جاں سے عزیز تر رہے وحشت کے سلسلے

Sad

Sad

جاں سے عزیز تر رہے وحشت کے سلسلے
راہِ وفا میں غم کی مسافت کے سلسلے
جاری ہیں اب بھی اپنی اذیت کے سلسلے
دنیا نے لاکھ ہم کو کیا بدگماں مگر
ٹوٹے کبھی نہ تجھ سے محبت کے سلسلے
تا عمر تیرا غم ہی تسکینِ جاں رہا
دل کو کبھی نہ بھا سکے راحت کے سلسلے
حرفِ غلط کو ہم نے کبھی سچ نہیں کہا
شامل رہے ہیں خوں میں بغاوت کے سلسلے
پھیلانا اپنے پائوں تم چادر کو دیکھ کر
حد درجہ پُرفریب ہیں شہرت کے سلسلے
دارورسن کی راہ کے ہر موڑ پر ہمیں
جاں سے عزیز تر رہے وحشت کے سلسلے
ترکِ تعلقات ہی جب طے ہوا زریں
باقی رہے نہ تجھ سے شکایت کے سلسلے

زریں منور