پَری

Allha

Allha

پری صرف حسین نہیں تھی حسین چہروں کا تو نگاہیں شام و سحر طواف کرتی ہیں۔ حُسن والے تو اَن گنت ہیں لیکن ایک حسنِ عین بھی ہوتا ہے۔ پری کے حُسن کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا جیسے قدرت نے اُسے حُسنِ عین سے مالا مال کر کے صابر اور متقیوں کے پختہ ایمان کی آزمائش کیلئے دھرتی پر بھیجا ہے۔پری کے لبوںسے سُرخ کندھاری انّا روں کو عجیب سا حسد رہتا، سُرخ و سپید رُخساروں اور مہکتے ہوئے تازہ اور نرم و نازک گلابوں کے درمیان مقابلہِ حسن تھا، کوہِ نور ہیرے کی سی چمک والی بڑی بڑی جھیل سی گہری آنکھیں جنہیں شائد جھکے رہنے کی ہدایت گُھٹی میں دی گئی تھی۔ مگر اِس سراپہِ حُسنِ عین و باکمال اور دولتِ نسوانیت سے مالامال، سرمایہِ عاشقی کو معراج نے ٹھکرا دیا۔ محمد معراج آج چارسال گزر جانے کے بعد بھی زندگی کے اپنے اِس مشکل ترین فیصلے سے بے انتہا مطمئن رہتا۔ پری جِس کا یقین کامل تھا کہ وہ آب و اناج کے بنا تو جی لے گی مگر اُس سے جُدا ہو کر اِک سانس بھی جو آئے تو حرام ہو مگر آج وہ بھی سجدہِ شکر ادا کرتے فخر محسوس کر رہی تھی۔ کفر اور اندیشہِ شرک نہ ہوتا تو ایک آدھ نفل معراج کے شکرانے کو بھی پڑھ ڈالتی کہ اُسی نے اُسے ٹھکرا کر نئی زندگی عنایت کی تھی۔

”سر میں آپ کو پسند کرتی ہوں… سر میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں سر ”گزشتہ کئی ایک دِنوں کی ریاضت کے بعد لہراتی، کپکپاتی اور تُتلاتی دھیمی آواز میں پری نے اُس شام پہلی بار اظہارِ الفت کیا۔” سر میں آپ سے مخاطب ہوں… بس اب آپ کے بِنا نہیں رہ سکتی… مجھ سے شادی کر لیں” ”کیا…! یہ کیا کہہ رہی ہو نِمرہ… تم ہوش میں تو ہونا… تم میری شاگرد ہو اور میں تمہارا اُستاد مانا کہ چار، پانچ سال کا فرق کوئی خاص معنی نہیں رکھتا اور ہماری عمروں کا سفر قریباً ایک سا طے ہو رہا ہے مگر…”پہلے تو معراج کو یوں محسوس ہوا جیسے انتہائی سرد اور مہکتا ہوا ہَوا کا جھونکا اُس پر مہربان ہو رہا ہے اور اُس کی گمنام محبت منظرِ عام پر آنے کے لیے دستک دے رہی ہے مگر اِک انجانی طاقت نے نہ چاہتے ہوئے بھی اُسے ایسا روکھا سا جواب دے ڈالنے پر مجبور کر دیا معراج نے کیمسٹری کی خشک سی کتاب ایک زور دار دھماکے سے پری کے ڈیسک پر پٹک ڈالی۔” مگر سر میں نے فیصلہ کر لیا ہے میں اب آپ کے بِنا اِک پل بھی نہیں جی سکتی ”پری کے اِس معصوم سے انداز نے اُسے مزید پُر کشش بنا دیا تھا اور وہ اِس گھڑی بچوں کی سی معصوم لگ رہی تھی مگر شائد قدرت مختلف انداز سے اپنے بندوں کے دِل گردے کی پختگی کی آزمائش لیتی ہے۔ نِمرہ کو پری کے خوبصورت لقب سے اُس کے پاپا نے نوازا اور اُسے اب صرف یہی نام سُننا پسند تھا۔ اُس ساری رات معراج باغیچے میں بیٹھا جگنئوئوں و کو بتاتا رہا اور وہ خاموشی سے سنتے رہے۔

” وہ سرد راتیں مجھے کوئی خاص منافع نہ دے پائیں تھیں۔ پری مدہم سے لیمپ کی دودھیاں روشنی میں پیپروں کی تیاری میں مصروف رہتی اور میں پیپل کے درخت کی اُوٹ سے اُسے تکتا رہتا اور پھر بلآخر ایک روز یہ سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ آج پری دودھ کا گلاس ساتھ لانا بھول گئی تھی پری کی ماں جب دودھ کا گلاس لے کر کمرے میں داخل ہوئی تو وہ رات چاند کی چودھویں رات تھی اور تم تو جانتے ہو چودھویں کی رات چاند کی محبوب رات ہوتی ہے اور اِس رات چاند خوب جوان ہوتا ہے اُس کے چہرے کا نور بھی سخاوت پر تُلا نظر آتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ زمیں پر نورانی کرنوں کی سالہ باری ہو رہی ہوتی ہے اور آسمان کے تارے منادی کر رہے ہوتے ہیں کہ، ہے کوئی جو اِس خوبروں چاند کے سخی نور کو اپنانا چاہے… ہے کوئی جو اِس نور سے اپنی بے نور زندگی کو نورانی کر لے”قصہ الغرض یہ کہ چودھویں کی رات زمین کا گوشہ گوشہ چاند کے نور سے روشن نظر آتا ہے اور اِس نورانی روشنی میں میرا عکس بھی واضع ہو گیا تھا۔ پری کی ماں نے کھڑکی کے بند شیشوں پر بے رحم پردے کو سِرکا دیا اور یوں میرا خوبروں چاند بادلوں میں نہیں پردے کی اُوٹ میں چھپ گیا۔

پھر ایک روز جب پری اپنی سکھیوں کے ہمراہ مہکتی ہوئی سکول جا رہی تھی تو میری نگاہیں اُس کا تعاقب چھوڑ کر زمین پر مرکوز ہوگئیں جہاں عین اُسی وقت پری نے سفید رنگ کا ٹشو پیپر پھینکا تھا۔ وہ ٹشو آج بھی نوادرات کی صورت میری دائری میں موجود ہے ٹشو پیپر پر چار مختلف جگہوں پر لگے پری کی گلابی لِپ اسٹک کے نشان آج تک تازہ ہیں اب وہ صرف ٹشو نہیں بلکہ پری کی ہنوز مہک ہے۔ میں جانتا ہوں کہ قدرت مختلف روپ میں جلوہ گر ہو کر انسان کے انسان ہونے کا ثبوت طلب کرتی ہے۔ کِسی کی آزمائش لمحوں پر محیط ہوتی ہے تو کِسی کی سالوں صدیوں پر اور ہر آزمائش کا اپنا مقام اپنا رُتبہ ہے۔ دوستوں میں خدا سے یہ شکوہ بھی نہیں کرنا چاہتا کہ مجھے اُستاد کیوں بنایا اور اب میں اُن لمحات کو بھی نہیں کوستا کہ جب ہم دونوں کی مائوں کی محلہ دار ہونے کی وجہ سے قربت میں اضافہ ہوا اور اُس کی ماں اپنی بیٹی پری کو کیمسٹری کے خشک سبجیکٹ کیلئے میرے پاس ٹیوشن لگوا گئی۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ اُستاد کا ایک رُتبہ ہوتا ہے ایک مقام ہے اور اُس مقام سے گرنا یعنی شاگرد اور اُستاد کے رتبے کا خون کرنا تھا۔ معراج کی آنکھیں آنسوئوں میں تیر رہی تھیں اور جگنو اُس کے ہمراز بنکر کب کے صبح کے اجالوں میں کہی کھو چکے تھے۔

Breakfast Children

Breakfast Children

پری کو اِس بات کا کبھی علم نہ ہو یاکہ کوئی تھا جو برفیلی انتہائی سرد راتوں میں بالائی منزل پر موجود اُس کے کمرے کی کھڑکی سے اُس کے معصوم حُسن کی تپش میں سرد راتیں گزارتا ہے۔ معراج کا قدرت کے لکھے پر یقین کامل تھا کہ جو ہوتا ہے انسان کی بہتری کیلئے ہی ہوتا ہے۔ ایک شخص صبح اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ناشتہ کر کے بیوی کے کان میں یہ کہہ کر نکلتا ہے کہ” آج رات وہی سی گرین ساڑھی پہننا میں شام میں ذرا لیٹ آئوں گا جب تک بچے بھی سو چکے ہوں گے” اور بیوی شرمیلی اور ترچھی نگاہوں سے یہ کہہ کر مجازی خدا کو رخصت کرتی ہے ” آپ بہت شرارتی ہیں…”ابھی وہ گھر سے نکل کر مین روڈ تک ہی پہنچتا ہے کہ ایک تیز رفتار کار اُسے خالق حقیقی سے مِلوا دیتی ہے، کفِ انسری سے روح پرواز ہوتی ہوئی اپنی بیوی سے ہمکلام ہے” جو اُو پر والے کی مرضی، جان دی… دی ہوئی اُسی کی تھی، تم بس پاک دامن رہنا اور میں نے بھی کبھی زندگی میں تمہیں دھوکہ نہیں دیا اِس لیے میرا ایمان ہے کہ بروزِ حشر دوبارہ تم ہی میری بیوی بنائی جائو گی۔

بس صبر کرنا کہ یہ دنیا کی زندگی صرف تماشہ ہے اور تم بھی جلد ہی اِس تماشے کے اختتام کو پہنچو گی ” مگر بیوی بچوں کو ناشتہ دینے میں مصروف ہوتی ہے۔ تو یہ سب تو خدا کی کرنیاں ہیں اور اللہ جو کرتا ہے وہ بہتر ہی کرتا ہے۔ شائد یہی وجہ تھی کہ معراج کو انتہائی پاکدامن اور صورت و سیرت میں اعلیٰ ترین شریک حیات کا ساتھ مِل گیا اور وہ آج اپنے ماضی کو یاد بھی نہیں کرنا چاہتا کہ ماضی میں جینے والے جیتے نہیں لمحہ لمحہ مرتے ہیں۔ صرف عمراور سیف ہی نہیں محلے کے سب ہی نوجوان پری کو حاصل کرنے کیلئے بیتاب تھے مگر نگینہ کِسی ایک انگوٹھی میں جڑتا ہے۔ سیف تھا تو زوج والا مگر مرد کی ایک فطرت ہے کہ وہ کثرتِ ازواج کا کائل ہے، کم از کم نسوانیت کی قربت تو چاہتا ہی ہے۔ سیف بھی اُن مردوں میں سے تھا جِن کی نظر میں… عورت ایک ایسی لزیز ڈش کی مانند تھی کہ جِس کی طلب بھوکے کو تو ہوتی ہی ہے مگر پیٹ بھرا بھی اِس لزیز ڈش کو چکھنا ضرور چاہے گا۔ پری کے حُسن کے عین کا سحر سیف پر بھی اپنا تاثر چھوڑ چکا تھا مگر جو ثابت قدم ہوتے ہیں دور ترین کی منزل بھی اُن کی آغوش تک خود ہی رینگتی ہوئی چلی آتی ہے اور پری سیف کی منزل نہ تھی۔

عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے شائد یہی وجہ ہے کہ پروردگار نے اُسے اپنے خاص و خاص بندوں میں سے چُن لیا اور اُسے اپنی پاک سر زمین مکہ شریف تک لے آیا اُسے وہاں ایک اچھی ملازمت مِل گئی۔ آج وہ قدرت کی کرنی پر مطمئن ہے اور کہتا ہے ” اگر میں حُسنِ فانی کے چکر میں رہتا تو شائد دین کا رہتا اور نہ دنیا کا اور حقیقی حُسنِ یکتا کو بھی کھو بیٹھتا”۔ اب اُسے اُس حور کی تمنا ہے جو اُسے جنت میں اُس کی پاک دامن بیوی کی صورت میں ملے گی۔ انسان اگر بے صبرا ثابت نہ ہو اور ذرا تحمل مزاجی سے کام لے تو اُس کا خدا جو اُسے ستر مائوں سے بھی زیادہ چاہتا ہے اُسے عظیم مرتبت پر فائز کر ہی دیتا ہے مگر افسوس کہ انسان پیدائشی بے صبرا اور جلد باز ثابت ہوا ہے۔ عمر نے آج ساری رات قبرستان میں اللہ پاک کی عبادت و ریاضت میں گزارنی تھی کیونکہ صبح اُس کی زندگی کا آخری سورج طلوع ہونے والا تھا۔ عمر اور پری کی دنیائے فانی پر آج یہ آخری رات تھی۔ پری نے گھر کے ایک کونے میں صاف ستھرائی کے بعد مُصلّیٰ بجھا دیا اور خود پاکیزگی کی نیت سے صاف لباس زیبِ تن کرنے کو غسل خانے کی جانب چل دی۔ وہ جانتی تھی کہ آج رات اُس کی زندگی تمام ہونے کو ہے اور صبح زندگی کا چراغ بجھ جائے گا۔ پری ساری رات کی خدائے یکتا کی عبادت میں مصروف ہونے سے پہلے ایک آخری بار پھر عمر سے موبائل پر بات کرنا چاہتی تھی مگر اب وقت کہاں عشاء کی آذان ہو چکی تھی اور عمرکا موبائل بند تھا۔

عمر مسجد کے درو دیوار کو یوں اجنبیت سے دیکھ رہا تھا جیسے وہ اِس مقام سے بالکل بھی آشنا نہ ہو۔ یہاں سے فراغت پانے کے بعد اُسے آج ساری رات قبرستان میں جاگنا تھا اور یہ سب پہلے سے طے شدہ تھا۔ پری نے نماز کی کنجی میں نماز کا طریقہ دیکھا اور نیت باندھ لی۔ یہاں عمر بھی قبرستان میں پیپل کے ایک پرانے درخت کے نیچے جہاں وہ ایک چٹائی اور پانی کی بوتل رکھ گیا تھا چھپ کے وہاں بیٹھا ابھی اِسی شش وپنج میں تھا کہ عبادت کا آغاز کہاں سے اور کیسے کیا جائے کہ خوف کے سائے منڈلانے لگے۔ عمر پختہ ارادے سے آیا تھا قبرستان کی تاریکی، ویرانی اور خاموشی کی سحر انگیزی اُس کے ارادوں کو کمزور نہیں کر سکتی کیونکہ عشق کا تعلق اگر برائے راست روح اور دِل کی ڈھرکن سے ہو جائے اور ارادہ پختہ اور یقین کامل بھی ہو تو متزلزل ہونا ناممکن ہے مراد مِل ہی جاتی ہے۔ اُس کا عشق پری کیلئے کامل تھا اور یقین اُس ذات پر کامل تھا جِس کے ہاں کِسی چیز کی کمی نہیں۔ عمر کو یوں محسوس ہوا جیسے سامنے قبر میں سے نکلتی ہوئی سفید اور گولڈن رنگ کی منقسم سی شعاعیں کِسی انسانی وجود کا روپ دھار رہی ہیں۔

Cemetery

Cemetery

وہ اُن شعاعوں کو انسان بنتا بغور دیکھ رہا تھا اُسے انجام کا ذرا بھی خوف نہ تھا کیونکہ عمر کیلئے اب وہ زندگی بے معنی اور مردار تھی کہ جِس میں پَری ہمسفر نہ ہو۔ شعائیں یکجا ہو کر ایک با ریش بڑی بڑی روشن آنکھوں والے بزرگ کا روپ دھار چکی تھیں جو اُسی کی جانب حرکت کر رہے تھا اور رفتہ رفتہ فاصلہ کم ہونا شروع ہو گیا یہاں تک کہ سفید لٹھے کی چادر میں ملبوس وہ باریش بزرگ عمر کے عین سامنے چند بالش کے فاصلے پر کھڑا معصومیت سے تکنے لگا۔” بیٹا! میں جانتا ہوں کہ تم صرف روح نہیں بلکہ وجود بھی ہو، مگر آدھی رات کو اِس ویران قبرستان میں کیا کر رہے ہو ؟”بزرگ نے مزید آگے بڑھتے ہوئے عمر سے سوال کیا تھا۔”بابا جی میں آج ساری رات یہاں عبادت میں گزارنا چاہتا ہوں ”عمر نے نڈر ہو کے اُس روح کو جواب دیا۔”مگر بیٹا یہاں اِس قبرستان میں کیوں مسجدیں ہیں اور تمہارا گھر بھی تو ہوگا نہ؟ ”وہ سب کچھ تو ٹھیک ہے مگر میں ساری رات عبادت کرنا چاہتا ہوں اور مسجدیں عشاء کی نماز کے بعد بند ہو جاتی ہیں اور رہا گھر کا مسئلہ تو ہمارے ہاں رات کو دِن نکلتا ہے ہم لوگ سبزی کے بیوپاری ہیں رات بھر گھر بھی سبزی منڈی بنا ہوتا ہے اور رہائشی آڑھتی اور… اچھا ویسے یہ سب تفصیل میں آپ کو کیوں بتا رہا ہوں بھلا، بس میری مرضی میں، میں جہاں مرضی عبادت کروں” عمر اُس بزرگ روح سے یوں ہمکلام تھا جیسے وہ کوئی اُس کا ہم عمر دوست ہو۔

”بیٹا اگر آپ مجھ سے کُھل کر بات کرو گے تو عین ممکن ہے میں تمہیں کوئی معقول مشورہ دوں، میری حقیقت تم پر واضع ہو چکی ہے اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ ہم اللہ کے پیارے ہو چکے ہیں، میں آج ستر سال گزر جانے کے بعد بھی اپنے قبرستان کی ہر رات یونہی گھوم کر حفاظت کرتا ہوں اور آج تک اپنے قبرسان میں کوئی بُرا فعل ہونے نہیں دیا۔ آج سے ستر سال قبل میں یہاں کا گورکن ہوا کرتا تھا اور آج بھی مجھے قبرستان سے اتنی ہی الفت ہے جتنی تب تھی میرے والد دادا سب گورکن رہے ہیں”یہ کہتے ہوئے قبرستان کے سابقہ گورکن کی روح عمر کے قریب ایک طرف چٹائی پر دو زانوں ہو کر بیٹھ گئی۔ عمر تو بس ایک کشتی تھا جِس کا بادبان پَری تھی اور وہ اُسی کے کھنچائوں میں چلے جا رہا تھا مگر ہوا اِس روح کے قریب آکر تھم گئی اور اُس کے منہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی بے اختیار نکلا ”پِری، پَری اور میں ” گورکن بزرگ کی روح نے مسکرا دیا۔ پری نے میرے محبت نامے کو ٹھکرا دیا مگر میں دِل و جان سے صرف اُس کا ہو چکا تھا روز نگاہوں کی التجاء اُس کے قدموں کے بوسے لیتیں۔” پری اب زندگی میں کبھی کِسی سے محبت کر ہی نہیں سکتی محبت نام کا صفحہ تو وہ کب کا پھاڑ چکی ہے۔ آپ ایک اچھے گھر کے شریف النفس نوجوان معلوم ہوتے ہو۔

اِس لیے آج کے بعد اُس کا پیچھا نہ کیجئے گا ایسا کہنے کو پری نے ہی مجھ سے کہا ہے”اُس روز پری کی سہیلی کے منہ سے یہ الفاظ سُنکر میں چند لمحوں کیلئے پتھر کا سا بنکر رہ گیا۔ دن اور رات کو چلانے والے چوبیس گھنٹوں میں سے ایک وقت، ایک گھڑی، ایک لمحہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ زبان سے ادا ہونے والے لفظوں کو قبولیت کا درجہ مِل جاتا ہے انسان اپنی مراد پا لیتا ہے مگر افسوس کہ ہم انسانوں کو اِس خاص لمحے کو پہچاننے کا ہنُر نہیں آتا۔ نہ جانے یہ میری کِسی خاص لمحے کی زبان سے نکلی کوئی اِلتجاء قبول ہوئی تھی یا پری کے دِل پر میری بے پناہ انمول محبت کی سحر انگیزی نے کام کر دکھایا تھا۔ اب آنکھوں کے اشاروں سے عشق پروان چڑھنے لگا۔ میری دونوں آنکھیں جو اُن دِنوں میرے دِل و دماغ کی مخبر ایجنٹ بھی تھیں وہ جاگتے سوتے صرف پری کے تعاقب میں ہی رہتیں اور آنکھوں کی دہلیز پر دستک بھی صرف وہی خواب دے سکتے تھے جِن میں پری کا سراپا موجود ہو۔ میری انہی مخبر آنکھوں نے بتایا! ”ہم نے ابھی آپ کی کومل پری کو اپنی سہیلی جو آپ کے بگل کے ساتھ والے گھر میں رہتی ہے کے ہاں جاتے دیکھا ہے۔

اِس اطلاع کا تو مجھے بے چینی سے انتظار رہتا کیونکہ میرے گھر کے سیکنڈ فلور سے پری کی سہیلی اقراء کے گھر کا آنگن صاف دکھائی دیتا تھا ابھی تک اقراء کو ہمارے آغازِ محبت کا علم نہ ہوا تھا۔ آنگن کیا تھا اچھا بھلا باغ تھا مگر شائد سبز باغ یا یوں کہیں کہ آج کوئی رنگین پھول کھِلا نہیں تھا، یا پھر مجھے نظر نہیں آرہا تھا کیونکہ میری نظریں تو اپنے ہی قوس وقزاح کے پھول میں گڑی تھیں۔ پری نے آنکھوں پر اپنا سیاہ ڈوپٹہ باندھ رکھا تھا اور اپنی دونوں سہیلوں کو ڈھونڈھ رہی تھی۔ میں بالکونی میں گملوں کے پیچھے چھپا مستورات کے اِس چھپن چھپائی والے کھیل سے لطف اندوز ہونے لگا۔ دیدارِ یار چھپ کر کرنے کی وجہ پری نہیں بلکہ اُس کی دونوں سہیلیاں تھیں اور میں ہر طرح سے محتاط رہنا چاہتا تھا مجھے پری کی عزت اپنی جان سے زیادہ عزیز تھی، ہے اور ہمیشہ رہے گی۔

Red Rose

Red Rose

مجھے انتہا کا غصہ بھی آ رہا تھا کیونکہ پری کی سہلیاں میری نگاہوں کے سامنے اُسے خوب ستا رہی تھیں کتنی ہی بار میں چیخ کر کہتا کہتا رُک جاتا ”سنوڈئیر ! یہ دونوں تمہارے عین عقب میں کھڑی مسکرا رہی ہیں ”اچانک پری لڑ کھڑائی… ”بسم اللہ” نیچے گرنے مرنے یا ٹانگ ٹوٹنے کا ذرا بھی خوف نہ تھا، خوف تھاتو صرف پاکیزہ کی رُسوائی کا ورنہ کب کا نیچے کود کر اُس حسن کی دیوی کو ہوا میں لہراتا ہی تھام چکا ہوتا۔ شائد میرا یہ وہی لمحہ تھا جو زبان سے نکلی بات کی قبولیت کا ہوتا ہے… اور پری خود ہی سنبھل گئی میں نے آسمان کی جانب نگاہوں کو اُٹھایا اور شکرانے کے نوافل ادا کیے۔ پری نے غصے سے آنکھوں سے دوبٹے کی پٹی کھولی اور گلے میں ڈال کر بچوں کی طرح مچلی ”میں نہیں کھیل رہی کوئی کھیل ویل، تم پکڑی تو جاتی نہیں ہو” اگر میرے دِل کاایک بار بائی پاس ہو چکا ہوتا تو یقینا یہی معصوم ادا میرے ہارٹ اٹیک کی وجہ قرار پاتی۔ پری کی نظر ایک اپنے جیسے سُرخ گلاب پر پڑی جو شائد پورے باغیچے میں تن تنہا ہی کھِلا تھا شائد میری پری کیلئے۔

پری نے اُس پھول کو توڑ کر اپنی اندھیری زلفوں کی زینت بنا لیا مگر ہوا اُس حسین نظارے کے حُسن کی تاب نہ لا سکی اور چپکے سے جا کر اُس کی سہیلوں کو اُکسایا، کان میں سرگوشی کی ” یہ پھول تمہاری زلفوں میں ہوتا تو کیا بات تھی” اب پری کی سہلیاں پیچھے پیچھے بھاگ رہیں تھیں اور وہ اپنے سر پر ہاتھ رکھے پھول کو دبائے آگے آگے… پری نے محسوس کر لیا تھا کہ اِن سے جان چھڑانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے نہ جانے اُسے کیا سوجھی کہ پری نے اپنے جوڑے کی گرفت سے پھول کو آزاد کیا جبکہ اِس جدائی نے پھول کو اِس قدر رولایا کہ پھول کے رونے اور چِلانے کی فریکوئنسی اِس قدر دوررس تھی کہ اِس کی گونج نے میرا کلیجا تک ہِلا کر رکھ دیا۔ اگلے ہی لمحے پھول ساتھ والے خالی پلاٹ میں سوکھی پتیوں پر پڑا تڑپ رہا تھا۔ پری کو اپنی کِسی بھی چیز میں شراکت داری قطعاً پسند نہیں۔ اُس رات میں چھپتا چھپاتا رات کے آخری پہر کِس مشکل سے پری کی زلفوں سے مَس ہوئے پھول کو اُس ویرانے گھر میں چوروں کی طرح کود کے اُٹھا کر لایا تھا یہ منظر میں کبھی فراموش نہیں کر پائوں گا۔ اب تو رات کے کِسی بھی پہر جب بھی پری کی یاد ستاتی تو کتاب میں سے نکال کر اُس گلاب کو سونگھ لیتا، مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے یہ پری کی خوشبو نہیں بلکہ پری خود میرے چاروں اطراف موجود ہے۔

پری باتوں باتوں میں اپنی ماں سے اپنی پسند کے بارے اشارے دے چکی تھی مگر ماں ہمیشہ اِن اشاروں کو نظر انداز کر دیتی اور بات وہی کی وہی رُک کر رہ جاتی۔ اب وقت کے ساتھ ساتھ چوری چھپے ملاقاتوں کے سلسلے بھی چَل نکلے اور پری نے اپنی سہیلیوں کو ہمراز بنا لیا، ملاقاتیں ہمیشہ پبلک پلیس پر ہی ہوتیں، جہاں پری اپنی اُنہی دونوں سہلیوں اقراء اور وردہ کی مدد سے کالج سے فرار ہو کر مجھے مِلنے آتی۔ ہم دونوں کو بہت جِلد اِس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ ہمارے گھر والے ہمارے رشتے کو ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ دونوں اطراف سے اعلانِ جنگ ہوتا دکھائی دینے لگا۔ پری کے مطابق روز اول سے لڑکیاں بڑوں کی خواہشات کی بھینت چڑھتی چلی آ رہیں تھیں اور اب تو پری کی شادی اُس کے خالہ زاد سے ہونے کی افواہیں بھی گردش کرنے لگی تھیں۔

جہاں تک میرے گھر والوں کا تعلق ہے تو اُن کی انّا یہ کبھی گوارہ نہ کرتی کہ ہم لوگ جا کر لڑکی والوں کی منت سماجت کریں، مگر پری نے اِس بات کی تصدیق بھی کردی تھی کہ اگر میرے گھر والے اُن کے گھر آ کر رشتہ مانگے گے تو وہ یقینا مان جائیں گے اور اِس بات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اُس نے اپنی کزن کو قائل کر رکھا تھا بات اب صرف میرے گھرو الوں پر آ کر رُک گئی تھی۔ ہمارے گھر کا رسم و رواج چلتا آرہا ہے خاندان سے باہر شادی نہیں کرتے خواں رشتہ جوڑ کا ہو یا نہ ہو۔ میں نے بہت دفعہ اپنے گھر والوں سے خاص کر کے امی سے پری کا ذکر کیا مگر وہ ہر بار صاف منع کر دیتے یہاں تک کے ایک دو بار میں نے گھر چھوڑنے اور خودکشی کی دھمکی بھی دی مگر اُنہوں نے ہمیشہ نظر انداز کر دیا اور بات مزاق میں ٹل کر رہ گئی، مگر اِس بات کا مجھے یقین تھا کہ وہ ایک لمحہ بھی مجھے اپنی نگاہوں سے اوجھل نہیں کر سکتے اگر ماں اور بہنوں کا منہ نہ دکھتا تو شائد کب کا خودکشی کر کے دکھا بھی چکا ہوتا مگر کب تک۔ اُس روز فیصلے کی گھڑی تھی اور اقراء نے وردہ کی مدد سے کِسی طرح ہم دونوں کو اپنے گھر میں مِلوانے کا پروگرام بنایا آج سے ملاقاتوں کا اختتام ہونے والا تھا پری کے پیپر ہو چکے تھے اور اُس کے گھر والے یقینا رزلٹ کا انتظار کیے بنا ہی اُس کے ہاتھ پیلے کر دیتے۔

Suicide

Suicide

ہمارے پاس صرف ایک گھنٹہ تھا کیونکہ تب تک اقراء کے گھر والوں نے واپس آنا تھا۔ سال بھر میں یہ پہلا موقع تھا کہ میں اور پری تنہائی میں مِل رہے تھے وردہ اور اقراء دونوں ہمیں کمرے میں تنہا چھوڑ کر چائے پانی کے بندوبت کا کہہ کر چلی گئیں۔ پری نگاہیں جھکائے بیٹھی شائد شرما رہی تھی اور مجھ میں بھی بات میں پہل کا حوصلہ نہ ہو پا رہا تھا مگر کِسی ایک کو تو پہل کرنی ہی تھی کہ اب وقت پر لگا کر اُڑنے لگا۔ ”پری اب تم ہی بتائو کیا کرنا ہے میں تو ہر طرح سے حاضر ہوں، بھاگ کر ہم شادی ہر گز نہیں کر سکتے کیونکہ تم جانتی ہو کہ انّا کے تابوت میں قید میرے گھر والے مجھے اور تمہیں پاتال سے بھی ڈھونڈھ نکالیں گے اور اُس کے بعد کا انجام تم جانتی ہے” کِسی انجانی قوت کے ساتھ میں نے بات کی پہل کی۔”جانتی ہوں ” پری نے جھکی نگاہوں سے معایوسی سے کہا۔”تو پھر بتائو نہ اب کیا کریں ؟”میں بہت بے چین ہو رہا تھا مگر وہ آج تمام فیصلے بہت سوچ سمجھ کر تحمل مزاجی سے کرنے کے موڈ میں تھی اِس دفعہ اُس نے اپنی بڑی بڑی گہری آنکھیں اُٹھائی اور کہا”میں جب سے اِسی مسئلے پر غور کر رہی ہوں مگر مجھے کوئی حل نکلتا نظر نہیں آتا۔

پھر کمرے میں خاموشی سی طاری ہو کر رہ گئی تقریبا پندرہ منٹ کے بعد پری مخاطب ہوئی ”میں نے بہت سوچا مگر مجھے اِن دو راستوں کے علاوہ تیسرا اور کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ” میرے وجود میں خوشی کی لہر سی دوڑنے لگی مجھے ایسا لگا جیسے اُس نے مسئلے کا حل اپنے دونوں راستوں میں سے کِسی ایک میں ضرور نکال لیا ہوگا ”بتائو! بتائو جلدی ہمارے پاس کون کون سے دو راستے موجود ہیں ”پری نے میری جانب گہری نظروں سے دیکھا اور بولی”ایک تو یہ کہ مختلف جگہ عرضیاں دینے سے بہتر ہے کہ ہم اُس رب کے آگے عرض گزار ہو جائیں جِس کے قبضہِ قدرت میں ہم سب کی جانیں ہیں کہ وہ سب کی سنتا ہے اور اُس کے ہاں اُونچ نیچ، ذات پات، کالا گورا، امیر غریب کِسی قسم کا کوئی فرق نہیں اُس کے دربار میں تو بادشاہ اور فقیر سب ہی برابر ہیں… کیوں کے جو صرف رب سے مانگتا ہے اُسے سب سے مانگنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی اور جو رب سے نہیں مانگتا وہ سب سے مانگتا ہے ” ”اور دوسرا راستہ کونسا ہے ہمارے پاس ؟” پری نے گہری سانس لے کر کہا ”دوسرا اور آخری راستہ ہے خودکشی… ہم دونوں کی موت کے ساتھ ہی تمام مسائل خود ہی خودختم ہو جائیں گے۔

”پری تمہارے بنا زندگی کا اب تصور بھی مشکل ہے لہذا میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم اِن دونوں راستوں کے مسافر بنیں گے”میں نے فیصلہ سنا دیا تھا۔”مگر ہم اِن دونوں راستوں کا ایک ساتھ انتخاب کیسے کر سکتے ہیں ؟ہمیں کِسی ایک راہ کو چننا ہو گا یا خود کشی کر لیں یا پھر قدرت پر چھوڑ دیں” میں اُس وقت جزباتی ہو چکا تھا ” پری میں اب تمہارے بنا اک پل جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ہے، میں نے فیصلہ کر لیا ہے ہم کل صبح تک ایک نہ ہوئے تو خودکشی کر لیں گے، آج ساری رات ہم اپنے رب کو منائیں گے میں نے سُنا ہے کہ دُعا دِل سے نکلے تو اثر رکھتی ہے اور میرا بھی پختہ ایمان کامل ہے ہم ایک ہو کر رہیں گے اور اگر ساری رات میں اپنے رب کو نہ منا سکے تو پھر جی کر کرنا بھی کیا ہے سورج چمکتے ہی ہم اپنی زندگی کے چراغ کو خود اپنے ہاتھوں سے گُل کر لیں گے” وہ مجسمہِ حیرت بنی میری فلسفانہ باتیں بڑے غور سے سُن رہی تھی” جب ایک معصوم بچہ صرف رو کر اپنی ماں سے اپنی ہر بات منوا سکتا ہے تو کیا… !ہم رو کر گڑ گڑا کے اُس اللہ پاک سے اپنی تمام جائز ضروریات کو پورا نہیں کروا سکتے جو اللہ کریم اپنے بندوں کو 70 مائوں سے بھی زیادہ چاہتا ہے۔ اور میں تم سے جائز رشتہ قائم کرنا چاہتا ہوں… اب میری بات غور سے سنو! ہم ساری رات عبادت میں اپنے اللہ کریم کو راضی کرنے میں گزاریں گے۔

اگر انسان کا یقین کامل ہو تو خالی بند مٹھی میں سے ہیرا نکل سکتا ہے ۔یہ لو یہ زہر آلود پائوڈر ہے اِس میں سے آدھا میں نے نکال لیا ہے یہ چوہے وغیرہ مارنے کے کام بھی آتا ہے ہم صبح پورے سات بجے ایک ساتھ یہ زہر کھائیں گے لائو تمہاری گھڑی اپنی گھڑی کے ساتھ مِلادوں ”میرا پائوڈر تو ڈبی میں ہے اور تمہارا کُھلا کاغذ میں کہی گر نہ جائے لائو جب تک میں تمہارا پائوڈر بھی کِسی چھوٹی ڈبی میں ڈال لاتی ہوں ” ابھی میں ٹائم مِلا کر کُچھ سوچ ہی رہا تھا کہ وہ حُسن کا مجسمہ باہر سے آتے ہی بے اختیار میرے ساتھ چمٹ گیا میں جانتا تھا کہ اُس کے مرمری جسم کے لمس کی حدت کو برداشت نہ کر پائونگا قبل اِس کے کہ میں پگھلنا شروع ہوتا اگلے ہی لمحے میں اُس کی بانہوں کی گرفت سے آزاد تھا۔یقینا پری نے جب آنکھیں کھولی ہونگی تو اپنی بانہوں کے حسار میں بکھر جانے والی ہوا کو ہی محسوس کیا ہوگا۔ ”بابا جی میں پری کے بِنا اِک پل بھی نہیں جی سکتا… آج رات فیصلے کی گھڑی ہے عین ممکن ہے صبح اِسی قبرستان کی مٹی تلے خود ہی دفن ہو جائوں مگر مجھے ابھی ایک آخری جگہ سے بہتری کی اُمید ہے ہم دونوں چاہنے والوں کی عرضیاں مالکِ کائنات کے ہاں پیش ہو چکی ہوگی۔

Prostrate

Prostrate

عمر جو کہ اپنے ہی خیالوں میں گم سم آپ بیتی سنا رہا تھا مُڑ کر اپنے دائیں جانب دیکھا تو کوئی بھی نہ تھا اُس نے بے چینی سے اپنی نگاہوں سے پورے قبرستان کا طواف کیا مگر خوف اور ویرانی کے علاوہ کچھ نہ مِلا گورکن کی روح کب کی جا چکی تھی یا شروع سے تھی ہی نہیں اور یہ سب عمر کا واہمہ تھا۔ یہاں پری پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اپنے رب کو راضی کرنے میں لگی تھی آج دونوں کو خدا مِل گیا تھا اور جِسے خدا مِل جاتا ہے تو پھر وہ دنیا کا متلاشی نہیں رہتا دنیا خود بہ خود اُس کی جھولی میں آگرتی ہے، خدا تو سب کا ہی ہے بس اُسے پانے کی تمنا کوئی کوئی کرتا ہے آج سجدے میں وہ لطف مِلا کہ اُسے سجدے میں نیند نے آلیا… ایک سفید برقعہ پوش عورت اُس کا ہاتھ پکڑ کر آسمانوں میں اُڑ رہی ہے اور اُسے کعبہ میں آبِ زَم زَم کے قریب چھوڑ دیا۔ پری نے محسوس کیا جیسے اُس کے کان میں کوئی سر گوشی سی ہو رہی ہے ” سنو پاکیزہ جذبوں اور سچے دِل سے مانگی گئی دعا کو اِس گھر کا مالک کبھی رد نہیں کرتا بس تمہاری نیت صاف، پختہ یقین اور ایمان کامل ہونا چاہیے” پری ایک دم سے اُٹھ کر بیٹھ گئی اب تو اُس کا بھروسہ رب کی ذات پر اور بھی مضبوط ہو گیا۔

پری کی زندگی بدل چکی تھی اور شائد اب تمام عمر کیلئے وہ نیکوں کاروں میں شامل ہوگئی۔ اُس نے اُٹھ کر دوبارہ وضو کیا اور خدائے یکتا کی یاد میں کھو گئی۔ یہاں عمر بھی نوافل کی ادائیگی میں مصروف تھا، اِس کے دِل پر بھی گہری ضرب لگ چکی تھی… اچانک اُسے قبرستان میں سے عجیب و غریب قسم کی آوازیں سنائی دینے لگیں اور یوں محسوس ہوا جیسے پیچھے سے کوئی بہت قریب آچکا ہے… اُس نے آنکھیں بند کر لیں۔ پری فجر کی نماز سے فارغ ہوئی اب تلاوتِ قرآن اور اشراق کی نماز تک اُس کی زندگی کا مقررہ وقت پورا ہو جانا تھا۔ تمام مراحل سے فارغ ہو کر وہ امی کے کمرے میں گئی اور دِل بھر کے اپنی نگاہوں سے اپنے والدین کے چہروں کے بوسے لیے مگر نظروں کی ہوس تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتی۔ جھیل سی گہری آنکھیوں میں سیلاب اُمنڈ آیا اور گلابی رُخساروں پر آنسوئوں کی پھیکی پھیکی دھاریاں اپنا اثر چھوڑتی ہوئی منہ کا ذائقی کڑوا کر نے لگیں۔ پری نے گھڑی دیکھی تو ملک الموت کی آمد میں صرف پانچ منٹ باقی تھے اُس نے ایک نظر اپنی ساری گُڑیوں پر ڈالی اب وہ زندگی کے تمام حسین مناظر یاد کرنے لگی، وہ بڑبڑائی ”کاش کے عمر کے گھر والے رشتہ لے کر آ جاتے”۔

وہ یہ بھی سوچ رہی تھی کہ شائد ہمارا مِلن اِس جہان میں نہیں بلکہ اگلے جہاں میں لکھا ہے لہذا اب تو مرنا ہی مقصود تھا۔ اب گڑگڑا کر اللہ پاک سے اپنے تمام گناہوں کی معافی طلب کرنے لگی اُسے یاد آرہا تھا کہ وہ بہت گناہ گار ہے، بہت سوں کا دِل دکھایا ہے، بہت بُرے کام کیے آج میرا یہ فانی حُسن جِس پر مجھے بہت مان ہے منوں مٹی تلے دبنے ولا ہے اور چند ہی روز میں میرے جسدِ خاکی کو کیڑے مکوڑے نوچ نوچ کر کھا جائیں گے۔ اِس سوچ نے آنسوئوں میں مزید اضافہ کر دیا کہ زندگی کتنی چھوٹی اور مختصر ہے پتہ نہیں ایک رات میں اللہ مجھ سے راضی ہوا بھی ہے کہ نہیں کاش میں اپنی گزشتہ تمام زندگی اللہ کو راضی کرنے میں گزار دیتی افسوس کہ میں نے تو نماز بھی آج ہی کی رات سیکھی۔ اُس کی نظر الماری میں مہنگے ترین ڈریس، جیولری، سینڈلز، میک اپ کے سامان اور لیپ ٹاپ وغیرہ پر پڑی تو بے اختیار منہ سے نِکل پڑا ” افسوس… سامان سو برس کا اور پَل کی خبر نہیں ” اب اُس نے پرس میں سے زہرمِلے پائوڈر کی ڈبی نکالی اور ایک ہاتھ میں پانی کا گلاس تھام کر سامنے گھڑی رکھ کے بیٹھ گئی بات صرف سیکنڈوں کی رہ گئی تھی۔ آخری لمحوں میں اُس نے اپنی بانہوں میں عمر کو محسوس کیا اور سارا زہر حلق میں اتار لیا اور اُٹھ کر لڑکھڑاتی ہوئی کچھ ہی دیر میں بیڈ پر گر گئی۔

”یہ کیا کھانے لگے تھے؟” عمر کے والد نے زور سے عمر کے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور اُسکے ہاتھ سے چھوٹ کر زہریلا پائوڈر ہوا ہو گیا۔”بس مجھے مر جانے دیا ہوتا، میں پری کے بِنا نہیں رہ سکتا… آپ کو میری کیا فِکر ” عمر چلایا۔ ”فِکر ہے بیٹا…! تمہیں خبر ہے کہ تمہاری ماں پر رات بھر میں کیا بیتی ہم نے تمہیں کہاں کہاں نہیں تلاش کیا ساری رات ایک لمحہ بھی چین سے نہیں بیٹھے کوئی سو لوگ تمہیں تلاش کر رہے ہیں ہر جگہ ساری رات فون کھڑکتے رہے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے دودھ والے کا جِس نے یہاں سے گزرتے ہوئے تمہیں دیکھ لیا اور ابھی جب دودھ لے کر آیا تو کہا، عمر آج اتنی صبح قبرستان میں کیا کر رہا ہے فلاں درخت کے نیچے ایک کونے میں بیٹھا… ورنہ ہمارا تو کبھی قبرستان کی طرف ذہن آتا ہی نہیں۔ اگر تم مر جائو گے تو پری کے ساتھ شادی کون کرے گا ؟ تمہاری ماں اور میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ تمہاری شادی پری کے ساتھ ہی ہوگی اور ہم آج ہی رشتہ لے کر جائیں گے چاہے کچھ بھی ہو جائے آج بات پکی ہو کر ہی رہے گی”۔

عمر مجسمہِ حیرت بنا اپنے والد کو تکے جا رہا تھا کہ اچانک کچھ سوچتے ہوئے بے تابی سے بولا!”پاپا مجھے آپ کا موبائل ملے گا ایک منٹ کے لیے اور ہاں آپ گھر چلیں میں بس ابھی آیا ” مگر تمہارا موبائل کہاں ہے؟” عمر نے کہا ”میں اپنا موبائل وغیرہ گھر میں چھوڑ آیا تھا کیونکہ یہاں پر وہ کِسی چور و چکے کے کام ہی آنا تھا ” والد نے عمر کو موبائل دے دیا۔ عمر نے جلدی سے پری کا نمبر ڈائل کرنا شروع کیا مگر وہ اب بند جا رہا تھا عمر مسلسل ٹرائی کرتا رہا اور موبائل مسلسل بند مِلا۔ عمر نے پریشانی کے عالم میں جلدی سے اقرا ء کا نمبر ڈائل کرنا شروع کیا جو دوسری دفعہ تین چار بیلوں کے بعد اُس نے رسیو کر لیا ” ہیلو ! جی کون” ” میں بات کر رہا ہوں عمر! اقراء تم جلدی سے پری کے گھر جائو جلدی سے اِسی وقت میں نے اُس سے ضروری بات کرنی ہے اُس کا نمبر بند جا رہا ہے۔ ” اِس وقت! اِس وقت تو وہ سوئی ہوگی تمہیں پتہ تو ہے کہ وہ چھٹی والے دِن بارہ بجے کے بعد اُٹھتی ہے ” اقراء نے غصے سے کہا” مگر میں کہہ رہا ہوں نہ پلیز خدا کیلئے پلیز جلدی جائوں میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں پلیز پلیز پلیز میری بات کروادو اُس سے ” اب اقراء نے کچھ سوچا! چادر سنبھالی، دیکھا تو سب گھر والے سو رہے تھے جو ابھی مزید دو گھنٹہ سونے والے تھے کیونکہ آج چھٹی کا دِن تھا۔

پری کی ماں پریشانی کے عالم میں پاس ہی کھڑی تھی جو ابھی اقراء کے دروازہ کھٹکھٹا نے پر اُٹھی تھی” آنٹی آپ جائیں آرام کریں یہ نیند میں لگ رہی ہے آپ پریشان نہ ہوں میں اِسے جگاتی ہوں”اقراء نے کہا اور پری کی ماں یہ سنکر چلی گئی۔”یہ لو کر لو بات ” اقراء نے وہی نمبر مِلا کر عمر کو کہتے ہوئے موبائل پری کے ہاتھ میں تھما دیا ” ہیلو ” پری نیم بے ہوشی کی سی حالت میں بولی۔”ہیلو! پری میں بول رہا ہوں عمر میری بات سنو! ہم نے اپنے رب کو راضی کر لیا ہے… اللہ پاک نے ہماری خلوصِ دِل سے بھیجی ہوئی عرضی منظو ر کر لی ہے، میرے گھر والے مان گئے ہیں اور آج ہی تمہارے گھر رشتہ لے کر آنے والے ہیں” عمر نے ایک ہی سانس میں پری کو سب کچھ کہہ دیا تھا۔

پری کانپتی ہوئی آواز میں بولی ”عمر! اب بہت دیر ہو چکی ہے میں نے زہریلا پائوڈر کھا لیا ہے اور اب تو بہت ہی زیادہ وقت گزر چکا ہے میں بس اب کچھ ہی لمحوں کی مہما  ہوں یہ سنکر عمر ہنسنے لگا ”تم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے زہر بھی دے سکتا ہوں… تمہارے پاس جو پائوڈر تھا وہ زہریلا نہیں بلکہ ہومیو پیتھک کی طاقت کی گولیوں کا تھاور رت جگے نے تم پر عنودگی طاری کر دی۔ اصل زہریلا پائوڈر تومیرے پاس تھا …” پری اب جاگ چکی تھی بولی” جی نہیں تمہارے پاس بھی پِسے ہوئے چاک کا پائوڈر تھا، ڈبی میں ڈالنے کا تو ایک بہانا تھا… تم تک پہنچنے کیلئے موت کو پہلے مجھ سے ملاقات کرنا ہوگی۔ اقراء حیرانگی سے پری کی باتیں سُن رہی تھی۔

Mohammad Ali Rana

Mohammad Ali Rana

تحریر : محمد علی رانا