شام کے صدارتی انتخابات پر مغربی ممالک کی شدید نکتہ چینی

Bashar al-Assad

Bashar al-Assad

شام (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا اور جرمنی سمیت متعدد یورپی ممالک نے شام میں ہونے والے ”جعلی انتخابات” کو شرمناک قرار دیا ہے۔

خانہ جنگی سے دو چار ملک شام میں 26 مئی بدھ کے روز صدارتی انتخابات کرائے جا رہے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی نے اس کی شدید الفاظ میں نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ یہ انتخابات نہ تو آزاد ہیں اور نہ ہی منصفانہ۔ مغربی ممالک کا دعوی ہے ان جعلی انتخابات کا اہتمام خود صدر بشار الاسد نے کیا ہے اور اس طرح ایک بار پھر سے انہیں کی جیت بھی یقینی ہے۔ نتائج کا اعلان جمعہ کے روز کیا جائے گا۔

ان مغربی ممالک کے وزارئے خارجہ نے 25 مئی منگل کے روز ایک مشترکہ بیان میں کہا، ”ہم اسد حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 میں بیان کردہ فریم ورک سے باہر انتخابات کے انعقاد کے فیصلے کی مذمت کرتے ہیں، اور ہم سول سوسائٹی کی تنظیموں اور شام کی حزب اختلاف کی جماعتوں سمیت ان تمام شامی باشندوں کی آوازوں کی حمایت کرتے ہیں، جنہوں نے اس انتخابی عمل کو ناجائز قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔”

ان ممالک کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر اعلی معیار کی شفافیت اور جوابدہی طے کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ یہ انتخابات اقوام متحدہ کی نگرانی میں کرائے جاتے۔ اس مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ووٹنگ کے عمل میں شام سے باہر مقیم شامی پناہ گزینوں سمیت تمام شامی باشندوں کی شرکت ہونی چاہیے تھی۔

شام کے موجودہ قانون کے مطابق بیرونی ممالک میں مقیم صرف انہیں شامی باشندوں کو ووٹ کا حق حاصل ہے جو شام کے منظور شدہ پاسپورٹ پر امیگریشن حکام کی مہر کے ساتھ باہر گئے ہوں۔ اس کے تحت ان شامی باشندوں کو ووٹ کا حق حاصل نہیں ہے جو خانہ جنگی کے سبب ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے، ”ان عناصر کے بغیر، یہ جعلی انتخاب سیاسی تصفیے کی طرف پیش رفت کی نمائندگی نہیں کرتے۔”ہم بین الاقوامی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اسد حکومت کی اس کوشش کو بلا کسی شرط کے مستر کر دے جس کا مقصد انسانی حقوق کی پامالیوں کے خاتمہ کیے بغیر اور سیاسی تنازعے کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی با معنی شمولیت کے بغیر اقتدار پر دوبارہ قبضہ کرنا ہے۔”

ان صدارتی انتخابات کے لیے صدر بشار الاسد کے علاوہ انسانی حقوق کی ایک تنظیم ‘عرب آرگنائیزیشن فار ہیومن رائٹس’ کے سربراہ محمد احمد میری اور ایک سابق وزیر عبداللہ سلّوم بھی صدارتی امیدوار کے طور پر میدان میں ہیں۔ صدارتی انتخابات کے امیدوار کے لیے پیدائشی طور پر شام کا شہری ہونا اور چالیس برس کی عمر کا ہونا لازمی ہے۔ امیدوار کو دوہری شہریت رکھنے کی اجازت کے ساتھ ہی بیرونی ملک کی شریک حیات رکھنے کی بھی اجازت ہے۔ ایک شرط یہ بھی کہ امید وار انتخابات سے قبل تک شام میں دس برس سے مقیم رہا ہو۔

شامی صدر بشار الاسد کی مخالفت کرنے والے شامی گروپوں نے ان انتخابات کو غیر قانونی بتاتے ہوئے اس پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ شامی حزب اختلاف ‘سیریئن آئینی کمیٹی’ کے ایک رہنما ہادی البہارا نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی سے بات چیت میں ان انتخابات کو غیر قانونی بتایا۔

ان کا کہنا تھا، ”فی الحال ایسا کوئی محفوظ اور غیر جانبدار ماحول نہیں ہے جو تمام شامی باشندوں کوان کے ووٹ ڈالنے کے حق کا استعمال کرنے میں انہیں اس کا اہل بنائے۔”

ترکی میں موجود شامی حزب اختلاف کے ایک دیگر گروپ ‘دی سیریئن نیشنل کونسل’ نے بھی اس انتخاب کو مستر کر دیا ہے۔ اس گروپ کا کہنا ہے، ” شام میں واحد قابل قبول انتخابات وہی ہوں گے جس میں جنگی مجرم بشار الاسد حصہ نہیں لے گا۔”

شام میں سن 2011 سے ہی خانہ جنگی کا ماحول ہے جہاں عرب بہاریہ کے بعد سے ہی صدر بشار الاسد کے حامی اور جمہوریت نواز گروپ ان کی فوج سے بر سر پیکار ہیں۔ حزب اختلاف کے اس گروپ میں بعض جہادی تنظیمیں بھی شامل ہیں جن کی مدد سے باغی گروپوں نے ابتدا میں حمس اور حلب جیسے بڑے علاقوں پر قبضہ بھی کر لیا تھا۔

لیکن روسی افواج کی مدد سے اسد کی فوج نے اب ان بیشتر علاقوں پر اپنا کنٹرل دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔ حزب اختلاف کے کنٹرول میں اب صرف شام کا شمالی علاقہ ادلب بچا ہے۔ اس لڑائی میں کئی لاکھ شامی اب تک ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ دسیوں لاکھ بے گھر ہوئے ہیں۔

بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کے کے جانشین ہیں جن سے انہیں 2000 میں اقتدار حاصل ہوا تھا۔ بہار عرب کے آغاز کے بعد سے ہی اسد نے حزب اختلاف کے ساتھ بہت ہی سخت رویہ اپنا رکھا ہے اور انہیں دہشت گرد بتا تے رہے ہیں۔