معاشرے کا بدترین مرض رشوت

Corruption

Corruption

معاشرے میں جہاں دیگر متعدد عیوب وقباحتیں صالح اقدار وروایات کو روند کر پروان چڑھ رہی ہیں وہیں رشوت جیسا مہلک اور بدترین کینسر بھی عام ہو گیا ہے، شرعی طور پر اس مرض کو جتنا بڑا گناہ کہا گیا ہے اس کی حیثیت کے علاوہ اس کے نتائج خود دنیا میں بھی نہایت خوف ناک اور تباہ کن صورت میں سامنے آرہے ہیں بلاشبہ رشوت خوری سے مال ودولت اور رزق میں بجائے اضافہ کے جو پستی اور تنزلی اور بے برکتی پیدا ہوتی ہے اس سچائی سے خود رشوت دینے والے بھی آشنا ہوں گے، مگر طلب زر اور وقتی منافع کی طمع میں انجام کار کی اس ناجائز آمدنی کے مسموم اثرات سے آنکھیں بند ہوجاتی ہیں با لآخر اس پاپ کے خمیازے میں انسان دنیا و آخرت سے غافل ہو جاتا ہے۔

وہ معاوضہ جو کسی فرضی منصبی یا واجب کام کے لیے ناحق ناواجب اور ناجائز کام کے صلہ میں نقد، قیمتی اشیاء یا حسین لڑکیوں کی شکل میں وصول کیاجائے رشوت کہلاتا ہے، اس کے علاوہ وہ ناجائز مفاد جو اپنے اعزاز، منصب کی بناء پر بلا استحقاق جائز حاصل کیا جائے جس کا بلا عہدہ حاصل ہونا دشوارہو رشوت ہے وہ مشاہرئہ غداری ہے جو معاہدئہ ملازمت کی خلاف ورزی کر کے حکومت کے وقار، مفاد، اور خزانہ کو نقصان پہنچانے کی غرض سے دیاجائے نیزصنعتی تجارتی اور غیر ملکی اداروں سے مقررہ مشاہرہ یا کمیشن کی صورت میں وصول کیاجائے وہ رشوت ہے رشوت کی تین قسمیں ہیں: ذاتی، ادارتی، سیاسی، علاوہ ازیں سبھی محکموں میں رشوت کو بنیادی حقوق کا درجہ حاصل ہے اس کا رشتہ ذات سے نہیں منصب سے ہے غرض آج سرکاری غیر سرکاری کوئی محکمہ رشوت کی زد سے بری نہیں کہا جاسکتا، سینئر افسران کے عتاب سے بچنے کے لیے جو نیئر افسران اپنی آمدنی سے ایک خطیر طے شدہ رقم اپنے سینئر کو ادا کرتے ہیں، صنعتی اور تجارتی ادارے رشوت خور حکام وملازمین کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اپنی مصنوعات کی فہرستوں میں قیمتیں درج کرتے وقت ان کا کمیشن بھی ادا کرتے ہیں۔

فروخت شدہ مال کی قیمت وصول کرنے کے بعد بلاطلب وتقاضاان افسران کا حصہ بھی پیش کرتے ہیں، ملک کی معروف کمپنیاں فرمیں اور ملوں کے مالکان گراں قدر تنخواہوں پر خاص افسران کی نظر کرم سے ان عہدوں کے نام مختلف اداروں میں مختلف ہوتے ہیں ان کا کام صرف وقتاً فوقتاً اعلیٰ افسران کی کوٹھیوں کا طواف کرنا ہوتا ہے انھیں دعوتیں پارٹیاں دے کرخوش رکھنا ہوتا ہے، بے قاعدگیاں بے ضابطگیاں کرنے والے، سنیما گھروں، اداروں، کارخانوں اوردکانداروں کی جانب سے متعلقہ افسروں یا انسپکٹروں کا ”ماہانہ” مقرر ہوتا ہے جو انھیں تسلسل کے ساتھ ملتا رہتا ہے،غرض آج اعلیٰ ملازمتی ذہن رشوت جیسے طاعون سے قطعاً محفوظ نہیں ہیں، یہ چند مستقل اور تباہ کن صورتیں ہیں جن سے رشوت کا کاروبار عین قانون کی نظروں کے سامنے نہایت خوش اسلوبی اور سرعت سے جاری ہے،اسی لیے یہ معاشرے میں عیب نہیں سمجھا جاتا، رشوت جہاں قانوناً جرم ، اخلاقاً ظلم ہے وہیں شرعاً حرام بھی ہے چناں چہ اسلام چوں کہ فطری مذہب ہے اس نے انسانی زندگی اور اس کے معاشرے کی مکمل طورپر پاکیزگی اور شفافیت کا خیال رکھا ہے۔

لہٰذا پندرہ سوبرس قبل محسن ِ انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس فعل ِ قبیح کی ممانعت فرمادی تھی ارشاد نبوی ہے:”رشوت دینے لینے والوں کا ٹھکانہ جہنم میں ہے” باری تعالیٰ بھی اس کی سخت ممانعت فرماتے ہیں:”اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے خیانت نہ کرو! کیا تم یہ جان کر بھی امانتوں میں خیانت کروگے۔ نظام حکومت میں برائیوں اور کرپشن کی بنیاد غلط بخشیوں ناجائز تقرروں اور جھوٹی سفارشوں سے پڑتی ہے انہی سے رشوت کا باب کھلتا ہے یہی اساسی خرابیاں نہ صرف حکومتی سطح پر باعث لعن وطعن بنتی ہیں بلکہ عوامی اعتماد کو بھی توڑتی ہیں یہی وجوہات معاشرے میں تیزی سے ہیجان واضطراب کو بڑھاتی ہیں، رشوت خوری کے بظاہر کتنے ہی اسباب نظر آئیں مگر اس کا بنیادی سبب فقط ایک ہے، ”معیارزندگی کا غلط تصور” ماضی میں معاشرے میں وہی معز زومحترم سمجھا جانا تھا جو صاحبِ کردار واخلاق ومعاملات ہوتا تھا نیز دیانت وامانت داری کا حامل ہوتا تھا، مگر یورپین کلچر نے رومانی ، اخلاقی اور پاکیزہ قدریں یکسر منہدم کردیں ہیں آج لائف اسٹینڈرڈ ،مادّی ، سائنسی اور تکنیکی ہے، اوراب ہر شخص دولت مند بننے کی دوڑ میں شامل ہے وہ ہر قسم کی عیش اور جیبوں میں کیش چاہتا ہے، اس لیے بلا تاخیر وہ ناجائز ذرائع ووسائل یعنی رشوت ستانی ذخیرہ اندوزی، چور بازاری، قمار بازی، جعل سازی، ملاوٹ کا کام شروع کر دیتا ہے تاکہ بہت جلد وارے نیارے ہوجائیں اسی تگ ودو میں وہ اپنا ذہنی سکون واطمینان کھو بیٹھتا ہے اور بے چینی وٹینشن کا شکار بن جاتا ہے۔

Quran

Quran

اللہ تعالیٰ ہر حال میں اپنی مخلوق کی بہتری چاہتے ہیں وہ کسی قیمت پر نہیں چاہتے کہ انسان کو دنیا وآخرت یا دونوں میں کوئی تکلیف و پریشانی لاحق ہو، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہر اس شے کو انسانوں کے لیے حلال قرار دیا ہے جو لطیف، لذیذ، مفید اور عین انسانی فطرت کے مطابق ہو اور ہر اس چیز کو حرام قرار دیا ہے جو انسان کے لیے روحانی، جسمانی طورپر مضر ومہلک ہے، قرآن کریم میں ان چیزوں پر وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ”جو رزق ہم نے تم کو دے رکھا ہے اس میں سے کھائو پیو”دوسری جگہ یہ وضاحت بھی کردی کہ اگر تم رزق حلال پر اکتفا نہ کروگے اور حرام کی جانب رجوع کرو گے تو شیطان کا اتباع ہو گا۔ (ترجمہ) زمین پر جو کچھ حلال او ر پاکیزہ چیزیں موجود ہیں ان میں سے کھائو پیو اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو وہ تمھیں (ہمیشہ) برے اور بے حیائی کے کاموں کا حکم دیتا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نہایت بلیغ وجامع الفاظ میں رشوت کی ممانعت فرمائی ہے۔ اسلام چوں کہ امن وآشتی کا ضامن اور فتنہ وفساد کا دشمن ہے اس لیے وہ معاشرے میں کسی قسم کا جھگڑا وفساد برداشت نہیں کرتا دنیاکے دیگر مذاہب واقوام میں سب سے بڑا و سنگین جرم قتل ہے مگر اسلام نے فتنہ کو قتل سے کہیں زیادہ شدید قرار دیا ہے” فتنہ تو قتل سے بھی سخت ترین ہے”۔ بلاشبہ قتل سے ایک یا چند جانوں کا نقصان ہوتا ہے مگر فتنہ سے پورا معاشرے ہلاکت کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔

قرآن کریم اور تاریخ کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ جن امتوں اور قوموں پر جو عذاب ِالٰہی نازل ہوا ہے اس کا سب سے اہم سبب یہ تھا کہ ان میں عدل و انصاف کی جگہ ظلم و زیادتی، ناپ تول میں کمی اور رشوت کا چلن عام ہوگیا تھا حلال وحرام کا فرق ختم ہو گیا تھا، حکام صریحاً عوام کی حق تلفی کرتے تھے اور ایمان ویقین کی خرید و فروخت کی جاتی تھی چوں کہ رشوت کے سلسلے کا آغاز مسند اختیارات واقتدار سے ہوتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بے مثل فرمان میں جگہ جگہ رشوت کے متعلق حکام ہی کو موضوع سخن بنایا ہے، عہد حاضر میں انسان کی بڑھتی ہوس مال نے اس کی زندگی سے چین و سکون چھین لیا ہے غرض وہ ناجائز ذرائع اور مشاغل اختیار کرکے دنیا وآخرت تباہ کر رہا ہے۔ اسلام پوری دنیا کے لیے قابل تقلید ہے اس کی نظر وہاں تک گئی ہے جہاں تک انسان سوچ بھی نہیں سکتا، بہر حال رشوت ستانی کے انسداد کے لیے قانونی اور حکومتی سطح سے بھرپور کوششیں جاری ہیں مگر ع ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی” تشخیص اگر صحیح ہو اور علاج غلط ہوتو مرض میں افاقہ کے بجائے اضافہ ہو گا حکومتی سطح پر ان خرابیوں کے سد باب کے لیے قانون درقانون وضع کئے جارہے ہیں مگر آئین اس وقت تک نہ تو کسی کی اصلاح کر سکتا ہے اور نہ ہی جرائم کی روک تھام۔ جب تک دیانت وامانت کے جذبات وفکریات اس کی پشت پناہی نہ کریں یہ جذبات تبھی پیدا ہوں گے۔

جب اخلاقی سماجی تعلیم وتربیت کا نظم کیاجائے گا مگر عصری تعلیم گاہیں ان علوم سے یکسر خالی ہیں ان میں صرف موضوعاتی نصاب شامل ہے یہی وجہ ہے کہ معاشرتی اخلاقی خرابیاں عروج پر ہیں، ان تمام علوم کا سرچشمہ دراصل دینی تعلیمات میں موجود ہے جس کو مذکورہ تعلیمی ادارے قبول نہیں کر سکتے بہر کیف اہلِ اسلام تو ان باتوں پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں اور اپنے آپ کو سدھار سکتے ہیں۔

 M.A.TABASSUM

M.A.TABASSUM

تحریر : ایم اے تبسم (لاہور)
مرکزی صدر،کالمسٹ کونسل آف پاکستان”CCP”
email: matabassum81@gmail.com, 0300-4709102