تمباکو نوشی

Dubai

Dubai

دبئی میں جنوری 2012 کا آخری سورج غروب ہو رہا تھا اور آسمان پر ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا ، راقم سارا دن دبئی کی سیر وسیاحت کی تھکاوت کے بعد اپنی قیام گاہ کی طرف کوچ کرتا ہے۔ کارباری حضرات بھی اپنی ڈیوٹی سے Free ہوکر منزل مقود کی طرف گامزن تھے ، اکشریت کا رخ BUR DUBAI BUS STATION کی طرف تھا۔ بس اسٹیشن کی حدود میں جگہ جکہ ہدایات و قوانین کے بورڈ آویزاں تھے ، قارئین آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ آج سگریٹ نوشی کے خلاف عالمی دن کے موقع پر انصاری اپنا UAE کا سفر نامہ ہمیں سنارہا ہے؟ تو ایسی کوئی بات نہیں۔

Bur Dubai Bus Stataion پر بس کے انتظار میں کھڑا تھا کہ تین مصری نوجوان آتے ہیں اور ان میں سے ایک اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے اور سگریٹوںکی ایک ڈبی کے ساتھ ہاتھ باہر نکالتا ہے، اور باری باری دونوں دوستوں کو سگریٹ آفر کرتا ہے، لیکن وہ Thanks کے ساتھ انکار کر دیتے ہیں۔ پھر وہ صاحب اکیلے ہی سگریٹ جلاکر ماحول کو آلودہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔اس منظر کو دیکھ کر اپنی پاک سرزمیں کی یاد اگئی جہاں پر پرائیویٹ بسوں،تفریح گاہوں، سینمائوں، ہسپتالوں، لائیبری، سکولوں، کالجوں، میرج ہالوںو دیگر پبلک جگہوں پر سگریٹ نوشی منع ہونے کے باوجود ہر تیسرا آدمی سگریٹ نوشی کرتا نظر آتا ہے۔

Hospital, School, Cinama house, Marriage Hall, Bus Station پر موجود ٹک شاپ پر بڑی آسانی سے سگریٹ میسر آجاتے، اگر کو ئی معزز شہری حکومتی انتظامیہ کی توجہ اس طرف معبزول کروانے کی کو شش کرتا ہے تو ان کو معیوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ UEA میں بیشتر پاکستانی بھی انتظامی امور سر انجام دے رہے ہیں ، لیکن مجال ہے کسی کی و ہ ممنوع علاقہ میں سگریٹ نوشی کرسکئے، ہر قانون شکنی کرنے والے کو200 درہم جرمانہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسے کہتا ہے قانون کی حکمرانی؟پاکستان کے آئین کے مطابقUnder 18 اور تعلمی اداروں کی حدود سے50 KM تک کوئی سگریٹ شاپ Open نہیں کی جاسکتی ، اور اگر کوئی قانون شکنی کرئے گا تو 500-1000 جرمانہ ہوگا۔ جس ملک کے حکمران قانون کی اطاعت کرنا پسند نہیں کرتے وہاں کے ووٹر قانون کی اطاعت کرسکتے ہیں؟ WHO کے مطابق کینسر اور دل کی بیماریوں کی اہم وجوہات میں سگریٹ نوشی بھی شامل ہے ، سگریٹ میں موجود چار ہزار سے زیادہ کیمیکلز معدے میں خراش، متلی اور تیزابیت پیدا کرتی ہیں، چند کیمیکلز کی تفصیل مندرجہ ذیل ہیں۔

نکوٹین:۔جونہی تمباکو کا دھواں حلق کے راستے پھپھڑوں میں اتارا جاتا ہے اسی لمحے نکوٹیں خون میں شامل ہوجاتاہے اور اسکے ا ثرات فور ی طور پر دل کی دھڑکن کو تیز اور بلڈ پریشر کو بڑھ دیتا ہے۔ امونیا:۔یہ کیمیکل بیت الخلاء صاف کرنے والے محلول میں بھی شامل استعمال ہوتا ہے۔ ایسی ٹون:۔ ناخن پالش اتارنے کیلیئے جو کیمیکل استعمال ہوتا ہے اس میں Acetone شامل ہوتا ہے۔

کاڈمنیئم : یہ ایک انتہائی زہریلی دھات ہے جو بیٹریوں میں استعمال ہوتی ہے۔
وینائل کلورائیڈ : پلاسٹک کیPVC پائپ بنانے میں عام استعمال ہوتا ہے۔
پنتھیلین : کپڑوں کو کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رکھنے کیلیئے ان میں کافور کی سفید گولیاں رکھی جاتی ہیںان میں یہ کیمیائی مادہ شامل ہوتا ہے۔
کاربن مونو آکسائیڈ : دھوئیں میں شامل یہ ایک انتہائی زہریلی گیس ہے اسی گیس کی وجہ سے بند کمرے میں انگیٹھی جلاکر سونے والے اکثر صبح کے وقت مردہ حالت میں پائے جاتے ہیں۔

Smokers

Smokers

قارئیں smokers تو اس دھوئیں سے متاثر ہوتے ہی ہیں ۔ لیکن دوسرے لوگ جو اس کے عادی نہ ہوتے ہوئے بھی اس خطرناک دھوئیں کا سامنا کررہے ہوتے ہیں ۔ سگریٹ کا عادی جہاں جی کرتا ہے سگریٹ سلگا لیتے ہیں۔ جس سے دوسرے افراد کو شدید دشواری پیش آتی ہیں اور وہ بھی سانس کے مرض اور دیگر بیماریوں(منہ، پھپھڑوں اور آنتوں کا کینسر وغیرہ) کا شکار ہوتا ہے ۔ اس عادت سے معاشرے کا نوجوان طبقہ بری طرح متاثر ہوتا ہے، کیونکہ جو سگریٹ نوشی میں مبتلا ہوجاتاہے۔پھر اسکی نفسیاتی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سکوں حاصل کرئے کیونکہ سگریٹ نوشی سے دیگر منشیات کا آغاز ہوتا ہے۔

جہاں 21 ویں صدیں سائنس و ٹیکنالوجی نے بڑی تیز سے ترقی کی ، وہاں Smoking نے بھی ترقی کی نئی منازل عبور کی ہیں ۔ ماضی میں دیہات کی شان سمجھے جانے والے حقہ کو ترقی دیتے ہوئے شیشہ تیار کیا گیا ہے۔ اس میں سب سے نیچے شیشے کاایک برتن میں پانی ہوتا ہے جس کے اوپر شیشہ رکھا جاتا ہے اس کے اوپر ایک مٹی کا برتن ہوتا ہے جس کے اوپر شیشہ رکھا جاتا ہے اور ایک پائپ جس سے دھواں کھینچتا ہے تو تمباکو سے اٹھنے والا دھواں پانی سے ہوتا ہوا پائپ میں آجاتا ہے ۔ دھواں کا ایک خوشگوار احساس ہوتا ہے اس کا ذائقہ کسی بھی پھل کا ہوسکتاہے۔

WHO کی رپورٹ کے مطابق شیشے کے دھواں میں 40% دھواں 60% فلیور اورکیمیائی عناصر(نکوٹین ، تاکول ، کاربن مونوآکسائیڈ،کرومیم ، تانبا اور کوبولٹ وغیرہ) شامل ہوتے ہیں افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں نشہ کرنیوالے افراد کی تعداد 5 لاکھ سالانہ کے حساب سے اضافہ ہورہاہے ، ہمارے ملک میں نشہ کرنے والے 20 لاکھ سے زیادہ افراد 15-25 سال کی عمر کے درمیان ہیں۔ جبکہ 4 لاکھ سے زیادہ خواتیں بھی اس بری عادت کا شکار ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نشہ کرنے والوں میں 40%Uneducated اور 60% Educated افراد ہیں ، اسی طرح 32% بے روزگار اور68% برسرروزگار افراد نشہ کی لعت کا شکار ہیں۔

منشیات کی دنیا میں ہیروئن بھرے سگریت کا استعمال بھی عام ہے۔ ہیروئن ایک ایسا زہر ہے جو انسانی ہڈیوں میں جب رچ بس جاتا ہے تواسکی دماغی و جسمانی طاقت کو ختم کردیتا ہے پڑھے لکھے اور اچھے گھرانوں کے چشم وچراغ اس خباثت کا شکار نظر آتے ہیں ۔ ہمیں اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگاکہ موذی ہیروئن کازہر رشتوں کے تقدس اور احترام کو بھی آلودہ کررہا ہے۔ منشیات کا عادی شخص اپنے نشے کی لت پوری کرنے کیلئے اپنے گھر والوں کے علاوہ رشتہ داروں کے گھر و ٰں میںبھی چوری جیسی مکروہ حرکت سے گریز نہیں کرتا اور نہ ہی نشے کیلئے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے میں بھی کو ئی عار محسوس کرتا ہے۔ چند لمحات کے سرور کیلئے ایک نشے باز پورے خاندان کو دائو پر لگا دیتا ہے۔

یوم تمباکو نوشی جو ہر سال 31 May کو منایا جاتا ہے اس کے خلاف ہمہ پہلو محاذ بنانے کیلیئے معاشرے کے تمام طبقوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور ایک ایسی بھر پور مہم چلانا ہوگئی جس میں حکو مت ، ڈاکٹر، والدین، سماجی کارکن، اساتذہ اور سیاستدان شامل ہو تاکہ لوگوں ، خصوصانوجوان نسل میںاسکے بارے میں آگہی پیدا کی جا سکے کیونکہ Smoker کی تربیت کرنا حکومت کے بس کی بات نظر نہیں آتی تمباکو نوشی کے خلاف عالمی دن کے موقع راقم ، قارئیں سے ہمدردانہ درخواست کرتا ہے۔

اپنی اپنی سوسائیٹی میں تمباکو نوشی کے خلاف جہادکو یقینی بنائے، اور حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور پبلک مقامات کی حدود میں قائم شاپ کو جلد از جلد بند کروائے۔ مزید برآں سکولوں و کالجوں سے Smoking Area ختم کراتے ہوئے ہسپتالوں ، بس اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں پر Smoking Areasکا قیام عمل میں لایا جائے۔ تاکہ سکولوں و کالجوں سے پرواں چڑھنے والی اس بری عادت کا نوجوان نسل سے خاتمہ ممکن ہوسکئے اور smoking کے عادی شکار ہسپتالوں اورپبلک علاقوںمیں قائم Smoking Areas میں جاکر اپنی نشے کو انجام دے سکئے اس عمل سے دیگر مریضوں اور عوام کو دھواں کے نقصان سے نجات میسر آسکئے گئی۔

Zeeshan Ansari

Zeeshan Ansari

تحریر : ذیشان انصاری
zeeshanansari100@gmail.com