دین و زندگی

Mother

Mother

تحریر: ڈاکٹر خالد فواد الازہری

اسلام ایسا دین برحق ہے جس میں دنیوی و اخروی زندگی میں اعتدال کا درس دیا گیا ہے ۔یعنی انسان کو دنیاکی راحت و آسائشوں سے متمتع ہونے کی بھی کھلی اجازت ہے اسی کے ساتھ اس بات کی تاکید بھی کی گئی ہے کہ ابدی زندگی جو کہ موت کے بعد شروع ہونی ہے اس کا سامان کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ایک نوجوان شادی کی تیاری میں مصروف عمل تھا تو اس کی ماں نے اس کو بلایا اور کہا کہ اے میرے بیٹے میں چاہتی ہوں کہ تمہاری شادی سے پہلے کچھ باتیں تم سے کرلوں۔ شادی کے بعد تم مجھے چھوڑ جائوگے اور اپنی بیوی کے ساتھ زندگی بسر کرو گے میرے علاوہ!فطرتی بات ہے کہ مردو عورت کے مابین ایک دوسرے کے لئے کشش ہوتی ہے۔تاہم اس کے باوجود اس نئی زندگی میں بہت سے نئے رویوں اور تجربوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔یہ بات ذہن نشین کرلو کہ بیوی کے ساتھ ترش مزاجی و تنگ دلی کے ساتھ تعلقات استوار نہ کرنا۔ایسا ہرگز نہیں ہوسکتاکہ وہ تمہارے ظلم و جبر کو سمعاً وطاعتاً ہمہ وقت قبول کرتی رہے لہذاا یسی خواہشات کو دل سے نکال دو۔

مجھے اور اپنی بیوی کو ایک دوسرے کی طبیعت کے ماحول پر نہ رکھنا،نہ ہی میرے کھانے اور اپنی بیوی کے کھانے کو دیکھنا۔میں نے اپنی زندگی کا آغاز اس طرح کیا کہ کھانا پکاتے وقت جلادیتی تھی۔کئی بارکھانا خراب پکایا۔ لیکن میراخاوند مجھ سے پیار کرتا تھا اور میرے پکائے ہوئے سالن کو خاموشی سے نوش کرتا تھا،کبھی بھی مجھے کھانے کی وجہ سے دکھ و تکلیف نہیں پہنچائی کہ تم نے کھانا اچھا نہیں بنایا یا کچھ اور یعنی وہ صبروقناعت کو اپنی زندگی کا اہم گوشہ دے چکے تھے۔یہاں تک کہ میرے کھانے کا انداز اچھا ہوگیا اور جب تم اور تمہارے بھائی و بہنیں پیدا ہوئی تو تم نے جو میرے ہاتھ کا کھانا تناول کیااور جس کو تم نے پسند کیا وہ بڑی محنت کے بعد وہ ذائقہ پیداہوا۔

اور جان لے میرے بیٹے میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں اور اللہ نے تمہیں میرے دل کے قریب رکھا ہے ،جب تم کو تکلیف و غم پہنچتاہے تو مجھے بھی دکھ ہوتاہے لہذا تم اپنے اور بیوی کے درمیان کے معاملات کو مجھ سے بیان نہ کرنا تاکہ میں غمگین نہ ہوں اور میرے دل میں تمہاری بیوی کے لئے بری بات و برے خیال پیدا ہوں۔مجھے ہمیشہ اس سے صاف دل سے ملنا چاہیے یعنی ہرطرح کے بغض و تنگی سے میرا سینہ پاک رہے۔رسول اللہ ۖ کے ارشاد کو اپنے سامنے رکھاکرو کہ آپۖ نے فرمایا کہ مجھ سے کوئی میرے صحابی کے بارے میں بات نہ کرے تاکہ میں جب اس سے ملوں تو میرا دل صاف ستھرا ہو۔یہ حدیث ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ ہم اس کو اپنی گھریلوزندگی میں بھی لازم پکڑیں۔اگر بیوی سے غلطی ہوجائے تو اس پر صبر کرو اور اپنے مزاج کو گھر میں نرم رکھو یہ بات مت سوچو کہ بلند آواز سے ہی مرد کی برتری ثابت ہوتی ہے۔خود بھی ہمیشہ اللہ کا استحضار کا احساس کرواور بیوی کو بھی اللہ کی یاد میں محو رہنے کی تلقین کرو یہاں تک تم دونوں کے درمیان محبت و الفت پیدا ہوجائے اور اللہ تعالیٰ تمہیں صاحب اولاد کردے۔

بیوی کے گھر والوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا معاملہ کرو،اس کے ماں باپ کا بھی احترام کرو۔ اسی طرح باقی گھروالوں کے ساتھ بھی اچھا رویہ روارکھو جیسے ہمارے گھر میں معاملہ کرتے تھے۔اور نہ ہی بیوی کو یہ کہہ سنائوکہ میں نے تمہارے اہل خانہ کے لئے یہ کیا وہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو سامنے رکھو کہ ”احسان نہ جتلائو”اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے پیار کرتاہے۔لہذا اللہ کی مخلوق یعنی اہل و عیال کے ساتھ عزت و عظمت کا رشتہ استوار رکھو اور کشادہ دلی و سخاوت کو زندگی کا جوہر بنالو۔یہ احساس اپنے دل میں مت پیدا کرو کہ تم پسند نہیں کرتے کہ کسی کو عزت دو۔ رسول اللہۖ کے اس فرمان کو پیش نظر رکھو کہ ”تم جو کچھ اپنے گھروالوں کو کھلاتے ہوتو اس کا تم کو اجرملتا ہے اور اللہ کی رضامندی بھی حاصل ہوتی ہے”۔اپنی بیوی پر خرچ کرو اور یہ جان لو کہ جوکچھ تم اپنی بیوی پر خرچ کرتے ہووہ سب سے بہتر خرچ ہے تمہارا۔

یہ بات بھی سمجھ لو اور باریک بینی سے اس پر غور کرو کہ تمہاری بیوی ہمارے گھر آکر ہماری خدمت کرو۔یہ بات ذہن نشین کرلو اگر ہم یہ تصور کرلیں کہ ہماری بیٹی اپنے سسرال میں خدمت گذار یعنی نوکرانی بن جائے تو اس کو ہم ہرگز برداشت نہیں کرینگے۔البتہ یہ ضروری ہے کہ تم اپنی بیوی اور اس کے گھروالوں کی خدمت کرو اس کی وجہ سے اس کے دل میں تمہارے گھروالوں کے لئے احترام کے جذبات پیدا ہوں گے اور جب آپ کسی کی عزت کرو گے تو وہ بھی آپ کی اور آپ کے گھروالوں کی عزت کرینگے۔

یہ بہت بڑی منفی سوچ ہے کہ بیوی تمہاری ملک میں آگئی ہے اب جو چاہو تم اس کے ساتھ کرگزرو ،یادرکھوتمہارے والد نے کبھی میرے ساتھ بدمعاملگی نہیں کی بلکہ مجھے گھرکی مہارانی بناکر رکھا ہے ،اور میں نے بھی آپ کے والد کے گھروالوں کے ساتھ اچھا رویہ روارکھا۔میرے بیٹے یادکرورسول اللہۖ کے اس ارشاد کو کہ میں تم کو عورتوں کے ساتھ حسن معاملہ کی وصیت کرتاہوں۔یہ بھی خیال کرو کہ تمہاری بیوی نے تمہارے لئے اپنے گھر بار کو چھوڑا ہے اوراپنے والدین اور بہن بھائیوں سے دور تمہارے پاس آئی ہے ،سو تمہیں اس کو ان تمام رشتوں کے احساس سے ماورا کرنے کے لئے کردار اداکرنا ہوگا۔بیوی اللہ کی امانتوں میں سے ایک امانت ہے تمہارے پاس ،اس کے بارے میں روزقیامت اللہ کے حضور تم سے جوابدہی ہوگی ۔رسول اللہۖ نے فرمایاجب وہ وفات کے قریب تھے کہ عورتیں اپنی امانتیں مردوں کے پاس چھوڑے ہوئے ہیں۔

مجھے اپنی تربیت پر بھروسہ ہے اور امیدکرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ہمارے لئے نمونہ عمل بنائے گا تم اپنے گھر کی بہتر معاملہ کی منظر کشی کرو۔سرورکونینۖ کے اس فرمان کو سامنے رکھو کہ ”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھروالوں کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہوں”۔ اس میں کوئی عیب نہیں کہ تم اپنی بیوی کی مدد کروامورخانہ داری میں ،تم سے بہتر کون ہے جو اپنے گھروالوں کی مدد کرے کھانا بنانے میں، کپڑوں کے دھونے اور رکھنے اور جوتوں کی درستگی کرنے میں۔تم گھر میں خوشی و مسرت کے ساتھ داخل ہو اور خوشحال ہوکر نکلو۔معاشرے کا کامیاب انسان وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھابرتائواختیار کرتاہے۔بیوی پر غصہمت کر کسی دوسرے کے سامنے،چاہے میں کیوں نہ ہوں،نہ اس کو تنگ کرو اور اس پر سختی کرو کہ وہ گھر میں قیدی بن جائے ،ہمہ وقت بیوی کی سیرت اور اس کے رازوں کی حفاظت کا انتظام کرو۔کیوں کہ اس کا حق ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ اور اپنے والدین کے ساتھ نیکی کا معاملہ کرے اور صلہ رحمی کو روارکھے۔اللہ سے ڈرو جہاں کہیں بھی ہو۔

Dr Khalid Fuaad Al Azhari

Dr Khalid Fuaad Al Azhari

تحریر: ڈاکٹر خالد فواد الازہری