اب کی بار کیا مختلف ہے؟

Rehana Hashmi

Rehana Hashmi

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) نسلی ظلم کی تاریخ امریکا میں اتنی ہی پرانی ہے، جتنا خود امریکا۔ یہاں ایک آزاد معاشرے کا قیام غلاموں کی نیلامی، بچوں کی والدین سے علیحدگی، اپنی زبان بولنے پر پابندی اور بے لگام مظالم اور قتل و غارت سے ہوا۔

سیاہ فاموں پر جو ظلم روا رکھے گئے انہیں اس کا احساس لگا تار ہوتا رہا اور انہیں جلد محسوس ہو گیا کہ اس ظلم کی چکی میں پِسنے والے وہ تنہا نہیں ہیں۔ محمد علی کلےکو ویتنام جنگ کا ایندھن بننے کا کہا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر جنگ میں جانے سے انکار کر دیا کہ امریکا سفید فام لوگوں کے لیے تو جنت کا منظر رہا ہے لیکن بیڑیوں میں جکڑے ہوئے غلام بن کر آنے والے سیاہ فاموں کے لیے یہ ایک نہ ختم ہونے والا ڈراؤنا خواب رہا ہے، ”میں اس خون میں لتھڑے نظام کا سپاہی بن کر ویت نام کی جنگ نہیں لڑوں گا۔‘‘

امریکیوں کے دلوں پر راج کرنے والے محمد علی کو اس ‘جرم‘ پر پانچ سال قید بامشقت کاٹنا پڑی۔ عالمی باکسنگ چمپئیں کا اعزاز واپس کرنا پڑا۔ مالی مشکلات کا سامنا ہوا لیکن انہوں نے اپنے بے داغ کردار اور بہادری سے اپنی سچائی ثابت کی اور ہمیشہ کے لیے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی۔

لیکن یہ لڑائی صدیوں پر محیط ہے۔ یہی آواز اپنے اپنے وقت میں روزا پارک، مارٹن لوتھر کنگ، میلکم ایکس اور لا تعداد دوسرے سیاہ فام مردوں اور عورتوں نے بھی اُٹھائی۔ ان آواز اُٹھانے والوں میں باراک اوباما کا نام بھی لیا جا سکتا ہے لیکن جارج فلوئیڈ کی موت پر پوری دنیا سے، جس غم و غصے اور ایکتا کا اظہار کیا گیا ہے، اس کی مثال پوری سیاہ فام جد و جہد کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ جارج نے اپنا جو دکھ اپنی ماں کو ایک پولیس آفیسر کے گھٹنے کے نیچے اپنا سانس ٹوٹتے ہوئے بیان کیا تھا، وہ لاک ڈاؤن کے موسم میں کروڑوں دلوں کو کیسے چھو گیا؟

امریکا کے سیاہ فاموں نے سپورٹس، موسیقی، مسلح افواج میں خدمات، سیاست اور چرچ کی دنیا میں اپنی کارکردگی سے بہت نام پیدا کیا۔ کولن پاول امریکا کے آرمی چیف اور کابینہ کے اہم رکن رہے، باراک اوباما صدر رہے لیکن نسلی منافرت کے بت کو ایسی ضرب کسی نے نہیں لگائی، جیسی اب کی بار لگی ہے۔

اب کی بار دکھ کے مارے سیاہ فام نسل پرست گوروں سے ٹکرانے باہر نہیں نکلے۔ اب انصاف اور برابری پر یقین رکھنے والے ہر نسل، قوم، مذہب، عقیدے اور طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ، پولیس افسران اور سیاست دان ، سب کے سب اس ظلم کے خلاف سیلاب کے ریلے کی طرح آئے ہیں، جو پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔ اس احتجاج کی دعوت کسی جماعت، کسی لیڈر، کسی بڑے نام والے نہیں دی۔ جارج کے دل کی آواز ایک غیر محسوس طریقے سے تمام محبت کرنے والے دلوں میں پہنچ گئی ہے۔

ایک ایسی تبدیلی جو اس سے پہلے کہیں نظر نہیں آئی، وہ یہ ہے کہ پولیس، مقامی حکومتوں، کانگریس اور سینیٹ کے لیڈروں نے گھٹنے ٹیک کر جارج اور ظلم کے شکار ہونے والوں کو احترام، دوستی، انصاف اور امن کا پیغام دیا ہے۔ ہتھیار اٹھانےکی روایت کو چھوڑتے ہوئے ہتھیار ڈال کر دوستی کا ہاتھ بڑھانے میں کوئی جھجک، شرم یا گھبراہٹ محسوس نہیں کی۔ دلوں کے درمیان جو برف کی دیوار تھی، وہ پگھلنا شروع ہو گی ہے۔ لوگوں کو رنگ اور نسل کے ظاہری فرق کی پیچھے ایکتا نظر آنے لگ گئی ہے، یہ ایسی تبدیلی ہے، جو پہلے نظر نہیں آئی۔

اب کی بار جارج فلوئیڈ کا غم اور سیاہ فام شہریوں کا غصہ دنیا بھر کے مظلوموں کی امید میں بدل گیا ہے۔ خوف نے سڑکوں اور چوراہوں پر گردن جھکا دی ہے اور امید لاک ڈاؤن توڑ کر باہوں میں باہیں ڈالے سر بازار رقص کر رہی ہے۔ کھلے دن میں جو اندھیرا چھایا ہوا تھا اُس نے کالے گورے، اونچے نیچے، دائیں بائیں میں فرق مٹا کے سب کو ایک قطار میں لا کھڑا کیا ہے۔ اب صرف دو فریق ہیں درد دل رکھنے والے اور بے درد۔

یہ درد اُس رات کا ثمر ہے

جو تجھ سے مجھ سے عظیم تر ہے

یہ صرف ایک نئی سیاست کی فتح نہیں ہے۔ یہ ایک نئی اخلاقیات کی فتح ہے، جس کی بنیاد ‘میں اور تو‘ پر نہیں ہم پر ہے۔ اب کی بار یہ مختلف ہے۔