اہل وطن اور کتنی قربانیاں چاہییں؟

Abul Ala Maududi

Abul Ala Maududi

تحریر : میر افسر امان

جماعت اسلامی کی قربانیوں پر بات کرنے سے پہلے جماعت اسلامی کے بانی اور امیر سید ابوالاعلیٰ مودودی کے ایک کتابچے، جماعت اسلامی کے ٢٩ سال میں اُن کی تحریر کردہ ایک سوچ کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ سید مودودی اس کتابچے میں فرماتے ہیں۔ میں ٢٢ سال بر عظیم اور دنیا کے حالات اور مسلمانوں کی پوزیشن کا مشاہدہ کرتا رہا۔ برعظیم میں جاری خلافت موومنٹ میں مسلمانوں کی ترکی سے اسلام کے حوالے سے محبت دیکھی اور اس میں خود بھی شریک تھا۔ مگر ترکوں نے عثمانی خلافت ختم کرکے سیکولرزم کی طرف پیش شروع کر دی۔ مسلمان ترکی سے اسلام کی وجہ سے محبت کر رہے تھے۔ ترک اسلام سے جان چھوڑا رہے تھے۔ خود برعظیم میں مسلمان کو ہندو بنانے کی اسکیمیں شروع ہوئیں۔ مسلمان جو مشنری ہیں،ان کوہند و بننے، یعنی گھر واپسی کی طرف مائل کیا جانے لگا۔مسلمانوں کو ہندوئوں کے بنیانیے ، قومیں اوطان سے بنتی ہیں کی طرف جانے کو بھی قریب سے مشاہدہ کیا۔ عربوں کو پہلے ہی انگریزوں نے قومیت کے رنگ میں مبتلا کر دیا تھا۔اسلامی دنیا میں ہر طرف مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ ان حالات میں عام مسلمانوں میں اسلام کی اصل روح پیدا کرنے کی اشحد ضرورت تھی۔ سید مودودی نے دنیا میں حکومت الہیٰا کا پیغام دے کر ابتدا کی کہ مسلمان خود مشنری بنیں۔ ایک ایسی حکومت تشکیل دیںجو مشنری ہو،جو اسلام کو دنیا میں پھیلائے۔

سید مودودی نے اعلان کیا کہ قرآن اور سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو۔ مسلمان قومیتوں کے سیلاب میں بہنے لگے ہیں۔ سید ٰ مودودی انہیں پھر سے اسلام کی طرف بلانے کے لیے خلافت و ملوکیت کتاب لکھی۔ اس کتاب میں خلافت ملوکیت میں کیسے تبدیل ہوئی پر سیر حاصل بحث کی۔سید مودودی نے اس میں ثابت کیا کہ دنیا میں پھر سے خلافت قائم کی جا سکتی ہے۔ اسی میں انسانیت کی فلاح ہے۔قرآن کہتا ہے کہ قومیتں صرف پہچان کے لیے ہیں۔ یہی بات سول ۖاللہ نے خطبہ حجةلوادع میں کہی۔آخرت میں تقویٰ کی بنیاد پر اچھے برے کو پرکھا جائے گا۔ مسلمانوں کو پھر سے دنیا میں مدینہ کی اسلامی ریاست،اسلامی نظام حکومت،نظام ِمصطفےٰ نو کچھ بھی ہو، جسے سید مودودی حکومت الہٰیا کہتے ہیں کو اس دنیا میں قائم کرنے کی کوششیں کرنے چاہیے۔ اس اسکیم کو عملی جامع پہنانے کے لیے پہلے ١٩٣٢ء میں رسالہ ترجمان جاری کیا۔پھربرعظیم ٧٥ افراد لاہور میں جمع ہوئے۔ ٧٤ روپے ١٤ آنے کی مالیت کے ساتھ، سال ١٩٤١ء میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔یہ تاریخ کا دھارہ موڑنے کاکام سید مودودی کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔

علامہ اقبال مصورو مفکر پاکستان سید مودودی کا رسالہ ترجمان پڑھتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ سید مودودی حکومتِ الہٰیا قائم کرنے کے لیے لوگوں کو بلا رہے ہیں۔ مفکر اور مصور پاکستان علامہ شیخ محمد اقبال کی خواہش پر اللہ کے لیے ہجرت کر کے اپنے آبائی شہر حیدر آباد کو چھوڑ کر پنجاب کے گائوں پٹھان کوٹ جمال پورتشریف لائے۔علامہ اقبال نے سیدمودودی سے وعدہ کہا تھا کہ وہ بھی سال میں چھ ماہ پٹھان کوٹ میں گزارہ کریں گے۔ اللہ نے علامہ اقبال کو اپنے پاس جلد بلا لیا۔ بحر حال سید مودودی ١٩٣٨ء میں پٹھان کوٹ پہنچے تھے۔ ١٩٤٧ء تک وہاں ہی بیٹھ کر اسلامی نظام حکومت کے قیام کے ہر پہلے پر لٹریچر تیار کیا۔ ہمارے نذدیک سید مودودی نے برعظیم کے لوگوں کوحکومت الہیٰا قائم کرنے کی ترکیب دے کر ایک ایسا کام کیا جو کسی دوسرے عالم نے نہیں کیا۔ بلکہ بعض علما نے الزام لگایا کہ یہ امام مہدی بنناچاہتا ہے۔سید مودودی نے جواب دیا کہ تم ساری عمر اسی غم میں مبتلا رہنا۔ میںکبھی بھی امام مہدی ہونے کا دعویٰ نہیں کروں گا۔ان شاء اللہ۔مسلمانوں میں خلافت کی جگہ جو ملوکیت قائم ہو گئی تھی اسے پھر سے اپنی اصلی پوزیشن، حکومت الہیٰا کی طرف موڑ کر فی لواقعہ تجدیدی کام کیا۔ جو اب ساری اسلامی دنیا میں جاری و ساری ہے۔ اس کام پر سید مودودی مجدد مانے گئے۔

قائد اعظم نے پاکستان بننے کے فوراً بعد ایک ادارہ” ری کنسٹرکشن آف اسلامک ٹھاٹ” بنایاتھا۔ اس ادارے کے ذمے اسلامی آئین اور حکومت کے سارے محکموں کے قرآن اور حدیث کی روشنی میں تبدیل کرنے کا کام سونپا تھا۔ اس ادارے کا ہیڈ نو مسلم علامہ اسد کو بنایا۔ اس کے لیے فنڈمختص کرنے کے لیے اپنے ہاتھ سے فائنس ڈیپارٹمنٹ کو خط لکھا۔ سید مودودی کو بھی کہا کہ آپ حکومت کی مدد کریں کہ پاکستان میں اسلامی نظامِ حکومت کیسے قائم کیا جائے؟ سید مودودی نے ریڈیو پاکستان سے ملک میں اسلامی نظامِ حکومت کے عملی نفاذ کے لیے کئی تقاریرکیں۔یہ تقاریر ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ اور کتابی شکل میں اب بھی موجود ہیں۔اللہ نے قائد اعظم کو جلد ہی اپنے پاس بلا لیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے کچھ کھوٹے سکوں نے علامہ اسد کو اس کام سے ہٹاکر بیرون ملک سفیر بنا کر بھیج دیا۔اس کے کیے گئے کام کو ایک بیروکریٹ نے آگ لگا دی۔ سیدمودودی کو اسلامی دستور کے مطالبہ کرنے پر جیل میں بند کر دیا ۔ کہا کہ چودہ سو سالہ پرانا اسلامی نظام حکومت کیسے کام ہو سکتا ہے؟سید مودودی کے قید میں بند ہونے کی وجہ سے پارلیمنٹ میںممبر قومی اسمبلی سید شبیر

٢
احمد عثمانی اور باہر جماعت اسلامی کے کارکنوں نے تحریک جاری رکھی۔ شہید ملت لیاقت علی خان، پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نے راولپنڈی میں اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا آیندہ دستور قرآن مجید کے حکام پر مبنی ہوگا۔ انہوں نے فرمایا کہ قائد اعظم اور ان کے رفقا کی یہ دیرنہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کا نشوو نما ایک ایسی مضبوط اور مثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہو، جو اپنے باشندوں کو عدل وانصاف کی ضمات دے سکے ( پاکستان ٹائمز۔١٧ اپریل١٩٤٨ئ) پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہیدِ ملت نواب زادہ لیا قت علی خان ١٩٤٨ء میں قراراداد پاکستان کو آئین کے دیباچے میں شامل کیا۔

جماعت اسلامی نے پاکستان بننے کے بعد ہی قائد اعظم محمد علی جناح کے وژن کو عملی شکل دینے کے لیے پاکستان کے دستور کو اسلامی بنانے کی تحریک چلائی تھی۔آخر کار مارچ ١٩٤٩ء میں قرارداد مقاصد پاس کی گئی۔جیل سے رہا ہونے کے بعدسید مودودی نے پھر یہ مطابعہ شدت سے اُٹھایا کہ اب قرارداد مقاصد کے مطابق اسلامی دستوربنایا جائے۔اسلامی دستور اور اسلامی نظامِ حکومت کا راستہ روکنے کے لیے١٩٥٣ء میں قادیانی مسئلہ اُٹھایا گیا۔خواجہ نظام الدین نے اسلامی دستور بنا لیاتھا۔ مگر لاہور میں مارشل لگا دیا گیا۔ خواجہ نظام الدین کو کو رخصت کر دیا گیا۔ بیروکریسی ملک پر سوار ہو گئی جو اب تک سوار ہے۔پھر اسی دستوری مہم پر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور حکومت میں پوری قوم کی متفقہ رائے سے ١٩٧٣ء میں پاکستان کااسلامی آئین بنا۔ اس میں لکھا ہے کہ اسلام کے خلاف کوئی بھی قانون سازی نہیں کر سکتا۔ پہلے سے موجود غیر اسلامی شقوں کو آئین کے تحت بننے والی اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق تبدیل کر دیا جائے گا۔ گوکہ اب تک اس اسلامی آئین کی رو کے مطابق نظام حکومت نہیں چلایا جا رہا ۔مگر یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ پاکستان میں اسلامی آئین موجود ہے۔ پھر ١٩٧٤ء میںاسی اسلامی آئین کے تحت، دھوکا باز قادیانوںکو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ جو اسلامی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔یہ جماعت اسلامی کی ہی قربانیوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔

جب پاکستان بن رہا تھا تو تحریک پاکستان میں قادیانی ،جاگیردار اور کیمونسٹ اپنے اپنے مقاصد کے شامل ہو گئے تھے۔کیمونسٹوں نے قاعداعظم کی وفات کے بعد ملک کے وسائل پر قبضہ کرکے ملک کو اسلامی راستے سے ہٹانے کی سازشیوںکی جال بچھانے شروع کیے۔ جس میں لیاقت باغ راولپنڈی میں پاکستان کے پہلے و زیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کی شہادت کی سازش بھی شامل ہے۔ یہ جماعت اسلامی ہی تھی کہ جس نے سیاست میں کیمونزم اورسرمایادارانہ نظریات کا مقابلہ کر کے انہیں پاکستانی سیاست سے بے دخل کیا۔ سید مودودی نے کیمونسٹ اور سرمایادارانہ نظام حکومت کوچیلنج کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ پاکستان ہمارے نذید ایک مسجد کا درجہ رکھتا ہے۔ اس میں نبی محترم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے نظام کے علاوہ کوئی نظا م نہیں چلنے دیں۔ اس کے لیے ہم ہرمیدان میں لڑیں گے۔ اسی پریشئر کی وجہ سے بھٹو صاحب نے بھی اسلامی سوشلزم کے پر فریب نعرے پر مغربی پاکستان میں١٩٧١ء کے انتخابات جیتے تھے۔دیگر جماعتیں بھی اپنے منشور میں اسلام کا ہی ذکر کرنے لگیں۔ کیمونسٹوں نے کھل کر نعرہ لگایا تھا کہ ایشیا سرخ ہے۔ وہ کیمونسٹ روس کی ہدایت پر چلتے تھے۔ جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ اسلامی جمعیت طلبہ نے اس کے جواب میں نعرہ دیا کہ ایشیا سبز ہے۔ اس طرح تعلیم اداروں سے بھی کیمونسٹوں کو بگایا گیا ۔کیمونسٹوں نے ملوں، کارخانوںاور زمینیوں پر قبضہ کرنے پر مزدورں کو اُکسایا۔ اس فیلڈ میں بھی جماعت اسلامی کی مزدور تنظیم، نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان نے ملک گیر تحریک چلا کر کارخانوں اور ملوں سے کیمونسٹ تنظیموں کو شکست دے کرملک کو تباہی سے بچایا ۔ آجر اوراجیر کے درمیان اسلامی روایات کے مطابق معاہدے کرائے۔ پورے ملک سے کیمونسٹ تحریک کوبوریا بستر اُٹھا کر بھاگنے پر مجبور کیا۔ یہ اعزاز جماعت اسلامی کو ہی حاصل ہے۔یہ لوگ اب امریکا کی جھولی میں چلے گئے ہیں۔ لبرل بن کر قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کے خلاف محاذ بنا کر بھارت کے اکھنڈ بھارت کے ڈاکٹرائین کی مدد کر رہے ہیں۔ان کو بھی اسلام کی شیدائی اور قاعد اعظم کے دو قومی نظریہ کی سچی جانشین جماعت اسلامی ہی شکست دے گی ۔

جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر خورشید احمد، ڈاریکٹر انسٹیٹویٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد نے اپنے ادارے کے کچھ حضرا ت کو اس کام پر لگایا کہ اس امرکا جائزہ لیں کہ کیا وجہ ہے دنیا میں ٥٠ کے قریب مسلمان ریاستیں آزادی حاصل کر چکی ہیں، مگر ترکی سے سنکیاک تک کے مسلمان علاقہ کی ریاستیں جو ابھی تک روس کے قبضے سے کیوں نہیں آزاد ہوئیں۔ ان حضرات نے روس اور ترکی کے خفیہ دور کیے۔کچھ کتابیں حاصل کی۔ ریسرچ کے بعد جو معلومات اکٹھی کیں جو تین کتابوںمیں دستیاب ہیں۔ یہ اور اس سے متعلق کچھ اور کتابیں راقم الحروف کی ذاتی لا ئیبر یری میں موجود ہیں۔ ١:۔ترکستان میں مسلم مزاحمت،صنف آباد شاہ پوری٢:۔روس کے مسلمان تاریخ کے آئینے میں، مصنف ثروت صولت٣:۔روس میں مسلمان قومیں، مصنف آباد شاہ پوری٤:۔روس میں مسلمانوں کا مستقبل مصنف الیگزنیڈر سن اور میری براکس اَپ، ترجمہ فیض شہابی٥:۔ مسلم چیچنیا، مصنف کرم اے خان۔٦:۔کوہ قاف سے ماسکو تک چیچنیا کے سرفروش۔ روس کے لیڈر پیٹر اوّل پھرایڈورڈ نے روسی قوم سے کہا تھا کہ دنیا پر اسی حکومت کا سکہ چلے گا جو خلیج اور ہندوستان پر سیاسی کنٹرول قائم کرے گا۔روسی مورخ سولودیف کے مطابق پیٹر اوّل ابتدا ہی سے ہندوستان جانے والی آبی راہوں کی تلاش میں تھا۔١٧١٦ء میں اپنے کمانڈر پرنس بیکووچ

٣
چرکسکی کو ہدایت کی کہ وہ استراخان کے دو تاجروں اور ایک روسی فوجی کو ہندوستان بھیجے جو وہاں تک پہنچنے کے آبی راستے معلوم کریں۔ پیٹر اوّل ١٨٢٥ء میں مر گیا۔ اپنے جانشینوں کے لیے وصیت چھوڑ گیا،جو اس کے جانشینوںکو پیش قدمی پر مسلسل اُکساتی رہی کہ جس کا قبضہ خلیج اورہندوستان پر ہوگا، جو دنیا کاخزانہ ہے،دنیامیں اُس کا اقتدار ہو گا۔(حوالہ مقالہ بریگیڈیئر گلزار احمد، ہفت روزہ زندگی لاہور ١٨ تا ٢٢ جنوری ١٩٨٠ئ) مندرجہ بالا کتابوںکے مطالعہ سے بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ روس نے گرم پانیوں تک رسائی کے لیے اپنے ڈاکٹرائین پر عمل کرتے ہوئے۔ ترکی سے سنکیاک تک علاقے ٣٥٠ سال کی ترکی سے لڑائی کے دوران قبضہ کیا تھا ۔پھر افغانستان قبضہ کرنے سے پہلے افغانستان میں کیمونزم کی اثرات پھیلائے۔ کیمونزم کے اثرات روکنے کے لیے گلبدین حکمت یار نے تعلیمی اداروں میں روس کا راستہ روکا۔ مسلمانوں کے دشمن بھارت بھی روس کا معاون تھا۔ پھر روس نے اپنے پٹھو، ببرک کامل کو ٹینکوں کے ساتھ افغانستان میں داخل کر کے قبضہ کر لیا۔ کیونکہ جماعت اسلامی کو روس کے عزاہم پہلے سے معلوم تھے۔ اس لیے جماعت اسلامی نے آگے بڑھ کر افغان مجائدین کا ساتھ دیا۔ افغانستان کے اندر ٹرینینگ کیمپوں میں ساری دنیا کے مسلمان نوجوان آنے لگے۔ گوریلا جنگ شروع کر دی۔روس کے ناک میں دم کر دیا۔افغان مہاجرین اور زخمی مجائدین پاکستان آنے لگے۔ جماعت اسلامی نے مہاجرین کی آباد کاری کے لیے کام کیے۔ مہاجرین کی ہر طرح سے مدد کی۔

زخمی افغان مجائدین کے علاج کے ایک بڑی افغان سرجیکل ہسپتال منصورہ لاہورمیں قائم کی۔ جماعت اسلامی کے کارکن جہاد افغانستان میں شریک ہوئے۔ قاضی حسین احمدنے مولانا دودودی کی ہدایات خود افغانستان کے کئی دورے کیے۔حزبِ اسلامی کے امیر استاد برہان الدین سابق صدر افغانستان اور دیگر افغان لیڈر پشاور میں قاضی حسین احمد کے مہمان رہے۔ سارے افغان مجائدین سے قاضی صاحب کا رابطہ رہا۔ نو کے نو جہادی تنظیموں کے مرکزی لیڈروں سے قاضی حسین احمدنے رابطہ رکھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے بھی افغان مجائدین کی مدد کی تھی۔ افغان مجائدین نے خود روس کے خلاف گوریلا لڑائی۔ امریکا دو سال بعد اپنے مفادات کے لیے شامل ہوا۔امریکا نے افغان مجائدین کی پاکستانی حکومت کے ذریعے اسلح اور ڈالروں سے مدد کی۔ امریکا نے اسٹنگرمیزائل سپلائی کیے۔جب افغان مجائدین نے اپنے کاندھوں پر رکھ اسٹنگر میزائیل داخے تو اس سے روس کی فضائی حملوں کی کمر توڑ دی۔بلا آخر جہادِ افغانستان سے روس نے شکست کھائی۔ترکی سے سنکیاک کی چھ مسلم ریاستیں آزاد ہوئیں۔ جسکی آزادی کے لیے جماعت اسلامی نے جنگ افغانسان سے پہلے ہی کام شروع کیا تھا۔ جماعت اسلامی کی افغان جنگ میں بڑے قربانیاں ہیں۔ افغانی عوام جماعت اسلامی کی پشتبانی کی وجہ سے شکر گزار ہیں۔باقی نآیندہ انشاء اللہ۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان