تجوری کا رکھوالا چور

America

America

تحریر: حافظ محمد فیصل خالد

دنیا بھر میں امن کے داعی امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے قیامِ امن کی آڑ میں نقصِ امن کیلئے جو اقدامات کئے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔انسانی حقوق کی حفاظت کے داعی نے انسانی حقوق کے تحفظ کی آڑ میں اپنے مفادا د کے حصول کی خاطر انسانیت کو جس انداز میں روندا وہ اپنی مثال آپ ہے۔دنیا میں امن و انصاف کے تحفظ کے داعی امریکہ کی امن و انصاف پسندی کا اندازہ امریکہ کے ہی ایک شہری نوم چومسکی کے ساتھ امریکی حکومت کے رویے سے لگایا جاسکتا ہے۔

چومسکی امریکہ کے ایک نامور دانشور ہیں اورماضی میں وہ ہاورڈ یونیورسٹی میں پرو فیسر کے عہدے پر فائز رہے۔انکی عالمی شہرت کی سب سے بڑی وجہ امریکی استعمار پر انکی تنقید بنی۔امریکہ نے دنیا میں اپنی وحشتکا آغاز کیا تو چومسکی کھلے الفاظ میں امریکی بر بریت پر تنقید کی۔ انکے مظامین اخبار میں چھپتے ہی دنیا بھر میں سراہے جانے لگے۔انکا سب سے زیادہ پسند کییا جانے والا آڑٹیکل ‘امریکی سامراج’ تھا جس کے آغازمیں ہی چومسکی نے امریکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘ آج ہماری دنیا بظاہر علم کی دنیا ہے مگر اس میں دانشور مفقود ہے۔یہ زندہ ضمیر سے محروم طاقت کی اندہی دنیا بن کر رہ گئی ہے۔

ہم امریکی زندہ رکھنے کے علم سے کہیں زیادہ ہلاک کر دینے کے علم پر دسترست رکھتے ہیں۔ہم امریکی امن سے زیادہ جنون کے حامل ہیں۔ہم جوہری اعتبار سے تو جن بن گئے ہیں مگر اخلاقی اعتبار سے بونوں کے درجے پر فائز ہیں۔ اسی مضمون میں آگے جاکر چومسکی لکھتے ہیں کہ ١١ ستمبر کا واقعہ محض اس اعتبار سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس میں تباہی کا حجم زیادہ تھا جس کا نشانہ امریکہ بنا اور ٤١٨١ میں واشنگٹن پر برطانوی بمباری کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے جس میں امریکہ پر براہ راست حملہ کیا گیا۔مگر امریکہ شاید یہ بھول رہا ہے کہ ان دہ صدیوں کے درمیان امریکی نے دنیا بھرمیں جو بد معاشی کی اور کولڈ وار کے ذریعے ل کئی مہذب اقوام کو ذلیل کر کے رکھ دیا، مطلوموں کو روندتا رہا، مقامی آبادیوں کو مسلمل ہولناک انداز میں تباہ کارتا رہا۔ مگر کبھی کیس کو خیال نہ آیا کہ اس امریکی جارحیت کو روکا جائے اور انسانیت کی بقاء کیلئے کوششیں کی جائیں۔

اور اب جب ١١ ستمبر کو توپوں کا رخ خود امریکہ کی جانب ہوا تو دنیا پر راج کرنے والا امریکہنہ صرف خود خود اس کا شکار ہوا بلکہ اس چھوٹے سے واقعہ کے نتیجے میں اپنی حواس ہی کھو بیٹھا۔بارود کی بو جب امریکیوں کے اپنے ناک میں گئی تو اس نے انکے ذہنی توازن کو خراب کردیا۔

Justice

Justice

دنیا میں انصاف کے ٹھیکیدار کا خود اپنے شہریوں کے ساتھ انصاف کا یہ عالم ہے کہ ان تحاریر کے بعد چومسکی کے مضامین کی اشاعت پرحکومت کی جانب سے پابندی کگادی گئی۔اعتدال و انصاف پسندی میں یہ مو قع بھی آیا کہ جنوبی امریکی خود اپنے ہم وطن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔امریکی حکومت نے چومسکی کے ساتھ عادلانہ رویہ برت تے ہوئے اسکو نا پسندیدہ ترین شخصیت قرار دے دیا اور انکی آزادانہ نقل و حرکت پر درجہ حد تک پابندی لگا دی گئی۔

آزادیِ صحافت کے نام نہاد علمبردار امریکہ نے آزادیِ صحافت پر سرِ عام قد غن لگاتے ہوئے اپنے خلاف لکھنے والے چومسکی کے آڑٹیکلز کی اشاعت پر پابندی لگا دی۔طرح طرح سے چومسکی کی آواز کو پست کرنے کی کشش کی گئی مگر انہوں نے اپنے بلاگ کے ذریعے دنیا کو امریکی صوانیت سے آگاہ رکھا۔ لوگ تقریباََ ایک دھائی تک چومسکی کے تبصروںسے مستفید ہو تے رہے۔

اسی دوران امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرکے وہاں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔اوردنیا میں قایام امن کی ایسی مثال رقم کی کہ جو کسی سے بھی مخفی نہیں۔جارج بش جیسے بھیڑیے نے افواج کو round the clock bombing is needed, intense bombing, carpet bombing کا حکم جاری کر کے دنیا میں قیامِ امن کی آڑ میں اپنے مفاداد کے حصول کیلئے اپنی حکمتِ عمل در آمد کا آغاز کیا۔ اس کے بعد عراق اور پاکستان میں امریکی جارحیت امریکی حکومت کی سوچ کے عکاس ہیں اور امریکہ کی پاکستان سے متعلق حکمتِ عملی کی مظہر ہے۔

ان تما تر حقائق کے بعد ایک بات تو مکمل طور پر واضع ہو جاتی ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحا دیوں کی پاکستان سے متعلق ارادے واضع ہیں ۔مگر ستم ضریفی دیکھئے کہ ان ساب تباہیوں کے باوجود آج بھی امریکہ خود کو دودھ کا claim کرتا ہے کہ جیسے دنیا بھر میں ہونے والے اس قتلِ عام سے امریکہ کاباالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی تعلق ہی نہیں۔

Pakistan

Pakistan

اور ستم در ستم یہ ہے کہ پاکستان سمیت بعض ممالک امریکی درندگی کے بعد بھی معاشرت ترقی میں امریکی معاونت کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ہر آنے الی حکومت کی الین ترجیحات میں امریکہ بہادر سے تعلقات کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ مگر شاید ہم یہ بھول رہے ہیںتاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ امریکی صرف و صرف اپنے مفاداد کے حصول تک ہی دوست رکھتے ہیں کیونکہ سانپ کو جتنا مرضی دودھ پلا لیں ڈسنا اسکی فطرت میں شامل ہوتا ہے۔ اور جہاں تک معا شرتی ترقی میں تعاون کا تعلق ہے تو ہماری حکومت کو بھی ایک مسلمہ اصول ذہن نشین کر لاینا چاہئے کہ جو اپنے باسیوں اور شہریوں کے ساتھ منصف نہیں ہو سکتا، وہ کسی دوسری قوم کے ساتھ کیا انصاف کریگا۔

تحریر: حافظ محمد فیصل خالد