یہاں پر آباد ہوئے ۔1947ء سے قبل انگریزوں کے دور حکومت میں چکوال ضلع جہلم کی تحصیل ہوتی تھی۔ 1985 میں اس کو ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔یہاںایک چیز سے ہمیں اس خطہ کی خوبصورتی کو خطرات نظر آئے وہ کوئلے کی کانوں اور پہاڑوں کی کٹائی کا عمل تھاکہ کہیں آہستہ آہستہ یہ کٹائو کا عمل ہمارے علاقوں کی خوبصورتی کو ختم نہ کردے کیونکہ ایسی تبدیلیاں ہیں خطہ ارضی کے حسن کیساتھ ساتھ امن، محبت اور سکھ چین کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔

ضلع چکوال او ر قریبی علاقوں کی ایک اور خاصیت جو ہمیں وسطی پنجاب کے علاقوں سے ابھی اچھی خاصی منفرد محسوس ہوئی وہ یہاںطرز ثقافت کی سادگی تھی، زیادہ تر مکان ابھی بھی کچے مکانوں کی طر ز پر سادے اور زیادہ تر یک منزلہ تھے جبکہ گوجرانوالہ، گجرات، لاہور اور دیگر علاقوں میں یہ سب ختم ہوتا جارہا ہے۔

DCO CHAKWAL, ASIF BILAL LODHI, WITH SENIOR JOURNALIST MAHMOOD AHMAD KHAN

DCO CHAKWAL, ASIF BILAL LODHI, WITH SENIOR JOURNALIST MAHMOOD AHMAD KHAN

ثقافت، سادگی، خلوص اور اپنائیت یقیناََ کثیر منزلہ عمارتوں میں دب کررہ گئے ہیں یہاں بس افراتفری، ہنگامے اور شور سا برپا دکھائی دیتا ہے زندگی چل سو چل نظر آتی ہے اور اسی وجہ سے اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں جیسے قیامت کیلئے جلدی مچی ہوئی ہے۔

بڑی بات یہ ہے کہ پوٹھوہاری علاقہ کے لوگ بھی خوش طبیعت کے مالک اور ایک دوسرے کیساتھ تعاون کرنے والے ہیں وہاں کے لوگوں کے رہن سہن اور قدیم ترین عمارتوں کے بہترین حالت میں وجودکی برقراری سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پرامن اور خوش اخلاق لوگوں کا پرسکون علاقہ ہے ۔ان علاقوں کی شان دیکھ کر قرآن پاک کی وہ آیات یاد آتی ہیں جن میں اﷲ فرماتا ہے:اور وہی اللہ ہے جس نے زمین کو پھیلا یا اور اس میں پہاڑ بنا ئے اور جا ری کر دیئے دریا اور زمین میں ہر قسم کے پھلوں کو نر اور ما دہ پودے بنا ئے۔

رات دِن کو چُھپا لیتی ہے۔ بے شک ان میں غور و فکر کر نے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ اور زمین کے مختلف ٹکڑے ہیں، جو قریب قریب ہیں اور انگوروں کے باغ اور کھیتی اور کچھ کھجور کے درخت ہیں جڑے ہو ئے تنوں والے اور کچھ الگ الگ۔ سب کو ایک ہی پا نی سے سیراب کیا جا تا ہے لیکن فضیلت دیتے ہیں ہم بعض کو بعض پر کھا نے کے اعتبار سے یعنی لذت کے طور پر۔ بے شک اس میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔(الرعد٣،٤)۔خطہ ارضی پر مختلف خوبصورت مناظرسورج، چاند، ستاروں، چرند پرند کی تخلیقات، رنگ برنگی مچھلیوں، حشرات، خوب سے خوب ترجانوروں کو دیکھ کر ایک لمحہ غور کرنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ ان کو تخلیق کرنے والا کوئی عام نہیں ہو سکتا، نظام کائنات کوتواتر سے چلا کر کروڑوں سالوں سے حیات کے وجود کو برقرار رکھناکسی بشر کے ہاتھ میں نہیں ہوسکتا کہ جو خود فانی ہو وہ بقاء کو کیسے قائم رکھ سکتا ہے۔ یہ اسی اﷲ کی تخلیقات ہیں جو حقیقی بادشا ہ ہے جس کے سوا زمین وآسمان میں کسی کا حکم نہیں چل سکتا جو کن فیکون پر قادر ہے۔اﷲ تعالیٰ میرے وطن کو ہمیشہ سلامت رکھے اس ملک میں بسنے اور اس کے چاہنے والوں کی خیر کرے آمین۔

Aqeel Ahmed Khan

Aqeel Ahmed Khan

تحریر: عقیل احمد خان لودھی(وزیرآباد)
0334-4499404