دہشتگردی کیا لزام میں11بچوں کی گرفتاری کانیارخ

Terrorism

Terrorism

حا فظ آباد(جیوڈٰسیک)حا فظ آباد سینو سال قبل اغوا ہونے والے کمسن ابوبکر کو دہشت گردوں نے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی جسے کوئٹہ پولیس نے ناکام بنادیا ۔ بوڑھی والدہ رو رو کر معصوم بیٹے کی بے گناہی کی دہائی دے رہی ہے۔

حافظ آباد کے نواحی علاقے ساگر کلاں کے رہائشی ریٹائرڈ فوجی اہلکارنذیر کے دو بیٹے 9 سال قبل اغوا ہوئے جس کا مقدمہ تھانہ حافظ آباد میں درج ہے ۔ بیٹوں کی بد نصیب ماں روزانہ انکی واپسی کی راہ تکتی رہی کہ اچانک اسے ٹی وی کے ذریعے ایک بیٹے ابوبکر کی زندہ ہونے کی اطلاع ملی جسے دہشتگرد ورغلا کرمذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہ رہے تھے۔

تاہم پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا۔ اسکی والدہ اپنے بچوں کے کپڑے اور تصاویر تھامے آنکھوں میں آنسو لئے اس کی واپسی کی منتظر ہے ۔ اسکا کہنا ہے کہ اسکے بچے بے گناہ ہیں حکومت انکے بچوں کو جلد حوالے کرے ۔ ابو بکر کے بھائی بھی کچھ اسی طرح کی ہی خواہش کا اظہار کرتے ہیں اور آنکھوں میں آنسو لئے بھائی کی بے گناہی کا اصرار کر رہے ہیں ۔

نہ جانے ابوبکر اور فیصل جیسے کتنے کمسن بچے کم عمری میں ہی اغوا ہوکر دہشتگردوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں ۔ ان کی بازیابی کے مناسب اقدامات کئے جائیں تودہشتگردوں کی کمر توڑی جاسکتی ہے۔

کوئٹہ میں دہشت گردی کے الزام میں گیارہ کم عمر بچوں کی گرفتاری کے معاملے نے
ایک اور رخ اختیارکرلیا ہے۔ گزشتہ روز سی سی پی او کوئٹہ نے پریس کانفرنس میں گیارہ کم عمر بچوں پر الزام عائد کیا تھا کہ یہ بم دھماکوں سمیت سنگین جرائم میں ملوث ہیں جنہیں کوئٹہ کے نواحی علاقے کلی خلی میں چھاپہ مار کر گرفتارکیا گیا۔

بچوں کی گرفتاری کے معاملے نے اس وقت دوسرا رخ اختیار کیا جب جمعرات کو ان بچوں کے لواحقین نے کوئٹہ پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا انہوں نے الزام لگایاکہ ہمارے پیاروں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے مختلف اوقات میں گھروں سے گرفتار کیا ۔ خواتین اور بچے چیختے چلاتے اور آنسو بہاتے رہے انہو ں نے ان تمام بچوں کو بے قصور قراردیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ انہیں رہا کیا جائے۔ اس تمام صورتحال میں ذمہ داری اب کوئٹہ پولیس کی بنتی ہے کہ وہ حقیقت سامنے لانے کے لئے کیا اقدامات کرتی ہے۔