سعودی عرب نے ایران کے ساتھ بات چیت کی تصدیق کر دی

 Faisal bin Furhan

Faisal bin Furhan

سعودی عرب (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی عرب نے تصدیق کی ہے کہ اس کی گزشتہ ماہ ایران کی نئی حکومت کے ساتھ پہلے دورکے براہ راست مذاکرات ہوئے تھے۔ سعودی وزیر خارجہ نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ بات چیت دونوں ملکوں کے باہمی مسائل کو حل کرنے کی بنیاد فراہم کرے گی۔

سعودی عرب کی حکومت نے اتوار کے روز بتایا کہ ایران کی نئی ابراہیم رئیسی حکومت کے ساتھ گزشتہ ماہ براہ راست بات چیت کا پہلا دور ہوا تھا۔ یہ دونوں سنّی اور شیعہ حریف مسلم ملکوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اس برس شروع ہونے والے عمل کا حصہ تھا۔

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے بتایا کہ بات چیت کا تازہ ترین دور 21 ستمبر کو ہوا، تاہم انہوں نے ملاقات کا مقام نہیں بتایا۔ اسی تاریخ کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے نیویارک میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تھا۔

انہوں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران بتایا،”یہ بات چیت ابھی تک ابتدائی مرحلے میں ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ دونوں فریقوں کے درمیان مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک بنیاد فراہم کرے گی اور ہم اسے سود مند بنانے کی کوشش کریں گے۔”

خلیجی خطے کے دونوں دیرینہ حریف سعودی عرب اور ایران نے سن 2016 میں اپنے تعلقات منقطع کرلیے تھے۔ دونوں ملکوں نے اس برس اپریل میں باہمی مذاکرات ایسے موقع پر شروع کیے جب واشنگٹن اور تہران جوہری معاہدے کو بحال کرنے پر تبادلہ خیال کررہے تھے جبکہ ریاض اور اس کے اتحادیوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔

اگست میں ایران کے نئے سخت گیر صدر ابراہیم رئیسی کے عہدہ سنبھالنے سے کچھ مہینے قبل عراق میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات کے تین دور ہوئے تھے۔

سعودی عرب اور ایران علاقائی تصادم اور شام، لبنان اور عراق میں سیاسی تنازعات میں ایک دوسرے کے مخالف گروپوں کی برسوں سے حمایت کرتے رہے ہیں۔ سعودی عرب کی قیادت میں ایک عرب اتحاد نے ایران کی جانب جھکاو رکھنے والی یمن میں حوثی تحریک کے خلاف سن 2015 سے جنگ چھیڑ رکھی ہے۔

ریاض اور تہران دونوں نے گوکہ کسی بڑی سفارتی پیش رفت کا ذکر نہیں کیا ہے تاہم امید ظاہر کی ہے کہ مذاکرات کشیدگی کو کم کرسکتے ہیں۔

ایران نے مذاکرات کے نئے دور کے بارے میں فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جبکہ ریاض نے کہا ہے کہ وہ رئیسی حکومت کو زمینی حقائق کے مطابق پرکھے گا۔

خیال رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں اس جوہری معاہدے کو یک طرفہ طور پر ترک کر دیا تھا جس کے تحت ایران نے خود پرعائد پابندیوں میں نرمی کے بدلے جوہری پروگرام محدود کرنا قبول کیا تھا۔ تہران نے صدر ٹرمپ کے اقدام کا جواب معاہدے کی کچھ خلاف ورزیوں کے ساتھ دیا تھا۔

اس معاہدے کو بحال کرنے کے لیے امریکہ اور ایران کی بالواسطہ بات چیت جون میں رک گئی تھی اور ابھی تک رئیسی حکومت کے تحت دوبارہ شروع نہیں ہوئی۔ مغربی طاقتوں نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ مذاکرات میں واپس آئے۔

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل نے حال ہی میں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسیپ بوریل کے دورہ ریاض کے دوران ان سے با ت چیت کی تھی۔ بوریل نے بعد میں بتایا تھا کہ انہوں نے تمام شراکت داروں کو جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے امکانات سے آگاہ کیا ہے۔