جنوبی کوریا نے اپنی سابق صدر گن ہے کو معافی دے دی

Park Geun-hye

Park Geun-hye

جنوبی کوریا (اصل میڈیا ڈیسک) جنوبی کوریا کی سابق صدر پارک گون ہے ایک کرپشن اسکینڈل میں سزا پانے کے بعد 20 برس قید کی سزا کاٹ رہی تھیں۔ اس فیصلے سے جنوبی کوریا نے مارچ 2022 کے انتخابات سے قبل “سماجی تنازعات کو ختم کرنے” کی کوشش کی ہے۔

جنوبی کوریا کی وزارت انصاف نے 24 دسمبر جمعے کے روز بتایا کہ ملک کے صدر مون جائے نے سابق صدر پارک گن ہے کو معاف کر دیا ہے۔ پارک کو کرپشن کے الزام میں 20 برس سے بھی زیادہ کی سزا سنائی گئی تھی اور وہ قید کی سزا کاٹ رہی تھیں۔

جنوبی کوریا کی پہلی منتخب خاتون رہنما پارک ملک کے سابق آمر پارک چنگ ہی کی بیٹی ہیں۔ کرپشن کے الزامات کے تحت 69 سالہ پارک گن ہے کا سن 2017 میں مواخذہ کر دیا گيا تھا اور پھر 2018 میں طاقت کے بے جا استعمال اور جبر و ظلم کرنے کے الزام میں انہیں سزا سنائی گئی تھی۔

لیکن پارک گن ہے کے پیشرو رہنما، لی میونگ باک، جو بدعنوانی کے الزامات میں جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں، کو معاف نہیں کیا گیا ہے۔

پارک کو معاف کیوں کیا گیا؟
جنوبی کوریا کی وزیر انصاف پارک بیوم کی نے کہا کہ “سماجی انتشار کے زخموں کو بھرنے اور مقامی کمیونٹی کی بحالی کے لیے سابق صدر کو معافی دی گئی ہے۔” حزب اختلاف کی جماعت ‘پیپلز پاور پارٹی’ کے حامی اور اس کے رہنما آئندہ مارچ میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل پارک کو معاف کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

آئندہ مارچ میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں حکمراں ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما لی جے میونگ اور پیپلز پاور کے ممکنہ امیدوار یون سک یول کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے اور اب تک دونوں کو تقریبا ایک جیسی حمایت حاصل ہے۔

پارک کو قید کیوں کیا گيا تھا؟
پارک گن ہے 20 برس قید کی سزا کاٹ رہی تھیں اور اسی برس جنوری میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے بھی اس سزا کو برقرار رکھا تھا۔ انہیں ایک وسیع پیمانے کے اسکینڈل کے بعد بدعنوانی کے الزام کے تحت 2017 میں عہدے سے ہٹنے پر مجبور کر دیا گيا تھا۔

وہ اپنے ملک میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والی پہلی ایسی خاتون رہنما تھیں جنہیں صدارتی عہدے سے زبردستی ہٹا دیا گیا تھا۔ جیل کے دوران ہی اس برس کم سے کم تین بار کندھے اور کمر کے نچلے حصے میں شدید درد کے سبب انہیں اسپتال میں بھی داخل کرانا پڑا تھا۔

پارک گن ہے کو اپنی ایک قریبی دوست اور معتمد چوئی سون سِل کے ساتھ ملی بھگت سے ملک کے کئی سرکردہ کاروباری اداروں سے رقوم بٹورنے کا قصوروار ٹھہرایا گيا تھا۔ ان پر اپنی اس دوست کو ریاستی معاملات میں مداخلت کی اجازت دینے کا بھی الزام تھا۔

جنوبی کوریا کی انٹیلیجنس ایجنسی کے بجٹ سے غیر قانونی طور پر رقوم حاصل کرنے کے الزام میں بھی ان کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ اس بدعنوانی اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد مہینوں تک سڑکوں پر بڑے پیمانے پر احتجاج کا آغاز ہو گيا تھا۔ اسی معاملے میں سام سنگ الیکٹرانکس سمیت دو بڑے اداروں کے سربراہان بھی گرفتاری ہوئی تھی۔