زہریلے لوگ…تیزابی چہرے

Bakery

Bakery

ایک شخص نے اپنی تمام جمع پونجی بیکری کھولنے میں لگا دی تھی۔ اُس نے کروڑوں روپے لگا کر بہت بڑی بیکری کا افتتاح کیا مگر بیکری نہ چل سکی کیونکہ اُس کی نیت میں کھوٹ اور مال میں ملاوٹ تھی۔ ایک دِن صبح گاہکوں کے عین عروج کے وقت مالک کائونٹر پہ کھڑا تھا کچھ ہی دیر میں اندر سے سپروائزر آیا اور مالک کے کان میں سرگوشی کرنے لگا۔ مالک نے جھنجھلا کر کہا ” کیا بول رہے ہو؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ذرا کھل کر بولو” سُپر وائزر کے چہرے پر پریشانی کے آثار واضح تھے اور وہ ذرا دھیمی آواز میں کِسی راز داں کی طرح مخاطب ہوا ” سر وہ… ایک غلطی ہو گئی ہے مجھے بھی ابھی پتہ چلا ہے کہ وہ… وہ جو کیک، پیسٹری اور بِسکٹ تیار ہو کر سپلائی کے لیے جا چکے ہیں اُن میں کاریگر کی غفلت سے بیکنگ پائوڈر کی جگہ مکھیاں، کیڑے مکوڑے اور چوہے مارنے والا سفوف (زہریلا پائوڈر) شامل ہو گیا تھا، ممکن ہے دکان پر موجود مٹیریل میں بھی وہ زہر موجود ہو ” مالک چلایا” تو جاہل انسان وہ زہر آلود پروڈکٹ مارکیٹ تک پہنچی کیسے؟ سپلائی کے آرڈر کِس نے دیے اور سب سے بڑھ کر کھانے کی اشیاء کے پاس زہر کر کیا رہا تھا۔

اب سُپروائزر نے ڈرتے ڈرتے جیسے ہی کچھ بولنا چاہا تو مالک نے چیخ کر کہا ”اب یہ صفائیاں پیش کرنے کا وقت نہیں ہے تم جانتے ہوکہ ہماری بیکری کوئی عام بیکری نہیں ہے پاکستان کی مشہور ترین بیکری ہے ہمارا مال پاکستان کے کونے کونے تک جاتا ہے فورا ًسیلز مینوں کو فونز لگائو اور مجھے زہر آلود مال ابھی کے ابھی گودام میں واپس چاہیے بے شک کروڑوں کا نقصان ہو جائے انسانی جانیں زیادہ قیمتی ہیں”۔ دوسرے روز ہر اخبار میں اور آن لائن یہ خبر گردش کرنے لگی ”پاکستان کی مشہور ترین پاک کنگ بیکری کے بسکٹ ،کیک اور پیسٹریاں زہر آلود ہیں لہذا پاک کنگ بیکری کی کوئی پروڈکٹ نہ کھائیں ” اور کچھ ہی لمحوں میں یہ بیکری سوشل میڈیا پر بھی تھی۔ بیکری کے باہر میڈیا کی گاڑیاں پہنچ چکی تھیں اور اب بیکری کا مالک پسینہ صاف کرتے ہوئے اَن گنت کیمروں کے سامنے کھڑا کہہ رہا تھا”یہ خبر سراسر غلط ہے تحقیق کیے بِنا جھوٹی خبر اُڑا دی گئی تھی ہمارا مال نہ صرف ایک نمبر ہے بلکہ تمام طرح کے جراثیم سے بھی پاک ہوتا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ یہ جھوٹی خبر میرے حاسدوں نے اُڑائی ہے کیونکہ جب سے میں نے اپنی بیکری کا افتتاح کیا ہے تو ہمارے اعلیٰ اور سستے مٹیریل کی بدولت اُن کی گاہکی کم نہیں بلکہ ختم ہو کر رہ گئی ہے باقی مزید آپ کو یہاں آئے ہوئے یہ سرکاری ڈاکٹرز (لیبارٹی چیکر) اور فوڈ اسپیکٹر بتائیں گے جنہوں نے تمام مال ٹیسٹ کرنے کے بعد تسلی کر کے سرٹیفیکیٹ دے دیا ہے یہ دیکھیں” ۔”جی ہماری ٹیم نے تمام سروے کیا ہمیں اِس قدر صاف ستھرائی تازگی کہی نظر نہیں آئی اور جہاں تک زہر کا تعلق ہے تو ایسا کوئی جراثیم اِس بیکری کی کِسی بھی پروڈکٹ میں نہیں پایا گیا ”اب اگلے کئی مزید دِن بیکری کی فری پبلسٹی کے تھے۔ کچھ ہی دِنوں میں بیکری کی سیل 100 گناہ بڑھ گئی اور مالک نے مختلف جگہوں پر منیجر کے مشورے سے 4 بیکریاں مزید بنا لیں۔ ایک دِن خوشگوار موڈ میں منیجر نے مالک سے کہا ” بدنام جو ہوئے تو کیا نام نہ ہوا”اور دونوں قہقہوں سے ہنسنے لگے۔

Target Search Operation

Target Search Operation

کہاں بیکری کا قصہ لے کر بیٹھ گیا اصل بات تو یہ ہے کہ مجھ بونگے کو کل پپو فراڈی کا فون آیا ۔”اُوئے مسٹر بونگے تو بس جلدی سے یہاں میرے شہر میں آجا میں نے سب کچھ پتہ چلا لیا ہے یہاں تک کے لین دین کا علم بھی ہو گیا ہے دونوں مِل کر خوب اِنجوئے کریں گے ” پپو نے گرم جوشی سے کہا ” مگر بتا تو سہی آخر بات کیا ہے کچھ پلے تو ڈال میرے” میری شروع سے کمزوری رہی ہے مجھے سیدھی سادھی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں ” اُو میرے بھولے بادشاہ میں نے ٹی وی پر ایک پروگرام دیکھا ہے جِس میں کال گرلز کے ٹھکانے بھی دکھائے گئے ہیں اور میں نے اُن مقامات کے نام بھی لکھ کر محفوظ کر لیے ہیں جِن سڑکوں پر وہ کھڑی ہوتیں ہیں، یارا مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہوسٹ نے خود گاہک بن کر بات کا آغاز، اختتام اور بھائو تائو کرنے کا گُر بھی سکھا دیا ہے بس تو اب جلدی سے آجا ”مجھے غصہ تو بہت آیا اِس فراڈی کی سوچ پر میں غصے سے لال پیلا ہوچکا تھا ”جاہل انسان ایسے پروگرام دکھانے کا مقصد حکمرانوں کی اِس جانب توجہ دلوانا ہوتا ہے۔

عوام کو مختلف نصیحتیں کی جاتی ہیں برائی سے رُکنے کا اشارہ دیا جاتا ہے” پپو فراڈی نے جو جواب دیاوہ سن کر میں پتھر کا سا بن گیا ” حکمرانوں کے پاس اتنا فضول کا وقت کہاں کے چینل بدلتے پھریں اور نصیحتیں تو ویسے بھی پروگرام کے آخر میں کی جاتیں ہیں اور تب تک تو ریموٹ کے ذریعے میں چینل چینج کر چکا ہوتا ہوں ”ابھی آج صبح ہی کی بات ہے کہ اُس باولے ماہی کا فون پھر سے آگیا ظالم چوبیس گھنٹے پیکج کر کے رکھتا ہے ” یار سنا ہے کہ حکومت کوئی خاص ادارہ قائم کرنے والی ہے جہاں برائیوں کی تمام رپوٹوں کا خفیہ طور پر اندراج کیا جائے گا اور اندر کھاتے ٹارگٹ سرچ آپریشن کے ذریعے زہریلے لوگوں کو کیفرِ کردار تک پہنچا یا جانے والا ہے ” میں نے کہاں ”نہیں میرے عزیز برادرم تم نے کوئی خواب دیکھا ہو گا ایسا کچھ بھی نہیں ہونے والا” میرا اتنا کہنا تھا کہ پپو فراڈی کی بانچھیں کِھل گئی” شکر ہے میں تو ڈر گیا تھا کہی ہم لوگ دوبارہ سے غیر ترقی یافہ ہو کر اپنے ماضی میں نہ لوٹ جائیں ہمیں تو مزید ہُنر مند بننا ہے اور اگر ایسا سچ میں ہوجاتا تو ہماری انٹر ٹینمنٹ بھی ختم ہو جاتی۔

پپو فراڈی کا فون کب کا بند ہو چکا تھا اور میرے ذہن کی سینما سکوپ سکرین پر با آواز بلند کچھ چلنے لگا جِسے میں دیکھ بھی رہا تھا۔”تمہیں اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا واسطہ، مجھے یوں رسوا نہ کرو ،میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں خدارا کچھ لمحوں کیلئے ذہن میں اپنی ماں، بہن کا تصور ہی لے آئو ”۔ مگر وہ ظالم انسان نماں شیطان تیزاب کی بوتل لہراتے ہوئے حوّا کی بیٹی کو عُریاں تصاویر بنوانے کیلئے مجبور کر رہے تھے۔ پاکدامناں 9 th کلاس کی طلبہ نے آنکھوں میں اپنے والدین، چھوٹے بہن بھائیوں کا تصور بسایا، اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یا دکیا اور بڑی بُردباری و ہوشیاری کے ساتھ اُن اُوباشوں کے ہاتھ سے تیزاب کی بوتل چھین کر فوراً منہ سے لگا لی مجھے مختلف شہ سُرخیوں پر چیختی ہوئی یہ خبر خوب نظر آئی مگرکہی بھی تیزاب کے خلاف کوئی خبر نہ تھی ” یہی نہیں تیزاب سے بیشمار عاشق اور اَن گنت شوہر صنفِ نازک کے اُس چہرے کو مسخ کر رہے ہیں جِس کا مصور خدا ہے۔

Weapons

Weapons

اِس تیزاب نے جتنی جانیں لی اُن کا شمار ناممکن تھا۔ مجھ سے نہ رہا گیا میں آگے بڑھا اور تیزابی لوگوں سے پوچھنے لگا” اسلحہ مہنگا ہے اب اِس کا مطلب یہ تو نہیں کہ تم تیزاب کو ہتھیار بنالو تمہیں کِس نے پرمنٹ دیا ہے تیزاب کو میان میں رکھنے کا؟ کیا تمہیں حکومت کی جانب سے اِس ظالم خاموش ہتھیار کا لائسینس مِل چکا ہے ؟کیا تم نے ہوّا کی بیٹی کو اتنا ہی حقیر سمجھ لیا ہے کہ اُس کی رسوائی کا کوئی لمحہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے؟ میں حکومتِ وقت سے اپیل کروں گا کہ وہ ایسی ٹیمیں تشکیل دیں جو تیزاب کی خریدو فروخت کی جگہ پر چھاپیں ماریں اور دھات لگا لگا کر تم جیسے تیزابی اسلحہ برداروں کا شکار کریں… ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ اُن ظالموں نے میرے چہرے پر بھی تیزاب پھینک دیا اور میں تڑپنے لگا۔ تڑپتے تڑپتے کیا دیکھتا ہوں دنیا بھر کا الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا میڈل حاصل کرنے کیلئے دوڑ رہا ہے۔ ایک جانب سے شور کی آواز آئی میں نے پلٹ کر دیکھا 6 سالہ معصوم سنبل کی خبر بُلا بُلا کر اپنے جیسی کئی خبروں کو گودام میں جمع کر رہی ہے اور دوسری جانب معصوم سنبل کے والدین روتے ہوئے کہہ رہے تھے”ہم بھی کِسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے”۔

مجھے تیزاب کی جلن سے تڑپتے ہوئے کو ہسپتال لیجایا جا رہا تھا اِس سے قبل کے میرا کام تمام ہوتا کوئی میرے کان میں سرگوشی سی کرنے لگا!”تم نے سوئے ہوئے شیطانوں کو خود جگایا ہے۔ فحش خبروں کی آگ کو ہوا دے کر اُوباشوں کے گندے ذہنوں کو مزید آئیڈیاز مہیا کیے ہیں۔ سوئے ہوئوں کو نہ صرف جگا کر بیٹھایا بلکہ مفید منفی مشورہ جات سے نوازہ بھی ہے۔ دوسری جانب فیشن ایبل خواتین نے مردوں کی سوچ کو مزید آوارہ پن عطا کیا اور اِس آوارگی کا سائٹ افیکٹ ننھی منھی معصوم بِن کھلی کلیوں اور بچاری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والی دوشیزائوں پر ظاہر ہورہا ہے۔ بُرائی کو منظرِ عام پر لانے سے اُس کا حوصلہ مزید بڑھ جاتا ہے اور وہ انڈے بچے دینے کے عمل کو سو گناہ بڑھا دیتی ہے۔اِس وقت برائی افزائشِ نسل میں بیکٹیریا سے سو گناہ آگے ہے اور تم نے…”ہلکے ہلکے مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے آواز بہت دور ہوتی چلی گئی ہے اور میں پوری طرح ہوش میں آچکا ہوں۔ جو بیت جاتا ہے اُسے یاد کرنا ہماری توہین ہے ہم تو بس چڑھتے سورج کو سلام کرتے ہیں اور تب تک کرتے رہتے ہیں جب تک کوئی جواب نہ آجائے۔ دنیا اپنی برائیوں پر پردہ ڈالتی ہے اور ہم نے اپنی تمام اچھائیوں کو پسِ پردہ کر رکھا ہے۔

Mohammad Ali Rana

Mohammad Ali Rana

تحریر : محمد علی رانا