طالبان سے خطرات لاحق: سنکیانگ میں ایک نیا چینی ملٹری کمانڈر تعینات

Chinese Military

Chinese Military

بیجنگ (اصل میڈیا ڈیسک) سنکیانگ کے علاقے میں پہلے ہی سے چین نے اپنی فوج کو بھاری تعداد میں تعینات کر رکھا ہے۔ اب اس علاقے میں بڑے پیمانے پر تعینات چینی فوج کی نگرانی لیفٹینینٹ جنرل وانگ ہائی جیانگ کریں گے۔

چین نے اپنے شورش زدہ علاقے سنکیانگ میں ایک نیا فوجی کمانڈر تعینات کیا ہے۔ چین کے اس علاقے میں حکام نے مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایک ملین سے زیادہ مسلمانوں کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے ضمن میں’ری ہیبیلیٹیشن مراکز‘ میں قید کر رکھا ہے۔

چین کے شورش زدہ علاقے سنکیانگ میں مسلم اقلیت ‘ایغور‘ نسلوں سے آباد ہے تاہم انہیں امتیازی سلوک اور جبر و استحصال کا نشانہ بنانے کا سلسلہ گزشتہ چند سالوں میں غیر معمولی حد تک بڑھا ہے۔ اس پر بہت سی عالمی تنظیموں اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم اداروں نے نکتہ چینی بھی کی ہے۔ چین کا یہ وسیع و عریض شمال مغربی علاقہ ایک حساس خطے میں واقع ہے۔ اس کی سرحدیں بہت ہی غیر مستحکم ہیں اور یہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے علاوہ پاکستان اور افغانستان سے ملتی ہیں۔ افغانستان اس وقت ایک نازک وقت سے گزر رہا ہے کیونکہ دو دہائیوں بعد اس جنگ زدہ ملک سے امریکا اور نیٹو کی فورسز کے انخلا کا کام اپنے حتمی مرحلے میں ہے۔

سنکیانگ کے علاقے میں پہلے ہی سے چین نے اپنی فوج کو بھاری تعداد میں تعینات کر رکھا ہے۔ اب اس علاقے میں بڑے پیمانے پر تعینات چینی فوج کی نگرانی لیفٹینینٹ جنرل وانگ ہائی جیانگ کریں گے۔

سنکیانگ علاقائی اسٹرٹیجک اعتبار سے چین کا نہایت اہم حصہ ہے۔ سنکیانگ کے سخت گیر موقف کے حامل کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ چن کوانگو ماضی میں تبت کے علاقے میں اپنی خدمات انجام دے چُکے ہیں۔ اس علاقے میں بھی مقامی تبتی باشندوں میں بڑے پیمانے پر پائے جانے والے حکومت مخالف جذبات کو دبانے کے لیے چین کی فوج بھاری تعداد میں تعینات رہی ہے۔ چین کو اپنے اس سرحدی محاذ پر پڑوسی ملک بھارت سے بہت زیادہ خطرات لاحق رہتے ہیں اور اسی علاقے میں چین اور بھارت کے درمیان متنازعہ سرحد بھی واقع ہے۔ گزشتہ برس اس علاقے میں بھارت اور چین کے مابین خونریز جھڑپیں ہوچُکی ہیں۔ وانگ کی اس علاقے میں ملکی فوج کے کمانڈر کی حیثیت سے تقرری غیر اعلانیہ طور پر کی گئی اور اس کی خبر دراصل سنکیانگ ملٹری ڈسٹرکٹ کے سوشل میڈیا پر فیڈ کے ذریعے عام ہوئی۔ جس میں وانگ کو بُدھ کو ایک سینیئر فوجی آفیسر کی ریٹائرمنٹ کی تقریب کی صدارت کرتے ہوئے دیکھا گیا۔چین میں ایغور نسل کے سابق مسلم حکومتی اہلکاروں کو سزائے موت

وانگ ویت نام کی جنگ کا تجربہ رکھتے ہیں۔ چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق 1980 ء کے اوائل میں ویت نام اور چین کی سرحدی جنگ کے دوران وہ ‘ایلیٹ پیپلز لبریشن آرمی یونٹ‘ میں خدمات انجام دے چُکے ہیں۔ ان کی سنکیانگ میں بطور آرمی کمانڈر تقرری اس بات کا ثبوت ہے کہ چین اپنی اس سرحد پر متعدد خدشات سے دوچار ہے اور اس کے سدباب کے لیے ممکنہ اقدامات کر رہا ہے۔ چین کے لیے افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے بعد کی علاقائی صورتحال سب سے بڑا چیلنج نظر آ رہی ہے۔ بیجنگ کو اپنی اس سرحد پر دوبارہ سے مسلم عسکریت پسندی کے فروغ کا اندیشہ ہے۔ چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے گزشتہ ہفتے طالبان کے ایک وفد کی میزبانی کی تھی۔ واضح رہے کہ طالبان افغانستان میں امریکی فوجی انخلا کے سلسلے کے آغاز سے ہی تیزی سے اپنے علاقائی پھیلاؤ جاری رکھے ہوئے ہیں اور بہت سے علاقوں کو اپنے قبضے میں لے بھی چُکے ہیں اور حالیہ دنوں میں چند بڑے افغان شہروں میں لڑائی میں مصروف ہیں۔

چینی وزیر خارجہ وانگ نے امید ظاہر کی ہے کہ طالبان امن مذاکرات پر توجہ مرکوز رکھیں گے اور تمام نسلی دھڑوں اور گروپوں کے مابین اتحاد اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کام کریں گے۔ وانگ کا مزید کہنا تھا،” بیجنگ کو امید ہے کہ طالبان پُر امن طریقے سے مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ کے ساتھ نمٹیں گے۔‘‘ واضح رہے کہ چین کا یہ دعویٰ ہے کہ ‘مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ‘ ای ٹی آئی ایم وہ گروپ ہے جو سنکیانگ کی آزادی کی تحریک کی پشت پناہی کر رہا ہے۔

غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق کئی سو جنگجوؤں، جن کا ای ٹی آئی ایم کے ساتھ اتحاد ہے، شمال مشرقی افغانستان میں موجود ہیں۔ جبکہ بہت سے ماہرین اس بارے میں شبہ رکھتے ہیں کہ یہ نام نہاد گروپ فعال شکل میں کوئی وجود رکھتا ہے۔