چھوٹی بات بڑی تبدیلی کا نقطہ آغاز

Man

Man

تحریر : انجم صحرائی
بات تو بہت چھوٹی سی تھی مگر مجھے جب کوئی بات نہ ملی کہ بڑی بڑی باتیں تو سب بڑوں نے کہہ ڈالی تھیں تو نئے تعینات ہونے والے حاکم ضلع کی تو جہ سرکاری دفاتر میں پڑی ٹو ٹی ہوئی اور ادھڑی ہو ئی کر سیوں کی طرف مبذ ول کرا دی۔ گو ڈی سی او نے ہم سے بھری محفل میں ایسا کرنے کا پرو مس بھی کیا تھا ْ۔ اس ملاقات کا احوال ہم نے اپنے ایک گذشتہ کالم کے ذر یعے اپنے قارئین سے بھی شیئر کیا ۔ مگر سچی بات ہم نے سو چا تھا کہ رات گئی بات گئی کس نے یہ بات رکھنا ہے اور کس نے یہ وعدہ ایفا کر نا ہے لیکن چند روز قبل ہما رے ایک مہر بان دوست جو ڈی سی او اور ذرائع ابلاغ کی اس تعا ر فی میٹنگ میں مو جود تھے انہوں نے مجھے کال کر کے یہ نو ید سنا ئی کہ ڈسٹرکٹ کمپلیکس میں وا قع تمام دفا تر سے ٹو ٹی ہو ئی کر سیاں اٹھا لی گئی ہیں اور نئی کر سیاں رکھوا دی گئی ہیں ۔ یہ ایک اچھی خبر تھی میں اس کی تصدیق کے لئے ڈی سی آفس کا وزٹ کیا مجھے ٹوٹی کر سیوں کی جگہ اچھی کر سیاں دیکھ کر اچھا لگا ۔ چھو ٹی سی یہ تبد یلی انوائر منٹ میں جو خو بصو رتی لا ئی ہے اسے بیان نہیں محسو س کیا جا سکتا ہے۔

قیام پا کستان کے بعد حکومت نے جن برے حالات میںکام کا آ غاز کیا اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ سر کا ری دفا تر میں کامن پنوں کی جگہ کیکر کے کا نٹوں سے کام لیا جا تا تھا ۔ عظیم ملی جذ بے ، قومی حمیت و غیرت اور احساس ذ مہ داری کے سا تھ ہماری عظیم سیا سی قیادت اور قا بل فخر بیو رو کریسی نے کم وسا ئل کے با وجود اس نو زا ئیدہ مملکت کو ایک کا میاب ترین ریا ست بنا نے کا خواب پورا کیا آج کے حالات اتنے برے نہیں مگر شا ید ہمارے جذ بے ما ند پڑ گئے ہیں مگر میرا یقین ہے کہ اگر آج بھی سیا سی قیادت اپنی تر جیحات کا قبلہ درست کر لے اور ہماری بیو رو کریسی آج بھی مصلحت اور سیا سی تعلقات سے با لا تر ہو کر اپنی وفا دا ریاںریا ست سے مخلص کر لے تو اگرسب کچھ نہیںتو بھی بہت کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے۔ میں کو ئی مذ ہبی آ دمی نہیں ہو ں اور نہ ہی کسی مذ ہبی تنظیم سے میرا کو ئی تعلق ہے فرقہ وارانہ بٹوارے سے بھی اپنا کو ئی خاص تعلق نہیں شا ہد ہم جیسے لو گوں با رے ہی کسی نے کہا ہے اور خوب کہا ہے کہ
کعبے کی ہے ہوس نہ کو ئے بتاںکی ہے
مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے

بس سیدھا سا دہ مسلمان ہوں اور آقا رہبر کامل کی محبت کو ہی اپنی زند گی کا ما حا صل سمجھتا ہوں لیکن اس کے با وجود مجھے دعوت اسلامی کا یہ سلو گن بڑا اپیل کر تا ہے کہ ” سب سے پہلے مجھے اپنی اور پھر سا ری دنیا کی اصلاح کر نا ہے “سننے میں یہ مختصر سا جملہ اپنے دامن میں بڑی وسعت لئے ہو ئے ہے ۔ اپنی اصلاح کئے بغیر دنیا کی اصلاح کی با تیں کر نازمیں پہ رہ کر آسمان سے قلا بے ملا نے کے مترادف ہی ہے اور اپنی اصلاح کی ابتدا ہمیشہ چھو ٹی چھو ٹی با توں سے ہو تی ہے مثلا اگر ہم چا ہیں کہ ہما رے بچے جھوٹ نہ بو لیں تو ہمیں جھوٹ چھوڑنا پڑے گا ۔ اگر افسر اعلی چا ہے کہ اس کے دفا تر میں رشوت ، شفا رش نہ چلے تو پھر اسے اپنے آپ سے ابتدا کر نا ہو گی ۔ جس سماج میں غیر مسا و یا نہ رویے اور دہرا معیار ہو گا وہاںبگاڑ کا گراف تو زیا دہ اونچا ہو سکتا ہے اصلا ح کے سفر کاآ غاز نہیں ہو سکتا ۔اب ہما را المیہ یہی ہے کہ ہم اپنی اصلاح کئے بغیر پو ری دنیا کی اصلاح کر نا چا ہتے ہیں ۔ ایسا ہو تا نہیں اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا اس لئے کہ یہ نہ صرف نا ممکن ہے بلکہ خلاف فطرت بھی ۔۔ ہمارے ہاں کی ساری سیا سی ،مذ ہبی اور سما جی قیادت وطن عزیز کے بڑے بڑے مسا ئل کو فو کس کئے سیا سی سر کس لگا ئے ہو ئے ہیں لوگ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں ہم گو نواز گو کا ترا نہ سنا کر ان کی بھوک اور پیاس ختم کر نا چا ہتے ہیں ، لوگ دہشت گردوں کی بر بریت سے عا جزآ ئے ہو ئے ہیں اور ہم امن کی آ شاکی راگ الا پتے انڈ یا سے دوستی کا بھجن گا رہے ہیں ۔کسی سیانے نے بڑی بات کی کہ مزدور کی بات سر ما یہ دار اورہا ری کی بات جا گیردار کر رہا ہے ۔ اور ہے بھی یہی کہ بھٹے مزدروں کی مزدوری کا تعین بھٹے ما لکان اور صارف کے حقوق کا تر جمان کر یا نہ فروش بن بیٹھا ہے ۔

Meat

Meat

گوالے دودھ کی کوالٹی چیک کر رہے ہیں اور قصابوں نے وٹرنری ڈاکٹرز کی مہریں کرا ئے پہ لے ر کھی ہیں ۔ آ ئے روز گدھے کے گو شت کا سکینڈل پڑھنے کو ملتا ہے لکھنے والوں کو گلہ ہے کہ گدھوں کو تختہ مشق بنا نے والے کھلے بندوں قا نون کا مذاق ا ڑا رہے ہیں کو ئی پو چھنے والا نہیں ملز مان دند نا تے پھر رہے ہیں کو ئی پکڑ نے والا نہیں اب ان معصو موں کو سمجھا ئے کہ جس سماج میں لوگ انسا نوں کا مردہ گو شت کھا کر جی رہے ہوں وہا ںگد ھے کے گو شت کو کھا نے والے کتنے گنہگار ہو سکتے ہیں ؟ اب انہی قصاب حضرات کو ہی لے لیں ایک وقت ہوا کر تا تھا جب شہر میں چند خا ندا نی قصاب ہوا کر تے ہیں ایسے جن کا پشتوں سے یہی کا م ہوا کرتا تھا ۔ لو گ سو چ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہمارے شہر یا محلے کا قصا ئی دو نمبری کر سکتا ہے ۔ یہ تمام قصاب لا ئسنس ہو لڈر ہو تے تھے اور ان کی دکا نوں پر ٹنگے گو شت کے ٹکڑوں پہ وٹر نر ی ڈاکڑز کی مہر گو شت کے صحت مند ہو نے علا مت ہوا کر تی تھی مگر اب مجھے یقین ہے کہ ضلعی انتظا میہ اور متعلقہ ڈیپا ر ٹمنٹ کو شا ئد ہی یہ پتہ ہو کہ ہما رے شہر میں کتنے قصاب لا ئسنس ہو لڈر ہیں اور کتنے فر لو ۔۔۔

ضلعی انتظا میہ میں بہت سے محکمے ایسے ہیں جو سبزیوں ، پھلوں اور اشیا ئے خوردو نو ش کی کوا لٹی اور پرا ئس کنٹرول کے ذ مہ دار ہیں ۔ ان اداروں میں ٹی ایم اے ، ما ر کیٹ کمیٹی ۔ محکمہ زراعت اور ضلعی انتظا میہ کے ذ مہ دار افسران شا مل ہیں اگر کبھی آ پ صبح صبح ما ر کیٹ میں جا ئیں تو ان اداروں کے بیشتر کا ر ندے تھیلے ہا تھوں میں لئے نر خنا مہ کی فو ٹو کا پیاں بیچتے نظر آ ئیں گے یہ لوگ صرف نرخنا مے کی فو ٹو کا پیاں ہی فرو خت نہیں کر تے بلکہ حسب استطاعت پھل اور سبز یوں کے تحفے بھی و صول کر تے ہیں ۔ نر خنا مہ کی یہ فو ٹو کا پی جو عام ما رکیٹ میں شا ئد پچاس پیسے کی ہو ٹھیلے والے یا دکا ندار کو دس رو پے کی فرا ہم کی جا تی ہے ۔ صبح کا آ غاز جب سر کار کے لوگ اس عنا ئت سے کر یں گے تو پھر سارا دن تو دکا ندار کا ہی ہو گا ۔۔بے چا رے گا ہگ تو صرف بھگتیں گے ۔۔اب ڈی سی او صا حب جتنا بھی منڈی میں جا کر نیلا می کے نظام کی نگرا نی کر لیں ما ر کیٹ میں کو ا لٹی اور پرا ئس کا جن ان کے قا بو میں نہیں آ نے والا ۔۔۔ اب آ جا ئیں شہر میں صفا ئی اور سیو ریج کے معا ملہ پر ۔ درست کہ آ با دی بڑھ گئی ہے اور سینیٹری ور کرز آبا دی کے تنا سب سے بہت کم ہیں مگر جو ہیں وہ کہاں ہیں ؟ حاکم ضلع بس اسی کی تحقیق کر لیں مسئلہ حل ہو جا ئے گا مجھے گذ شتہ دنوں ہسپتال کے ایکسرے ڈیپا ر ٹمنٹ میں جا نے کا اتفاق ہوا ۔ وہان کمرے کی جو صورت حال تھی وہ انتہا ئی نا گفتہ تھی چھت اور دیواروںپہ لگے پنکھے اتنے گندے تھے کہ ان سے لٹکتے مکڑیوں کے جا لوں سے مجھے وہ کمرہ بھوت بنگلہ لگا ۔ میں نے وہاں مو جود ملازم سے کہا کہ دیکھو یہ کتنے گندے لگ رہے ہیں تم اس کی صفا ئی کیوں نہیں کرا تے وہ کہنے لگا سر صفا ئی کر نے وا لا کر تا ہی نہیں ہم نے کئی بار کہا ہے ۔ میں نے پو چھا کہ وہ صفا ئی کیوں نہیں کر تا تو جواب ملا کہ وہ فلاں ۔۔۔ایم پی اے کا خا ص بندہ ہے اسے کہیں تو وہ نا را ض ہو جا تا ہے اور کام کر نے کی بجا ئے ہماری بے عز تی کر تا ہے ۔اب ایسے کئی خا ص بندے ہوں گے جو کام کر نے کی بجا ئے کام لیتے ہوں گے ۔ آپ ان خا ص بندوں کو سر کار کے ملازم بنا دیجئے اور پو رے آ ٹھ گھنٹے کام لیجئے دیکھیں شہر چمکتا ہے کہ نہیں۔

سر کاری دفا تر میں وقت پر ملاز مین کا نا آنا ،چھٹی سی پہلے چھٹی کر جا نا ، فر لو ما رنا ان ر ویوں سے بھی عوام بڑے تنگ ہیں ۔ یہ مسئلہ مقا می سطح پر بڑی خو ش اسلوبی سے حل ہو سکتا ہے کر نا صرف یہ پڑے گا کہ حاکم ضلع دفتر آتے جا تے سر کا ری دفا تر کا سر پرا ئز وزٹ شروع کر دیں۔ بس ایک دو سر پرا ئز وزٹ سے دفا تر کے معمو لات اپنی اوقات پر آ جا ئیں گے۔ سچی بات یہ ہے کہ عوام کو اس سے غرض نہیں کہ حکمران کون ہے معرو ضی حقیقت ہے کہ ورا ثتی خانوادوں کے بت ابھی ابولہلول بنے ہو ئے ہیں میدان بھی ان کا ہے اور گھوڑا بھی ان کا ۔ عوام کو اس سے کو ئی غرض نہیں کہ ہما کا تاج کس کے سر پر بیٹھتا ہے کہ ایم کیو ایم سے لے کر جما عت اسلا می تک سبھی اپنی با نہیں کھو لے ایک دو سرے سے معانقہ کر نے کے لئے بے تاب نظر آتے ہیں پتا نہیں کون کس کا حریف ہے اور کون کس کا حلیف ایسے میں غریب عوام کی خواہشات تو بس اتنی ہیں کہ دفتروں میں صاف ستھرا ما حول ہو ۔ اہلکار وقت پر دفتر آئیں ، سا ئلوں کو بے وجہ چکر نہ لگا نے پڑیں ۔ مہنگائی تو جب کم ہو گی تب ہو گی ضلعی انتظا میہ جو ریٹ مقرر کرے اشیائے صرف انہیں نر خوں پہ مہیا ہوں اور ر ہا رشوت خور ما فیا تو یہ کینسر تبھی ٹھیک ہو گا جب شعا ئیں لگیں گی ۔۔لیکن ایک کام ہو سکتا ہے وہ یہ کہ ہم سب مل کر یہ کو شش کریں کہ رشوت لینے والوں کو یہ احساس دلا ئیں کہ بے شک وہ اپنا پیٹ دو زخ کی آگ سے بھر تے رہیں مگر ایک تبد یلی لا ئیں اپنے آپ میں اور وہ یہ کہ” مرے کو ما رے شاہ مدار ” کا رو یہ چھوڑ کے رشوت لینے کا ایک معیار مقرر کر لیں ، انصاف کے حصول کے لئے اپنا آپ بیچ کر آنے والے تہی دا من کو تو رشوت کے ترازو میں نہ تو لیںشا ید یہی ایک چھو ٹی سی بات ان کئے لئے بڑے عذاب سے نجات کا سبب بن جا ئے اور سچی بات یہ ہے کہ یہی چھو ٹی چھو ٹی با تیںایک بڑی تبدیلی کا نقطہ آغاز بن سکتی ہیں کاش ہم یہ نقطہ سمجھ پا ئیں۔

Anjum Sehrai

Anjum Sehrai

تحریر : انجم صحرائی