روشن خیالی کے نام پر فیشن یا فحاشی !

Culture

Culture

ہماری نئی نسل (نوجوان لڑکے اور لڑکیوں )کی اکثریت ہماری اسلامی و مشرقی تہذیب و ثقافت سے بیگانہ ہوتی جا رہی ہے۔مغربی و غیر ملکی فیشن کی چمک دمک نے ان کو اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ وہ اچھائی ،برائی،حیا و بے حیائی فیش و فحاشی کے درمیان فرق اور اس کے نقصانات کو بھول گئے ہیں ۔اور ہوا یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل اپنی روایات و ثقافت کو چھوڑ کر مغربی و ہندو تہذیب و تمدن جو کہ فحاشی و بے حیائی کا ہی دوسرا نام ہے کو اپنانے پر مصر ہے اور اسے ترقی،روشن خیالی اورجدید فیشن ،کا نام دے رہی ہے۔

اور لباس ،گفتار،چال ڈھال فیشن کے نام پر بے حیائی کے سانچے میں ڈھل کر فحاشی کی حدوں کو چھو رہی ہے۔شیطان نے ان کی اس بے حیا ثقافت کو روشن خیالی کا نام دے کر خوش نما بنا دیا ہے اور وہ اس کو درست خیال کر رہے ہیں ۔ہمارے معاشرے میں اس بے حیائی ،ثقافتی بگاڑ ،فیشن و فحاشی کے پھیلاو کا سب سے بڑا ذمہ دار اور ذریعہ ہمارے ذرائع و ابلاغ ہیں ۔جس میں رسائل و میگزین،اخبارات ،نجی ٹی وی چینل ،فلمیں اور ڈرامے وغیرہ شامل ہیں ۔ہمارے اخبارات و رسائل فلمی ستاروں ،کھلاڑیوں کی نیم عریاں تصاویر خاص زاویوںسے رنگین صفحات پر بڑے اہتمام سے شائع کر کے فحاشی و بے حیائی کے پھیلاو میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

دوسری طرف ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے اشتہاربازی کے ذریعے بے حیائی و فحاشی کو پھیلانے کا موجب بن رہی ہیں۔اس میں بھی کسی حد تک ذرائع ابلاغ ذمہ دار ہے جس کو صرف پیسے سے غرض ہے بے شک اس سے ملک و قوم کی ثقافت و ٹہذیب و تمدن کا جنازہ نکل جائے۔نجی چینل ،خبارات و رسائل ،ٹی وی ڈراموں سے اب یہ فیشن یا بے حیائی بازاروں ،گلیوں،گھروں تک جا پہنی ہے اور اسے معاشرے نے برا سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے ۔مجھے یاد ہے۔

ابھی تھوڑے عرصہ پہلے کی بات ہے ،دکانوں،ہوٹلوں،بازاروں ،فیکٹریوں ،گھروں میں بلند آواز سے نعتیںاور انڈین گانے لتا ،رفیع،مکیش اور پاکستانی مہدی حسن ،نورجہاں کے گانے چلائے جاتے تھے ،1990 تک ایسا ہی تھا ،جس گانے کے بول ذرہ فحاشی لیے ہوتے ان گانوں کو کوئی اکیلا ،چھپ کر تو سن لیتا تھا مگر سرعام ایسا طوفان بدتمیزی نہ تھا،پھر وقت بدلا اور نصیبولال منظر عام پر آئی تو ایسی بہودہ شاعری جو فحاشی ہی ہے متعارف ہوئی اور نوجوان نسل اسے بلند آواز ٹریکٹر وغیرہ پرچلانے لگی اور جب موبائل ،میموری کارڈ عام ہوا تو سب کی دسترس میں یہ بے حیائی جا پہنچی اور اب وقت یہ ہے کہ اسے برا ہی خیال نہیں کیا جا رہا ۔اسے اپنی ثقافت سمجھ لیا گیا ہے۔
وہ حیا جو کل تلک تھی مشرقی چہرے کا نور لے اڑی اس نگہت گل کو یہ تہذیب فرنگ

اب لباس کی تراش خراش جسمانی نشیب وفراز کو ظاہر کرنے کے لیے کی جاتی ہے ۔اور اسے ترقی ،ماڈرن ازم،جدید دور کی ضرورت اور روشن خیالی قرار دیا گیا ہے۔نوجوان ( لڑکے اور لڑکیاں ) فلم،ٹی وی ڈرامے۔اشتہارات، اخبارات میں فلمی ستاروں کی تصاویر دیکھ کر ان کے جیسا بننے کا سوچتے ہیں ۔اسی لیے اب ہماری نئی نسل کی اکثریت کے رول ماڈل انڈین فلموں کے ہیرو ہیروئین ہوتے ہیں ۔اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ اگر وہ بہودہ لباس (جس میں آدھے ننگے ہوں ) نہ پہنیں تو وہ ترقی یافتہ ،روشن خیال نہ کہلائیں گے۔بلکہ ان کا شمار اولڈ کلاس میں ہو گا۔

اب تو اس فیشن کی برکت سے نوجوان نسل کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ میل ہے یا فیمیل ۔لڑکا ہے یا لڑکی ۔لڑکیاں پینٹ شرٹ ،جوگر، بوائے ہیر سٹائل اور بناں چوڑیوں کے کلائیوں رومال نما ڈوپٹا اوڑھے ہوتی ہیں ۔اور لڑکے ہاتھ میں کنگن،بالوں کی پونی بنائے ،کانوں میں بالیاں سجائے ،صنف نازک کو مات دیتے نظر آتے ہیں ۔اور باقاعدگی سے پارلر جاتے ہیں ۔ایک دور تھا زیادہ پرانا نہیں یہی 80 کی دہائی میں مرد اپنی مردانہ وجاہت،چوڑے سینے،ورزشی جسم ،ملازمت ،اعلی کردار پر فخر کرتے تھے اور اب اپنے زنانہ فیشن پر ۔جدید تحقیق کے مطابق خواتین کی اکثریت ایسے مردوں کو پسند کرتی ہیں۔

Fashion

Fashion

جن کے چہروں پر نسوانیت زیادہ ہو یعنی زنانہ چہرے والے مردوں کو کہ ان کا خیال ہے کہ ایسے مرد خواتین کا زیادہ خیال رکھتے ہیں ۔دوسری طرف وہ خواتین جو سچ مچ خوبصورت ہوتی ہیں وہ مردانہ چہروں ،مردانہ وجاہت والے مردوں کو زیادہ پسند کرتی ہیں ۔عورتوں کی اکثریت کے خود کو ننگا کرنے کی دو وجوہ ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ اس کے پاس بے شمار پیسہ آ جائے اور دوسرا اس کے پاس پیسہ بالکل ہی نہ ہو (میں نے اکثریت لکھا ہے اس میں سب شامل نہیں ہیں)مگر ہمارے معاشرے میں احساس کمتری ،نقالی،ذہنی غلامی اس کا سبب ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ زوال کی طرف بڑھتی قوم اپنی ثقافت کو گھٹیا خیال کرنے لگتی ہے اور احساس کمتری کا شکار ہو کر نقالی کرتی ہے ۔ہماری قوم کا جو حال ہے ایک شاعر شہزاد انوار خان نے کیا خوب کہا ہے۔
فیشن کی خود نمائی کے رستے پر چل پڑی ہر قسم کی برائی کے رستے پر چل پڑی
چلنا تھا جس کو دین کی پاکیزہ راہ پر وہ قوم بے حیائی کے رستے پر چل پڑی

ہماری نسل کو اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ جس کی وہ نقالی میں اپنی ثقافت کو چھوڑ چکی ہے وہ مغرب اب مشرقی و اسلامی رسم و رواج اور ثقافت کو اپنا رہا ہے ۔اور ہم کو ان کے عیب میں بھی ہنر نظر آ رہے ہیں ۔فیشن و بے حیائی کی اس اندھی تقلید سے ہم کو خود اپنے آپ اور ملک و قوم کی خاطر اپنی نوجوان نسل کو بھی بچانا ہو گا ۔اس کے لیے ہمارے مذہبی و سیاسی رہنماوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی اپنا کر دار ادا کرنا چاہیے۔

Sardar Akhtar Chaudhry

Sardar Akhtar Chaudhry

تحریر: اختر سردار چودھری کسووال