‘طالبان کی کامیابی نے کشمیری جنگجوؤں میں امید پیدا کر دی ہے‘

Taliban

Taliban

بھارت (اصل میڈیا ڈیسک)بھارتی قیادت افغانستان پر طالبان کے قبضے سے پریشان دکھائی دیتی ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ اس سے بھارت کے زیر انتطام کشمیر میں عسکریت پسندی مزید بڑھے گی۔

لیفٹیننٹ جنرل دیپیندر سنگھ ہودا، جو شمالی بھارت کے سابقہ کمانڈر رہ چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ طالبان کی فتح کے بعد سرحد پار سے عسکریت پسند گروہ ”یقینی طور پر کشمیر میں اپنے جنگجوؤں کو بھیجیں گے۔‘‘ لیکن جنرل سنگھ کے مطابق ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا ان جنگجوؤں کی وجہ سے سکیورٹی صورتحال بہت زیادہ متاثر ہو گی یا نہیں۔

بھارتی قیادت کو پریشانی ہے کہ طالبان کے زیر قیادت افغانستان کہیں ان عسکریت پسندوں کا گڑھ نہ بن جائے، جن میں سے اکثر پاکستان کی نئی دہلی کے خلاف مہم میں مبینہ طور پر شامل ہیں۔ نئی دہلی طالبان کو پاکستان کی”پراکسی‘‘ کہہ چکا ہے۔ بھارت کی حمایت افغانستان کی سابقہ اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ تھی۔ سید صلاح الدین پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک جہادی گروہ کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا،”عنقریب بھارت بھی کشمیری جنگجوؤں کے ہاتھوں شکست خوردہ ہو جائے گا۔‘‘

بھارتی دفاعی تجزیہ کار پراوین ساوہنی کا کہنا ہے، ”طالبان کے اقتدار میں آنے سے پاکستان کی جیو پولیٹیکل اہمیت بڑھ گئی ہے اور یوں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی پوزیشن مزید مستحکم ہو جائے گی۔‘‘

افغانستان ميں سابق سوويت يونين کی افواج اور مجاہدين کے مابين سن 1979 سے لے کر سن 1989 تک جنگ جاری ہے۔ سرد جنگ کے دور ميں سوويت افواج کو شکست دينے کے ليے امريکا، برطانيہ، پاکستان، ايران، سعودی عرب، چين اور ديگر کئی ملکوں نے مجاہدين کی مدد کی۔ 1989ء ميں سوويت افواج کی واپسی کے بعد بھی مجاہدين نے صدر نجيب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے ليے مسلح کارروائياں جاری رکھيں۔

افغان طالبان کی جانب سےکہا گیا ہے کہ بھارت افغانستان میں اپنے ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری رکھ سکتا ہے لیکن طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کی جانب سےبی بی سی کو ایک انڑویو میں کہا گیا،”طالبان کے پاس یہ حق ہے کہ وہ کشمیر، بھارت یا کسی بھی اور ملک میں مسلمانوں کے لیے آواز بلند کرتے رہیں۔‘‘وہ جنگجو، جو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارت کے خلاف لڑ چکے ہیں، طالبان کے اقتدار سے انہیں ایک نئی امید ملی ہے۔ سابقہ کشمیری باغی احمد، جس نے کچھ افغان عسکریت پسندوں کو انیس سو نوے کی دہائی میں کشمیر پہنچایا تھا، کا کہنا ہے کہ وہ ”قابل جنگجو تھے۔‘‘ دو دہائیوں بعد اب احمد کا کہنا ہے کہ وہ توقع کر رہے ہیں کہ یہاں جنگی سازوسامان کی کمی کے شکار عسکریت پسندوں کو افغانستان سے اسلحہ ملے گا، ”طالبان کی کامیابی نے یہاں امید پیدا کر دی ہے۔‘‘

کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی اور مسلمانوں کے خلاف سخت پالیسیوں نے کشمیر میں عسکریت پسندی کو مزید ہوا دی ہے۔