سسٹم کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے

Parliament

Parliament

پارلیمنٹ میں بیٹھی تمام سیاسی جماعتیں اگر کہیں متفق ہیں تو وہ صرف اِس بات پر کہ موجودہ پالیمنٹ کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے، خواہ کچھ بھی ہو حکومت کا ساتھ دیں گے اچھی بات ہے، کہیں تو متفق ہوئے ہیں کاش کہ یہ اسی طرح کالا باغ ڈیم پر بھی متفق ہوںکہ اُس کی تعمیر ہو سکے، جاری دونوں ایوانوں کے اجلاس میں انتہائی جذباتی تقریر کرتے ہوئے پی پی پی کے سینیٹر جناب رضا ربانی نے کہا کہ دھاندلی ہوئی تاہم سسٹم کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا (کیونکہ پی پی پی کی حیات بھی اسی کرم خردسسٹم میں ہے )انہوں نے کہا بھٹو کا عدالتی قتل ہوأ۔

بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا سسٹم کے اندر اہتے ہوئے سسٹم کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا اور کہا پاکستان کھپے کھپے ،جنگ ابھی باقی ہے پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے، اگر جمہوریت کو ڈی ریل کیا گیا تو خطرہ آئین کو نہیں بلکہ وفاق کو ہے آمریت سے جمہویت تک کا سفر انتہائی تکلیف دہ ہے ،اگر پارلیمنٹ صحیح کام کرتی توعوام حفاظت کے لئے نکل آتے مگر اب عوام لا تعلق ہیں او ر اگر حکومت بہتر کار کردگی دکھاتی تو بھی عوام دھرنے کے خلاف نکل آتے مگر ….. !!(انکی تقریر اور کتنی دیر یک جاری رہی سُن نہ سکا کہ کیا کیا کہا ،بد قسمتی سے ،رات ڈیڑھ بجے تین دن پہلے لگایا گیانیا ٹرانسفارمرٹھس کر گیا،دن میں جتنی بیٹری تھی اس سے اتنی ہی تقریر سن پایا پھر شام چھ بجے بجلی آئی کہ یہ خدا کی بستی ہے اس لئے عذاب میں ہیں بتی ملتی نہیں مگر بل ہزاروں میں…..) ہاں تو وہ کہہ رہے تھے کہ حکومت کی کار کردگی بہتر ہوتی…..میرا خیال ہے۔

ربانی صاحب چارج شیٹ کرنے کہ باوجودکرپٹ حکمرانوں اور متعفن جمہوریت کے محافظ کا کردار ادا کر رہے ہیں ،جب اس بد بو دار نظام جمہوریت نے قوم کو دھن ،دھونس اور دھاندلی کا تحفہ دیا ، اوراگر سچ میں مصلحت کی امیزش ہو جائے تو پھر یہ سچ بھی مبالغہ ہو جاتا ہے اور سچ تلاش کرنا مشکل ہی ناممکن ہو جاتا ہے اور جو اسکے خلاف آواز اٹھائے انہیں آمریت کے علمبردار کہا جاتا ہے ،اور الزام یہ دیا جاتا ہے کہ یہ لوگ کسی ایجنڈے پر متعفن جمہوریت اور کرم خورد نظام کو ڈی ریل کرنا چاہتے ہیں۔

Elections

Elections

در اصل یہ لوگ اسی جمہوری نظام کے پروردہ ہیں اور اسی میں زندہ رہنا چاہتے ہیں ،اگر گندگی کے کیڑے کو گندگی سے نکال دیا جائے تو زندہ نہیں رہ سکتا … عجب یہ تماشہ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ عمران کو فوج کی پشت پناہی حاصل یہ کہہ کر عمران اور فوج پر بد ترین الزام ہے جبکہ فوج اس وقت قطعی غیر جاندار ہے، اور طاہر القادری کسی خاص ایجنڈے پر آئے ہیں جبکہ اِن دونوں کے موقف میں خاصہ وزن ہے کہ صحیح اور شفاف انتخابات کرائے جانے چاہیں مگر موجودہ کرپٹ نظام میں ایسا ممکن نہیں ،جب تک کہ وسیع پیمانے پر انتخابی اصلاحات نہیں کی جاتیں ،عجب تماشہ تو یہ بھی ہے کہ پی پی پی سینیٹر حالات واقعات پر گہری نظر رکھنے والے سینئر پارلیمنٹیرین اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ دھاندلی اور کرپشن کے حوالہ سے عمران خان کے الزامات درست اور وزنی …..مگرہم اُس کا ساتھ نہیں دے سکتے ہم میاں نواز شریف کے ساتھ ہیں ،عوام کی اکثریت بھی عمران خان کے الزامات کی حمائت کرتی اور ھکومتی موقف کو مسترد کرتی ہے ،مگر انکی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں کرپٹ نظام کی پیداوار کا پاررلیمنٹ پر قبضہ ہے اور سب میاں نواز شریف اور کرپٹ حکمرانوں کے ساتھ ہیں ،رضا ربانی بھی کہتے ہیں کہ حکومت کی کاکردگی مایوس کن رہی لیکن پھر بھی چاپلوس مصاحب اور موقع پرست حلیف کندھے سے کندھا ملائے کھڑے اور حکومت کی صفائی دے رہے ہیںکہ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے ،اور کہ حکومت کوپانچ سال پورے کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔

اِس پر مستزاد کہ شاہ پرستوں کی بے بنیاد افواہیں اسی لئے تو عوام لاتعلق ہے … یہاں یہ اہم سوال سامنے آتا ہے کہ کیا ملک کے بد نصیب عوام جو بے روزگاری ،مہنگائی ،کرپشن کہ ان عفریت کی گرفت میں بری طرح کراہ رہا ہے اِس جاگیرداری اور موروثی نظام حکومت سے آزاد ہو سکیں گے اور ملک اُس دور کی طرف بڑھے گا جہاں ایماندار اور محب وطن ماہرین کی حکمرانی ہو اور وہ عوام کو غربت کے اندھیروں سے نکال سکیں اور مساوات کا نظام ہو کہ ہر شہری کو وہ کچھ آسانی سے ملے جو اُس کا بنیادی حق اور ضرورت ہے ،مگر اس عوام کی بد قسمتی ہے کہ ایسا کچھ نظر نہیں آتا کہ یہ لٹیرے ایسے وقت میں فوراً اکٹھے ہو جاتے ہیں کہ اس کرپٹ نظام کوبچا لیں، رضا ربانی اسمبلی فورم پر یہ کہتے ہیں کہ ہم نے کہا کہ دھاندلی ہوئی پر ہم خاموش رہے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اُن کی تقریر اُنکے ضمیر کی آوازتھی یا پھر مصلحت کی امیزش … آواز تو ضمیر کی تھی مگر اس میں مصلحت کا تڑکا لگا دیا کہ کل …. کو یہی تو اُنہیں بھی کرنا ہے دیگر تانگا پرٹیاں بھی یہی راگ الاپ رہی ہیں کہ سسٹم کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔

کس نے کہا کہ سسٹم ڈی ریل کریں گے انکا مطالبہ تو انتخابی اصلاحات ہیں کہ شفاف انتخابات ہوں نہ کہ صرف مخصوص طبقہ ہی اقتدار پر قابض رہے وہ موروثی بادشاہت کی مخافت کرتے ہیں ،پاکستان میں جمہوریت نہیں بلکہ موروثی آمریت ہے کیا موجودہ حکومت جمہوری ہے یہ نام نہاد جمہوریت ہے کابینہ میں میاں صاحب کے خاندان سے ٢٢ افراد کہے جاتے یہ جمہوریت ہے اگر اسے ہی جمہوریت کہا جائے تو پھر آمریت کیا ہوگی ؟ان نام نہاد جمہوری انتخابات کا تماشہ تو ہمیشہ سے دیکھ رہے ہیں ،جب تک مستند انتخابی اصلاحات لاگو نہیں کی جاتیں یہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا، … آج ملک تاریخ کے ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں سامنے اندھیرا ہے اور کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا ،کل کیا ہو خدا خیر کرے کہ سب …..۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: ع.م بدر سرحدی