پیاسا تھر اور موت کا راج

Tharparkar

Tharparkar

تحریر : ایم ایم علی
ایک طرف حکومتی گوداموں میں پڑی گندم گل سڑ رہی ہے تو دوسری طرف تھر پارکر کے صحرا میں بچے بھوک و پیاس سے بلک رہے ہیں، تھر پار کر پچھلے سال کی طرح اس سال بھی بدترین قحط سالی کی لپیٹ میں ہے، اور پچھلے44 دنوں میں 60 سے زائد بچے جاں بحق ہو چکے ہیں اگر ہم تھر پار کر کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کے تھر پارکر کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ تھر پارکر سندھ کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ تھر اور پارکر دو لفظ تھے جو بعد میں ایک ہی لفظ تھر پارکر بن گیا،تھر صحرا کا بیشتر حصہ راجپوت سوڈا کے قبضہ میں تھا اور مشرقی حصہ گدڑا کے قبضے میں تھا ،عمر کوٹ کا کچھ حصہ خیر پور اور ضلع سانگھڑ خاروس کے نام سے جانے جاتے تھے اور وہاں راٹھور اورسومروز کی حکمرانی تھی یہ دونوں قبیلے بھی رجپوتوںکی شاخیں تھیں ،کہا جاتا ہے کہ جب سلطان محمود غزنوی نے سومنات پر حملہ کیا تو کئی بار اس علاقے سے ہو کر گذرا ، 1053میں سومروز نے غزنوی سے اپنا اتحاد ختم کر لیا اور سلطنت کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے دریائے سندھ کے مشرقی علاقوں میں اپنی حکومت قائم کر لی۔

یہ دہلی سلطنت کی حکمرانی کے خلاف ایک کھلی بغاوت تھی۔بعد میں سلطان غیاث الدین تغلق اور اس کے بیٹے محمد بن تغلق نے سومروز کو اس بغاوت کی سزا بھی دی۔ 13-14 ویں صدی میں ایک اور رجپوت قبیلے سما نے اسلام قبول کیا اور 1353 میں اس قبیلے نے ٹھٹھہ اور دیگر علاقوں میں اپنی حکمرانی قائم کرلی بلاخر شاہ بیگ کے ہاتھوں شکست نے اس قبیلے کی حکمرانی کا خاتمہ کردیا۔اس کے بعد 1558 میں کلہوڑ خاندان کی اہمیت میں اضافہ ہوا جو ایک بلوچ قبیلہ تھا اور اس خطے پر اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے کیلئے کلہوڑ اور تالپوروں میں کشمکش شروع ہو گئی میر فتح علی پہلا تالپور تھا جس نے1783 میں افغان بادشاہ کی حمایت سے سندھ پر اپنی حکمرانی قائم کی بعد میں 1843میں ایک انگریز سر چارلس نے سندھ کو فتح کر لیا اور سندھ کو صوبوں میں تقسیم کر دیا۔

اس نے وہاں ایک وڈیرے کو تعنیات کر دیا اور اس کو بر طانوی حکومت کیلئے ٹیکس ا کٹھا کرنے کی ذمہ داری سونپی1860میں اس خطے کو مشرقی سندھ سرحد کا نا م دیا گیا اور اس کا انتظامی سربراہ ڈپٹی کمشنر کو مقرر کر دیا گیا ،1906میں پہلے تو میر پور خاص کو اس کا ہیڈ کواٹر بنایا گیا اور بعد میں 31 اکتوبر 1990 میں میر پور خاص اور تھر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ۔اور آخر کار 1993میں ایک نو ٹیفکیشن کے ذریعے اس علاقے کو تھر پارکر کا نام دیا گیا ۔تھر پارکر کا بیشتر حصہ صحرا پر مشتمل ہے ،یہاں پر تقریبا ساٹھ فیصد آبادی مسلم اور چالیس فیصد آبادی ہندو ہے ۔تھر کے لوگ ایماندار اور مہمان نواز سمجھے جاتے ہیں 80 فیصد سے زیاد لوگوں کا انحصار زراعت اور مویشی پالنے پر ہے ۔آج کل یہ علاقہ بدترین قحط سالی کا شکار ہے 1947 کے بعد تھر14ویں با ر قحط سالی کا شکار ہوا ہے ۔چونکہ یہ بارانی علاقہ ہے اور اس کی زراعت کا دارو مدار بارش پر ہوتا ہے بارشیں ہوں گی تو فصلیںہوں گی ا گر بارش نہیں ہوگی توفصلیں بھی نہیں ہوں گی۔ تھر پارکر میں تقریبا 200 گائوں ہیں اگر میڈیا رپوٹس کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پورے تھر پارکر میں دو یا تین پکی سڑکیں موجود ہیں۔

Tharparkar Women

Tharparkar Women

پچھلے 67 سالوں میں تھر پارکر کے باسیوں کی مشکلات پر قابو پانے کیلئے کوئی ٹھوس اقدمات نہیں کئے گے ، پرویز مشرف نے اپنے دورے اقتدار میں جب چھاچھروں آئے،تو انہوں نے تھر پارکر کیلئے 90 کڑوڑ بجٹ کا اعلان کیا ۔لیکن آج بھی تھر پارکر میں طبی اور دیگر سہو لتیںنہ ہونے کہ برابر ہیں آپ تھر پارکر میں بسنے والوں کی مشکلات کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ آج بھی وہاں لوگ اور جانور ایک ہی گھاٹ سے پانی پینے پر مجبور ہیں ۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق پچھلے 44 دنوں میں 60 سے زائدبچے جاں بحق ہو چکے ہیں ، پچھلے سال بھی جب سندھ میں ایک طرف سندھ فیسٹیول منایا جا رہا تھا تو دوسری طرف تھر پارکر میں بھو ک و افلاس اور موت کا راج تھا ، اس سال بھی سندھ حکومت اپنی شاہ خرچیوں میں مصروف ہے اور دوسری طرف تھر میں موت کا راج ہے۔ چند دن پہلے جب وزیراعلی سندھ مٹھی کے ہسپتال کا دورہ کرنے پہنچے تو ان کے ساتھ 92 گاڑیوں پر مشتمل ایک بھاری بھرکم قافلہ تھا ۔ ایک ائر کنڈیشنر کمرے میں سندھ کابینہ کا اجلاس منعقد ہو اور اس کے بعد سائیں قائم علی شاہ نے میڈیا سے بات کرتے ہو اس تاثر کو ہی غلط قرار دے دیا کہ تھر میں اموات غذائی قلت کے باعث ہوئی ہیں ان کا کہنا تھا یہ اموات غر بت اور قدرتی بیماریوں کی وجہ سے ہوئی ہیں اور پیدائشی بچے غیر تر بیت یافتہ دائیوں سے زچگی کروانے اور مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر جاں بحق ہوئے ہیں۔

اس کے بعد سائیں جس شان و شوکت سے تھر پہنچے تھے اسی شان و شوکت سے واپس روانہ ہو گئے۔ سندھ حکومت اپنی غلطی کاا عتراف کرنے کی بجائے میڈیا کو مورد الزام ٹھرا رہی ہے ،موصوف وزیر اطلاعات سندھ شر جیل میمن صاحب فر ماتے ہیں کہ تھر میں صرف 2 بچے جبکہ پورے ملک میں روزانہ600 بچے مرتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ میڈیا پر تھر کے حوالے سے آنے والی خبروں میں کوئی حقیقت نہیں،کیا یہ بے حسی کی انتہا نہیں ؟ حالانکہ حکومت سندھ کو اس قحط کی آمد کی پیشگی اطلاح مل چکی تھی ،اس کے باوجود حکومت سندھ نے کوئی ٹھوس اقدام نہ اٹھا کر مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا اگر وقت سے پہلے مناسب انتظام کر لئے جاتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ محض غذائی قلت کی وجہ سے کوئی شخص زندگی کی بازی ہارتا ۔ اس ساری صورتحال کی ذمہ دار صرف سندھ حکومت ہی نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے کیو نکہ تھر صرف سندھ کا حصہ نہیں بلکہ پاکستان کا حصہ بھی ہے تھرکے باسی پہلے پاکستانی ہیں اور بعد میں سندھی۔

اگر پچھلے سال قحط سے ہونے والی ہلاکتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت تھر کے قحط زادہ علاقوں میں بروقت خوراک کی فراہمی یقینی بناتی تو آج تھر کے لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے یوں اپنے بچوں کو تڑپتا اور بلکتا ہوا نہ دیکھتے اور نہ ہی اتنے بچے اپنی جان سے جاتے۔پچھلے برس جب قحط نے تھر کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا تو ا س وقت وزیر اعظم پاکستان میاں نوازشریف کی طرف سے متاثرہ علاقے کیلئے ایک ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا گیا تھا ،اگروہ ایک ارب روپے صاف شفاف طریقے سے تھر کے مجبور اور بے آسرا لوگوں کی فلاح بہبود پر خرچ کر دئیے جاتے تو کافی حد تک ان لوگوں کے دکھوں کا مداوا کیا جا سکتاتھا ۔صرف مالی امداد ہی اس مسلے کا حل نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر اس کا حل تلاش کیا جانا چاہیے، تاکہ آئندہ معصوم جانوں کا ضیاع روکا جا سکے۔

Muhammad Ali

Muhammad Ali

تحریر : ایم ایم علی