دھاندلی کی راکھ پر فتح کا جشن

Voters

Voters

اقتدار کے کندھوں پر چڑھ کر اپنا قد بلند کرنے والے فاتح نہیں شکست خوردہ ہوتے ہیں اور دھاندلی کی بنیاد پر جیٹ کا حصول سراب ہوا کرتا ہے جس کا مطمع نظر فریب، جھوٹ، دھوکہ دہی کا دامن تھام کر دل کی وقتی تسلی و تشفی ہوتی ہے لیکن یہ خام خیالی جس وقت حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے تو ڈھیروں پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہوتا ہے اور باقی صرف سچ کی اٹل حقیقت بچتی ہے سر بسر دھاندلی اور جابجا دھاندلی کے جو ریکارڈ توڑے گئے اُسے این اے 69 کے عوام، ووٹرز اپنے حق خود ارادیت پر ڈاکہ تصور کرتے ہیں۔

یہ الیکشن کمیشن کی بدمعاشی نہیں تو اور کیا ہے کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر سے پوچھے بغیر ایک گھنٹہ کا اضافی وقت دے دیا گیا اور اس گھنٹہ میں یونین کونسل بندیال، یونین کونسل مٹھہ ٹوانہ سے لیگی اُمیدوار کو پانچ، پانچ ہزار کی جعلی برتری دلائی گئی، میانوالی کے شکست خوردہ لیگی ایم پی اے علی حیدر نور کو میڈیا نے پولنگ نمبر 208اور 209 پر اسلحہ اور بدمعاشی کے زور پر جعلی ووٹ ڈلواتے ننگا کیا این اے 69کے ہر شہر، ہر گائوں، ہر بستی کے مرکزی دروازے پرعمر اسلم اعوان کی شکست آج بھی ایک سوال بن کر چسپاں ہے جس کی جولانی طبع فسوں کاری نے اعوانوں کے دلوں کو مسخر کر لیا اور وڈیرہ شاہی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی حالات کا موافق نہ ہونا، ملک نعیم کے دستر خون پر پلنے والوں کی بے ثباتی عمر اسلم اعوان کو آگے بڑھنے سے نہ روک سکی اس باراُس نے اپنی دنیا آپ تعمیر کی، خدا کے بھروسے اور عوام کے اعتماد پر وہ اکیلا ہی منزل کی جانب چلا اور لوگ ملتے گئے، کاررواں بنتا گیا میں نے حسن اسلم کا وہ جذبہ دیکھا جو کسی جبر کی پرواہ کرتا ہے اور نہ ہی اقتدار کی اندھی طاقت اُس کا رستہ روک سکتی ہے۔

این اے 69کے چہرے پر کہیں بھی شکست کے آثار نہ تھے احمد ندیم قاسمی کے شہر انگہ، اُگالی، کوٹلی، چٹہ، کفری، سبھرال، کھوڑہ، ڈھاکہ، اُچھالی کے شہروں میں حیران کن سناٹا، ہر گلی، ہر کوچہ و بازار میں نظر آیا ہر آنکھ میں ایک قہر اُترا ہوا تھا جوحلقہ کے چہرے پر شکست لکھنے والے میر جعفروں اور میر صادقوں کے کردار پرکوڑا بن کر برس رہا تھا۔

میں چنکی شہر میں داخل ہوا تو بابا شہباز کا مغموم چہرہ نظر آیا شہر کے چہرے پر لکھی شکست پر اُس کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگی ہوئی تھی ڈھوکڑی کے ملک ناصر علی اعوان کے جواں ہمت جذبے بابا شہباز کے ناتواں کندھوں کو سہارا دیکر دلاسوں میں مگن نظر آئے میں آگے رواں ہوا تو شہر کے معصوم نو نہالوں کی ایک ٹولی جس کی زباں پر” عمر اسلم زندہ باد ”کا نعرہ تھا نظر آئی پھر وہ رک کر مجھ سے سوال کرنے لگے اُنہیں بھی شہر کے چہرے پر لکھی شکست کا یقین نہیں تھا۔

عمر اسلم اعوان کی شکست کا لفظ کہنے کا کسی میں حوصلہ نہیں تھا جو اُن معصوموں کو بتاتا میری نم آنکھوں کو دیکھ کر وہ معصوم گویا ہوئے انکل آپ بھی سچ کہنے سے گریزاں ہیں؟ کیا واقعی اعوان ہار گیا ہے؟ میں نے کہا نہیں بیٹا اعوان قوم کے غیرت مند بیٹوں کی سانسیں ابھی باقی ہیں وہ جاگتے ہیں اُن کا قہر اعوانوں کی طرف بڑھنے والے ہر ہاتھ کو توڑنے کی طاقت رکھتا ہے۔

میں سوچنے لگا کہ شہر نے اپنی محبتوں کا بھاری بوجھ عمر اسلم کے کندھوں پر رکھ دیا ہے اور نئی نسل کی محبتوں کا قرض شاید عمر اسلم کی نسلیں بھی نہ اُتار پائیں شہر کے چہرے پر لکھی شکست جب میں نے پڑھی تو مجھے مسلم تاریخ کے ایک غیرت مند سپوت کا تاریخی جملہ یاد آیا کہ ”جس قوم میں غدار ہوں اُس کے پکے قلعے بھی مٹی کے گھروندے ثابت ہوتے ہیں ‘مجھے یاد آیا کہ میسور اور ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی میں دینے کیلئے ایک ہی میر صادق کافی ہوا۔

Bengal And India

Bengal And India

بنگال اور ہندوستان کے مقدر میں محکومیت کا اندھیرا لکھنے کیلئے ایک میر جعفر بہت تھا غرناطہ اور الحمرا کی چابیاں فرڈنینڈڈ اور ملکہ ازابیلہ کے سپرد کرنے اور ہسپانیہ سے مسلمانوں کے اخراج کیلئے دوسرے ”ابوعبداللہ ”کی ضرورت نہ تھی۔

مجھے یاد آیا کہ ابن ِ علقمی سلطنت عباسیہ کا آخری وزیر اعظم تھا ہلاکو خان کے ساتھ خفیہ طور پر بغداد کا سودا کرتے وقت اُسے کامل یقین تھا کہ وہ صرف اپنے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے غداری کا مرتکب نہیں ہو رہا جب بغداد کے دروازے ہلاکو خان کی افواج پر کھول دیئے گئے اور مسلم تہذیب و تمدن کے اس عظیم گہوارے پر تاتاریوں کا قبضہ ہو گیا تو ابن ِ علقمی نے ہلاکو خان سے اپنی خدمات کا صلہ مانگا۔

ہلاکو خان نے جواب میں ایک زہریلا قہقہ بلند کرتے ہوئے کہا کہ ”جو شخص اپنی قوم سے وفاداری نہ کر سکا وہ میرا وفادار کیسے بنے گا اور میں اُس کی وفاداری پر کیسے اعتماد کروں گا؟ منگول سپہ سالار نے ابن علقمی کو جیسے عبرت ناک انجام سے ہمکنار کیا اُس کا تصور تک لرزہ خیز ہے۔

حلقہ کے غیور بیٹیملک تنویر سلطان اعوان، ملک بشیر اعوان ایڈووکیٹ، راجہ حسن نواز، میجر فیصل عزیز ،ڈھو کڑی کے ملک نواز اعوان، ماسٹر اسلم اعوان کا موقف ہے کہ خوشاب کے سر پر رکھی دستار کو مردان کے ہوتی کے پائوں پر رکھنے والے غلام ابن ِ غلام یہ بھول گئے کہ حرص و ہوس کا جو بھی اسیر اپنے خفیہ اکائونٹس کا پیٹ بھرنے کی دوڑ میں عوامی مفادات کا سودا کرتا ہے عوام اُس کے چہرے پر غداری کی جو کالک ملتے ہیں وہ تمام عمر نہیں اُتر پاتی کسی بڑے طوفان کے پھوٹنے کے آثار اور علامات بہت کم لوگوں کو دکھائی دیتی ہیں ہولناک خاموشی کے پس منظر میں گہرا شور بہت کم کانوں کو سنائی دیتا ہے 11 مئی کو بھی یہی ہوا کہ عوام کی اصل طاقت گلیوں، بازاروں، کھلیانوں اور غریبوں کی بستیوں میں سمٹ آئی ووٹ کی شکل میں نسل در نسل دبے اور جکڑے ہوئے محنت کشوں کو میں نے تاریخ کے میدان میں اُتر کر اپنا مقدر اپنے ہاتھوں سے تخلیق کرتے دیکھا مگر آج ایک بار پھر اُسی طرح ا پنی رائے کے قتل عام پر این اے 69 کے سارے احساس بھی نم ہیں آنسوئوں کی قیمت کوئی اُن آنکھوں سے پوچھے حلقہ کے چہرے پر لکھی شکست پر جہاں سمندر آباد ہو گئے، چلتے پھرتے باسیوں کی روح کو غم نے جکڑ لیا خوابوں کی سر زمین جبلٹ کر ویران ہو جائے تو پھر وحشت سارے وجود پر چھا جاتی ہے یہی حالتحلقہ کے باسیوں کی ہے جن کے دل اور دماغ پر اک جنون سوار ہے بغاوت کے جذبات اُبل رہے ہیں۔

ہڈالی کا ملک غلام اکبر وڈھل سچ کہتا ہے کہ جعلی مینڈیٹ کی عمر بہت کم ہوتی ہے دھاندلی اور بے اعتمادی سے تعمیر کیئے گئے تاج محل ریت کی طرح ہوتے ہیں میں شہر کے لوگوں کے حوصلے کی داد دیتا ہوں جو ہارے نہیں، شکست جنہوں نے تسلیم نہیں کی لیکن ہڈالی کے شاہد اقبال تھہیم، ملک احمد محمود وڈھل، بلال خان، احمدال کے ملک وحید، اللہ داد، تنویر احمدال، شعیب احمدال، وقاص احمدال چوآ کے ملک جہان خان، ڈھوکڑی کے ملک ناصر علی اعوان، جیسے نوجوان پھر اُٹھیں گے اور عوام کا ریلہ ماضی کی کوتاہیوں، کمزوریوں کو تلف کرتا ہوا جب منزل کی طرف بڑھے گا تو اپنے ہاتھوں اپنے مقدر کی تخلیق، تعمیر اور تشکیل کو مکمل کیئے بغیر پیچھے نہیں ہٹے گا۔

یقینا زندگی کے سفر میں دھوپ کی تپش بھی ہے اور بارش کی ٹھنڈک بھی، زندگی میں جہاں تمنائوں کی صبح ہوتی ہے وہاں آرزوئوں کی شام بھی ڈھلتی ہے اس شاہراہ پر خلوص لٹانے والے بھی ملتے ہیں تو پائوں کے نیچے سے زمین کھینچنے والوں کی بھی کمی نہیں۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک