غلامی کی نشانی

Slavery

Slavery

تحریر : نزہت جہاں ناز

قارئین!۔۔۔ ہمارا معاشرہ اگر آج بھی غلامی کی زنجیروں سے خود کو آزاد نہیں کرپایا تو یقیناً یہ اس کی اپنی سوچ، اپنی فکر اور اپنے خیال کے زاویے ہیں کہ جن کے باعث تمام تر آزادی کے باوجود وہ خود کو پابندِ سلاسِل پاتا ہے۔

اگر ہم اپنے اس معاشرے کا سرسری سا جائزہ لیں تو یہاں ایک طرف تو ہماری عوام ہے جو ظاہری ہیت و صورت میں تو آزاد ہے مگر جس کی ذہنی و قلبی قوتیں سلب ہوچکی ہیں وہ سنتی ہے تو دوسروں کے کانوں سے ، بولتی ہے تو اوروں کی زبان سے اور دیکھتی ہے تو وہ جو اسے دوسرے دکھانا چاہیں یعنی اس کی اپنی کوئی سوچ یا فکر ہے ہی نہیں اور اس کی یہ حالت محض زبان کے معاملے ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے بیشتر معاملات میں ہے جن میں مذہبی اور تہذیبی تصورات بھی شامل ہیں۔۔۔ دوسری طرف ہیں ہمارے وہ حکمران جنھوں نے اپنی عیاشی اور نفسانی خواہشات کے بحرِ عمیق میں ڈوب کر قوم کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا۔ اب ایسی صورت حال میں یہ حکمران بہت آرام سے عوام پر راج کرسکتے ہیں اور اپنے کسی عمل کے لیے اس کے سامنے جوابدہ بھی نہیں ہوتے۔ ہاں مگر خیال رہے کہ حکمران بھی عوام ہی میں سے نکل کر منظرِ عام پر آتے ہیں لہذا جب تک ہر انسان انفرادی طور پر اپنی کردارسازی نہیں کرتا ، مکافاتِ عمل کے نتیجے میں اس پر ایسے ہی حکمران مسلط کیے جاتے رہیں گے۔

ان حکمرانوں نے جہاں عوام پر اور مظالم ڈھائے ، ان ہی میں سے ایک ، نظامِ تعلیم کے سلسلے میں ، غیر ذمہ دارانہ رویہ ، اپنانا بھی ہے کہ جس کے باعث اپنی قومی زبان کو عمومی سطح پر ذریعہء تعلیم نہ بنا کر ، انھوں نے ملک میں دو مختلف طبقات کو جنم دے دیا ہے ، جس کی وجہ سے نہ تو نظامِ تعلیم ہی مؤثر اور فعّال بن سکا اور نہ ہی معیارِ تعلیم کی آبیاری ہوسکی۔

ہماری قومی زبان اردو اگر ابتداء ہی سے وطن میں موجود تمام تر تعلیمی اداروں میں یکساں طور پر رائج ہو کر ذریعہء تعلیم و تدریس بنتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ہمارے وطن کی بیشتر آبادی جہالت کے اندھیروں سے نکل کر علم کی روشنی سے منور ہوتی اور ہمارا یہ وطن بھی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوتا۔اب یہ اور بات ہے کہ ہماری قوم کے اس عمومی زوال کا باعث محض اک زبانِ غیر ہی نہیں بلکہ اور کئی عوامل بھی ہیں جو فی الحال زیرِ بحث نہیں۔

پھر اردو کے اس زوال کی ایک وجہ رومن اردو بھی بن گئی ہے۔ ہماری نئی نسل چاہے انگریزی کی استعداد حاصل کرے یا نہ کرے مگر اردو کو انگریزی اسکرپٹ میں لکھ کر اردو کی رہی سہی پہچان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی۔ نتیجتاً وہ فی زمانہ اردو سے بھی اتنی ہی نابلد ہوچکی ہے جتنی کہ انگریزی سے۔ اب نہ ہی وہ اردو زبان میں میسّر علم کے ذخائر سے آشنا ہوسکتی ہے نہ ہی ان سے مستفید!۔۔۔ایسا غیر علمی و غیر تحقیقی رویّہ ہماری قوم کو مزید جہالت کے اندھیروں میں دھکیلتا چلا جا رہا ہے جو نہ صرف ہمارے آج کے لیے نقصاندہ ہے بلکہ آنے والے کل کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہے کیونکہ غلامی کی سب سے بڑی وجہ ہی جہالت ہوتی ہے۔ ایک مخصوص طبقہ اگر غیر اقوام کی ٹیکنالوجی سے مستفید ہوکر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرے جبکہ عمومی طور پر عوام غربت کی تاریکیوں سے باہر نہ آسکے تو ہم کیسے ایک تابناک مستقبل کے خواب دیکھ سکتے ہیں اور کیسے خود کو ان غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرسکتے ہیں؟

اردو کو ہر سطح پر رائج و قائم کرنے کے لیے ماشاءاللہ جتنی تنظیمیں سرگرمِ عمل ہیں ، ان شاء اللہ امید ہے کہ ایک روز ان کوششوں سے بہترین نتائج برآمد ہوں گے۔

مگر خیال رہے کہ اپنی قومی زباں کی ترویج و ترقی اک علٰیحدہ عمل ہے اور تنگ نظری سے کام لینا اک اور فعل۔۔۔
اردو کو بحیثیت قومی زباں جو اہمیت حاصل ہے یقیناً کسی اور زباں کو نہیں اور پھر جو نرم گفتاری و شیریں لب و لہجہ ہمیں اردو زباں عطا کرتی ہے کوئی اور زباں اس کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے دلوں میں اتنی گنجائش ہی نہ پائیں کہ اور زبانوں کو بھی اس میں جگہ دے سکیں۔ اور پھر انگریزی تو وہ زباں ہے جس سے کچھ الفاظ شروع ہی سے اردو زباں نے بھی مستعار لیے ہیں ، اور یہ کوئی غیر مناسب بات بھی نہیں۔ زمانہء قدیم سے یہ ہوتا آیا ہے کہ زبانیں ایک دوسرے کی مدد سے آگے بڑھتی رہی ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں طبقاتی تفاوت کی باعث انگریزی کو لے کر قوم میں یہ منفی ردّ عمل بیدار ہُوا ہو ورنہ اگر وسیع النّظری کا مظاہرہ کیا جائے تو بہر حال یہ ایک ایسی زباں رہی ہے جو عرصہء دراز سے وطن میں رائج ہے اور ہم مکمل طور پر اس کی افادیت سے بھی انکار نہیں کرسکتے۔ نیز شعر و ادب سے تعلق رکھنے والے ایسے کئی شاعر و ادیب ہیں جنھوں نے اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی ادب کو بھی ذریعہء اظہار بنایا ہے۔ کیا وہ اپنی تخلیقات ادبی حلقوں میں شئیر کرنے کے مجاز نہیں؟ انھیں لے کر آخر وہ کہاں جائیں گے جبکہ ان کی تعلیم و تربیت بھی اِسی ملک میں ہوئی ہے۔ ہم اس حقیقت سے قطعی انکار نہیں کر سکتے کہ بہرحال انگریزی زباں ہمارے کئی شعبہ ہائے زندگی میں ہنوز زیرِ استعمال ہے!۔

علم کا تعلق بھی زباں سے پہلے قلب و ذہن اور قلم سے ہوتا ہے لہٰذا انگریزی بولنے کے لیے بھی پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں اور پڑھا لکھا ہونے کے لیے انگریزی بولنا بھی قطعی ضروری نہیں۔ ضرورت ہے تو اس بات کی کہ ہم اپنے اندر صبر ، برداشت ، اور انسانیت جیسے اوصاف کی پرورش کریں اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم رنگ و نسل ، لسانی ، صوبائی ، دینی اور مسلکی تفرقّات سے بالاتر ہو کر انسانیت کی بنیادوں پر اپنی طرزِ فکر کی تشکیلِ نو کریں اور اپنے طرزِ عمل سے اسے ثابت بھی کریں۔ یہ یقیناً اللہ کی مدد اور اس کے کلام سے استفادے کے بغیر نا ممکن ہے کیونکہ کلامِ الٰہی کی بنیاد ہی بعد از توحید کے ، تزکیہء نفس ، عدل و انصاف اور حقوق العباد پر قائم و دائم ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اہنے مسائل کا حل اس کی مدد کے بغیر تلاش بھی کریں اور منزلِ مقصود تک بھی جا پہنچیں؟۔۔۔۔

ایک طرف تو ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ ہے جو انگریزی کے استعمال کو اپنے لیے تعظیم و تکریم کا باعث سمجھتا ہے اور دوسری طرف وہ ادبی حلقہ جو انگریزی کے نام سے بھی بدکتا ہے یہ دونوں ہی شدت پسندانہ رویے ہیں۔ زبانیں ہمیشہ اقوام کے تہذیب و تمدن کی آئینہ دار ہوتی ہیں مگر ان ہی اقوام کے عروج و زوال کا موجب ہمیشہ ان کا اخلاق و کردار رہا ہے۔ اسے زندگی کی جانب ہمارا سطحی رویہ کہیے کہ ہم زبان و ادب کو لے کر تو بے حد جذباتی ہیں مگر باطنی تطہیر اور اخلاقی پاکیزگی کے معاملے میں بالکل کورے!۔۔یقیناً ہم میں ایسے بھی نیک اطوار لوگ موجود ہیں کہ جن کے دم سے دنیا رواں دواں ہے مگر ایک بے حد محدود و مستثنیٰ طبقے کے کردار و اخلاقیات سے پورے معاشرے کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا!۔۔

تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے اخلاق و کردار کی از سرِ نو تشکیل کی جائے یہ محض زبان و ادب کا مسئلہ نہیں۔ بلکہ پورے معاشرے کے ارتقاء کا معاملہ ہے جب ہم عقل و فہم اور علم و عمل کو بروئے کار لاکر خلوصِ نیت سے اپنی نسلوں کی تربیت اور کردارسازی کا فریضہ انجام دیں گے تبھی ہم دنیا میں اک مضبوط قوم بن کر ابھریں گے اور سر اٹھا کر دوسری اقوام کے مقابل کھڑے ہوسکیں گے !

جہاں تک طبقاتی فرق کی بات ہے وہ دنیا میں ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا کیوں کہ یہ خالقِ کائنات کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے اور اسے کسی بھی ایک طبقے کو دوسرے پر برتری ظاہر کرنے اور دوسرے کو احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے کے لیے نہیں بنا گیا بلکہ ہر ایک کی دوسرے سے آزمائش کے لیے مرتب کیا گیا ہے۔ ہمارے گاوں اور قصبوں میں کون سی انگریزی زباں بولی جاتی ہے مگر وڈیروں اور چودھریوں نے کیا اپنی جاگیروں اور اختیار کے بل بوتے پر غریب عوام کا چین و سکوں برباد نہیں کیا؟

بےشک ہمیں چاہیے کہ اردو کی دفتری اور آئینی حیثیت کے لیے جد و جہد کریں اسے ذریعہء تعلیم بنانے کے لیے کوششیں جاری رکھیں کیونکہ اور دیگر عوامل کی طرح یہ بھی ملک و قوم کی ترقی کا باعث ہے ہمارا قومی تشخص ہے مگر خیال رہے کہ ذریعہءِ تعلیم کے حوالے سےصرف اک زبان کی تبدیلی ہی کافی نہیں بلکہ مکمل طور پر اس پورے تعلیمی نظام کے ڈھانچے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ جب تک یہ سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی ادارے موجود رہیں گے جہاں ایک جانب کچھ طلباء سے بھاری رقوم کے بدلے اعلیٰ تعلیمیافتہ اساتذہ کی سرپرستی میں انھیں دنیا کے بہترین علمی و تحقیقی نصاب سے روشناس کیا جاتا رہے گا اور دوسری طرف باقی طلباء کو مفت تعلیمی اداروں میں کم تنخواہوں پر ملازم ایسے اساتذہ کے سپرد کیا جاتا رہے گا جو خود بھی سرکاری درسگاہوں سے پڑھ کر نکلے ہوں تو طلباء کے درمیان معیارِ تعلیم کو لے کر وہی تفریقی فضا باقی رہے گی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سارے ملک میں بنیادی تعلیم کا معیار یکساں ہو جو نئی نسل کے تمام افراد کو بنا کسی امتیاز کے اور بغیر کسی رقم کی وصولی کے فراہم کیا جائے تاکہ ملک و قوم کا ہر بچہ بنیادی علم سے بہرہ ور ہو اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے متعلق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا بھی بذاتِ خود اہل ہو۔ تبھی ہم اس ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن کی تعلیم و تدریس کو جب تک بنیادی نصاب میں لازم نہیں کیا جائے گا اخلاقی پستی ہمارے معاشرے میں یوں ہی سر چڑھ کر بولتی رہے گی۔

اکثر و بیشتر ہم زبان کے حوالے سے چین اور جاپان کی مثال دیتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اقوام اپنے مزاج میں کس قدر محنتی اور پھرتیلے ہیں۔ ہماری قوم کی طرح کاہلی ، سست روی اور عیش پسندی کا شکار نہیں۔ یہاں بھی جن طلباء نے اردو میڈیم ہوتے ہوئے بھی انتھک محنت کی انھوں نے اس کا ثمر پایا اور زندگی میں کوئی نہ کوئی اعلیٰ مقام پانے میں کامیاب ہوگئے۔

اکثر ادبی حلقوں میں انگریزی کے ساتھ جو ناروا سلوک جاری و ساری ہے وہ یقیناً بے جا ہے کیونکہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ہم نے اپنی سگی اولاد کی نشو نما کے لیے سوتیلی اولاد کو دربدر کردیا ہو۔ یہ رویہ حق و انصاف کے منافی ہے اور ادب بھی تہزیب و تمدن کا ہی ایک شاخسانہ ہے۔ اس میں اخلاق کے تمامتر اصول ملحوظِ خاطر رکھے جاتے ہیں اور یقیناً انگریزی زبان سے اردو ادب کو کوئی خوف و خطر بھی لاحق نہیں ؛ اردو کا مقام اپنی جگہ بلند ہے ایسے میں یہ تعصّبانہ رویّہ ، یہ جارحانہ سلوک اس بات کا غمّاز ہے کہ ہم کسی شدید احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں ورنہ جس طرح اور صوبائی اور علاقائی زبانیں ہماری سمجھ سے بالاتر ہوں تو ہم ان کا جواب دینے سے معذرت کرلیتے ہیں یا ایسی کوئی پوسٹ دیکھ کر اس سے صرفِ نظر کر جاتے ہیں ، اگر ہم آنکھوں سے تعصب کا چشمہ اتار کر دیکھیں تو بالکل یہی معاملہ انگریزی کے ساتھ بھی ہوگا۔۔۔

مگر ہم اتنے بے ضمیر او ر ڈھیٹ ہوچکے ہیں کہ ان ہی غیروں کی ایجاد کی ہوئی اور چیزوں سے دن رات مستفید ہوتے ہیں ، ان ہی کی محنت سے حاصل کیے ہوئے علم ، ان ہی کے تجربات اور دریافت شدہ حقائق کی بدولت ایک آرامدہ طرزِ زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور طعن و تشنیع سے بھی انھیں اور ان کی زبان کو ہی نوازتے ہیں۔ ارے اگر اتنے ہی غیرتمند ہیں تو کیوں نہیں ان کی سب چیزوں کو ٹھوکر مار دیتے مگر کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں ؟ کیا ہمیں ہمارے عیش و عشرت اس کی اجازت دیں گے ؟ اب تو عام ضرویاتِ زندگی کے لیے بھی ہم ان ہی کے محتاج ہوگئے ہیں اور اس میں ہماری سست مزاجی اور غفلت کا بڑا عمل دخل ہے۔ مگر پھر بھی ہمیں ہوش نہیں آتا نہ تو ہم اپنے آپ کو بدلنے کو تیار ہیں نہ ہی اپنے اللہ کی بات ماننے کو ! جو قوم اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی چند روزہ زندگی اور اس کی عطا کی ہوئی نعمتوں اور صلاحیتوں کی قدر نہ کرسکے اور اسے طعن و تشنیع ، لعنت و پھٹکار ، غیبت و چغلی اور الزامات و بہتان تراشی جیسے قبیح اعمال کی نذر کردے وہ زندگی میں کیا ترقی کرے گی؟

دنیا پر کی گئی مسلمانوں کی چھ سو سال پر محیط شاندار حکومت کے تاریخی اندراج کے بعد آج اس ذلت و پسپائی کا موجب بھی ہمارے اپنے اعمال ہیں جن میں مذکورہ بالا اوصاف کے علاوہ مال کی محبت سرِ فہرست ہے جس کے لیے ہم اپنے ضمیر کی تجارت سے بھی دریغ نہیں کرتے ، لہٰذا ہم اس کا الزام کسی اور کے سر دیں تو یہ ہمیں زیب نہیں دیتا۔ آج جو دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں وہ اپنی محنت اور لگن کے بل بوتے پر کر رہے ہیں۔اسی سبب سے ان کی زبان بھی آج دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کی ضرورت بن چکی ہے۔ ایسے میں اس سے دامن بچانے یا اس کی نفی کرنے کی بجائے اسے اپنے ہمراہ لے کے چلنے میں ہی علمی و عملی بہت سے فوائد پوشیدہ ہیں جو دنیاوی کاروبار کے لیے ازحد ضروری ہیں۔

تو قائین یہاں استدلالی طور پر اردو کے ادبی و تمدنی مقام کا جو تحریری جائزہ لیا گیا ہے اس کے سبب امید ہے کہ ہم سب تعصب سے بالاتر ہو کر اپنے رویے پر نظرِ ثانی کریں گے اور یاد رہے غلامی زبانوں کی ترویج و تبلیغ سے نہیں ذہنوں کی معذوری سے وجود میں آتی ہے۔ ہماری نظر ، ہمارے دل اگر سمندروں کی سی وسعت اختیار کر لیں تو وہ پانی کے قطروں سے بھی گوہرِ نایاب تشکیل دے سکتے ہیں۔۔۔۔۔

Nuzhat Jhan Ara

Nuzhat Jhan Ara

تحریر : نزہت جہاں ناز