تھرپارکر میں حکومتی بے حسی

Tharparkar

Tharparkar

تھرپارکر کے علاقے میں خشک سالی و قحط کی وجہ سے جاں بحق ہونے والی بچوں کی تعداد 200 سے بڑھ چکی ہے۔ گذشتہ ساڑھے تین ماہ میں ہونے والی اموات کی بڑی وجہ غذائی قلت ہے۔ غذائی قلت کی وجہ سے مریض بچوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا۔ ہسپتال میں بیڈکم پڑ گئے ہیں اور اب ایک ایک بیڈ پر دو دو، تین تین مریض بچے نظر آتے ہیں۔ تھرپارکر کے مختلف ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی مطلوبہ تعداد بھی نہیں ہے جبکہ ایمرجنسی ہونے کے باوجود تحصیل ہسپتالوں میں بھی کسی بھی سرکاری ڈاکٹر کو تعینات نہیں کیا گیا۔

ہسپتالوں میں ادویات کی بھی شدید قلت ہے جبکہ تھرپارکر کے متعدد علاقوں میں گیسٹرو کی وباء بھی پھوٹ پڑی ہے۔تھر کے دوردراز گوٹھوں سے متاثرین نقل مکانی کر رہے ہیں۔ مویشیوں کے لئے گوداموں میں چارہ تو موجود ہے لیکن اسے متاثرین میں تقسیم نہیں کیا جا رہا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ یہ صورتحال ہونے کے باوجود حکومت سندھ اور اس کے کسی افسر کی کوتاہی، غفلت یا نااہلی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اس سلسلے میںان کا یہ کہنا ہے کہ اگر خشک سالی اورقحط کے اثرات سے اموات ہوتیں تو 10 سال سے اوپر کے لوگ بھی مرتے۔حکومت کی بے حسی کی وجہ سے سندھ ہائی کورٹ کو متعلقہ اداروں کی غفلت کا ازخود نوٹس لینا پڑا۔اپنی پہلی سماعت میں عدالت نے استفسار کیا کہ جب عالمی ادارے نے 5 سال پہلے خشک سالی سے خبردار کیاتو سندھ حکومت نے کیا اقدامات کئے۔جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ اصلاح کیلئے تباہی کا انتظار کیوں کیا جاتا ہے؟ عدالت آج فائل بند کردے، حکومتی اقدامات صفر ہوجائیں گے۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ گزشتہ پیشی پر اموات کی وجہ بیماریاں بتائی گئی آج غذائی قلت سے اموات کا اعتراف کیا گیا۔

ایک اور سماعت میں سندھ ہائی کورٹ نے متاثرہ علاقوں میں صوبائی حکومت کی جانب سے ناکامی کے بعد انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ آرمی ایوی ایشن اور دیگر اداروں سے بذریعہ ہوائی جہاز تقریبا بائیس ہزار سات سو باون خاندانوں کو غذائی اشیاء اور دیگر سامان پہنچانے کے لیے درخواست کریں۔عدالت نے تھرپارکر میں جاری ریلیف سرگرمیوں کا جائزہ لینے کیلیے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھرپارکر کی سربراہی میں3رکنی کمیٹی تشکیل دے دی۔ہائی کورٹ بینچ نے بورڈ آف ریونیو اور ریلیف کمشنر کے سینیئر اراکین کی اس رپورٹ پر افسوس کا اظہار کیا جس میں اس بات کو تسلیم کیا گیا تھا کہ 22 ہزار سات سو باون خاندان اب بھی خوراک اور امداد سے محروم ہیں۔

Sindh Government

Sindh Government

چیف جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ریکارڈ سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ضلع تھرپارکر میں ہونے والی ہلاکتوں کا سبب غذائی قلت ہے۔ ایک طرف تو تھرپارکر میں یہ صورت حال ہے لیکن دوسری طرف سندھ کے اراکین اسمبلی کی سنجیدگی کا یہ حال ہے کہ وہ ایوان میں پھلوں کی اقسام پر بحث کرتے رہے۔ 28مارچ کو سندھ اسمبلی کے ہونے والے اجلاس میں اراکین اسمبلی ایک گھنٹے سے زائد وقت آم، کھجور،اچار اورفروٹ کی مختلف اقسام پر بحث کرتے رہے۔ مذکورہ اجلاس میں جب ایک معزز رکن نے امریکیوں کو آم کھلانے کا مطالبہ کیا تو اس ایوان میں آموں کی اقسام پر بحث کی جانے لگی۔

اپوزیشن اراکین نے آموں کی اقسام گنوائیں، منظور وسان نے کھجور، سید مراد علی شاہ نے آم ، نثارکھوڑو نے امرود جبکہ اسپیکر آغا سراج درانی نے اچار کھلانے کی پیش کش کر دی۔ اس اجلاس کے ایجنڈے میں عوامی مفاد کے کئی اہم مسائل بھی شامل تھے جنہیں یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔جب وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اپنی کابینہ اور وفد کے ساتھ تھر کی عوام کی صورتحال کا جائزہ لینے پہنچے تو وہ مرغن غذائوں سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔ قحط زدہ علاقے کے دوران مذکورہ بالاافراد کو فرائی مچھلی، تکے، بریانی، فنگر فش ، ملائی بوٹی، کوفتے اور گھی سے چپڑی روٹیاں پیش کی گئیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کیلئے سرکٹ ہائوس کے ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں کھانے کا اہتمام جبکہ ان کے ساتھ جانے والے افراد کیلئے باہر خوبصورتی سے آراستہ شامیانے میں بوفے کا اہتمام تھا۔

جبکہ وزیراعظم نوازشریف کے لئے بھی اسی قسم کے انواع واقسام کے کھانوں کا اہتمام کیا گیا تھا جسے وزیراعظم نے کھانے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ وسائل متاثرہ عوام پر خرچ کئے جائیں اور یہ کھانا بھی غریب اور قحط زدہ لوگوں کو کھلایا جائے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ حافظ سعید پر اقوام متحدہ نے پابندی عائد کی مگر وہ کام کررہے ہیں اور پنجاب حکومت اپنے بجٹ سے جماعت الدعوة کو 61 ملین روپے دیئے ہیں۔ جماعة الدعوة کا گذشتہ چند سالوں میں ملک میں آنے والی قدرتی آفات میں لازوال کردار ہے۔ ملک میں بھارتی آبی دہشت گردی کی وجہ سے سیلاب آئے یا گیسٹرو کی وبا پھیلے، تعلیم وصحت کے منصوبے ہوں یا بلوچستان سندھ میں واٹر پراجیکٹس ہر جگہ جماعة الدعوة نمایاں نظر آتی ہے۔ جماعة الدعوة ہی وہ جماعت تھی جو 2005ء میں آنے والے تباہ کن زلزلے میں سب سے پہلے پہنچی اور سب سے زیادہ کام کیا ۔ اس بات کی گواہی نہ صرف اپنوں نے دی بلکہ غیر ملکی ذرائع ابلاغ بھی اس معاملے میں جماعة الدعوة کی صلاحیتوں کے معترف نظر آئے۔ مختلف سماجی تنظیموں نے تھر میں قائم اپنے امدادی کیمپ بند کردیے ہیں جبکہ پاک فوج ، نیوی، فلاح انسانیت فاونڈیشن، بحریہ ٹاون ،ہلال احمر اور الخدمت فائونڈیشن جیسی تنظیمیں اب بھی خدمت خلق میں مصروف ہیں۔

Jamat Ud Dawa

Jamat Ud Dawa

جماعت الدعوة کی فلاح انسانیت فائونڈیشن گذشتہ تین سالوں سے تھرپارکر میں ریلیف کا کام کر رہی ہے۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن نے تھرپارکر میں سینکڑوں کنویں تعمیر ،ہندو اکثریتی علاقوں میں ریلیف کیمپ قائم کئے ہیں۔ایف آئی ایف کی طرف سے متاثرہ ہزاروں خاندانوں میں خشک راشن تقسیم کیا جا چکا ہے۔ میڈیکل کیمپوں میں ہزاروں مریضوں کا مفت علاج معالجہ کیا جا چکا ہے جبکہ موبائل میڈیکل کیمپوں کے ذریعہ دوردراز گوٹھوں میں متاثرین کو طبی سہولیات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ تھرپارکر میں اس وقت جماعة الدعوة کے علاوہ پاک فوج، نیوی، بحریہ فائونڈیشن اور الخدمت بھی مصروف خدمت ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تھرپارکر کے بنیادی مسائل حل کرنے کیلئے مستقل طور پر منصوبہ بندی کی جائے۔ مقامی لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں۔ روزگار کیلئے مواقع دیے جائیں۔ ایسے اقدامات کئے جائیں کہ تھر میں دوبارہ غذائی قلت اور قحط پیدا نہ ہو۔ گندم کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔

تحریر: محمد راشد تبسم