روس اور امریکا میں اب جھگڑا کیا ہے؟

Russia and United States

Russia and United States

یوکرائن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا اور روس کے سینیئر سفارت کار پیر کے روز جنیوا میں سکیورٹی کے موضوع پر مذاکرات کر رہے ہیں۔ گو کہ ان مذاکرات میں یوکرائن کا موضوع اہم ہے، تاہم سرد جنگ کے بعد پیدا ہونے والے کئی مسائل اس بات چیت کا حصہ ہوں گے۔

روس نے یوکرائن کی سرحد پر ہزاروں فوجی تعینات کر رکھے ہیں جب کہ ماسکو کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کی کارروائیوں میں گزشتہ چند برسوں میں مشرقی یوکرائن میں اب تک 13 ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔

امریکا نے روس کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ یوکرائن کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ جاری رکھتا ہے یا اس کے خلاف کسی بھی قسم کی عسکری مہم جوئی کرتا ہے، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ امریکا کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی بھی دوسرے شعبے میں پیش رفت اس وقت تک ناممکن ہے، جب تک روس اپنی اس جارحانہ حکمت عملی سے پیچھے نہیں ہٹتا۔

روس جو سن 2014 میں یوکرائنی علاقے کریمیا پر قبضہ کر چکا ہے، یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو یوکرائن کو اپنی رکنیت دینے سے باز رہے اور مشرقی یورپ کی طرح وہاں نئے عسکری اڈے بنانے سے اجتناب برتے۔ ماسکو کا دعویٰ ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے پر مغربی دفاقی اتحاد نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنا پھیلاؤ روک دے گا۔

دوسری جانب روس بیلاروس میں سن 2020 میں ہونے والے متنازعہ انتخابات کے بعد مظاہروں میں آمر حکمران آلیکسانڈر لوکاشینکو کی طرف سے کریک ڈاؤن میں ان کی معاونت کر چکا ہے، جب کہ حال ہی میں قزاقستان میں بھی مظاہرین کے خلاف حکومتی کارروائیوں میں اپنے فوجی مہیا کر چکا ہے۔

افریقہ میں بھی امریکا اور یورپی یونین روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے قریبی تعلق رکھنے والی پرائیویٹ سکیورٹی کمپنی واگنر گروپ کی سرگرمیوں کے خلاف اپنے دباؤ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ روسی گروپ وسطی افریقی جمہوریہ اور لیبیا میں کئی طرح کی متنازعہ اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے، جب کہ حال ہی میں مالی سے فرانسیسی فوج کے انخلا کے بعد اس کمپنی نے بماکو حکومت کے ساتھ ایک بڑا سکیورٹی معاہدہ بھی کیا ہے۔

مغربی طاقتیں روس کی جانب سے شام میں بشارالاسد کی مدد پر برہم رہی ہیں تاہم ایران کے موضوع پر صدر جو بائیڈن ماسکو کے تعاون کا خیرمقدم بھی کر چکے ہیں۔

تھائی لینڈ
تھائی لینڈ کے پاس ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے جسے 1997 میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ بحری بیڑہ اب بھی ملکی بحریہ کے استعمال میں ہے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برعکس صدر بائیڈن نے روس کے ساتھ متعدد امور پر گفتگو کے لیے سفارتی رابطے کھولے ہیں اور ان میں سے ایک جوہری ہتھیاروں میں کمی کا شعبہ بھی ہے۔

صدر بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے فوراﹰ بعد دونوں ممالک جوہری تخفیف اسلحہ کے معاہدے نیو اسٹارٹ ٹریٹی کی مدت میں پانچ سال کی توسیع کر چکے ہیں جب کہ امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کے مطابق امریکا یورپ کے تحفظ کے لیے روس سے بات چیت اور نئے اقدامات کے لیے تیار بھی ہے۔ تاہم بلنکن نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ اس کے لیے روس کو سب سے پہلے یوکرائنی سرحد سے اپنی فوجیں ہٹانا ہوں گی۔

اس کے علاوہ سائبر حملوں اور روس میں انسانی حقوق جیسے امور پر بھی دونوں ممالک کے مابین اختلافات پائے جاتے ہیں جب کہ متعدد امور پر اختلافات کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بھی کشیدہ ہیں۔