تلاش رزق میں ہم دور نگر نکل آئے

Anwar Jamal Farooqi

Anwar Jamal Farooqi

تلاش رزق میں ہم دور نگر نکل آئے
خموش آنکھوں نے روکا مگر نکل آئے

اس سند یس میں یہ کیسا کرب پنہا ہے
کہ کبوتروں کے بچوں کے پرنکل آئے

اس نے یہ بھی لکھا تھا خط میں اپنے
لوٹ آو، کوئی صورت اگر نکل آئے

آج صبح پھر تیرے ہجر کا سورج اترا
آج پھر گھرسے ہم دیدہ تر نکل آئے

یہ سوچ کر پھر پاوں میں سفر باندھا
اس سفر میں شائید کوئی ہمسفر نکل آے

ہم نے یہ سوچ کر ہر درپہ صدا دی تھی
کسی گھر سے کوئی صاحب نظر نکل آئے

جلا دیتے ہیں چراغ شام روز انور جمال
مبادا، وہ آشفتہ سر آج ادھر نکل آئے

انور جمال فاروقی